107

ادارے بیچنے والی ریاست،پی آئی اے کی نجکاری اور پاکستان کی معاشی سوچ پر بنیادی سوال

ادارے بیچنے والی ریاست،پی آئی اے کی نجکاری اور پاکستان کی معاشی سوچ پر بنیادی سوال

تحریر ۔ شیخ محمد انور ریلویز
[email protected]

پی آئی اے کی نجکاری محض ایک ادارے کی فروخت کا معاملہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کی مجموعی معاشی سوچ، ریاستی حکمتِ عملی اور حکمرانی کے پورے ماڈل پر ایک گہرا اور تشویشناک سوال ہے یہ فیصلہ اس بات کا امتحان ہے کہ آیا پاکستان ایک پیداواری، اصلاح پسند اور خودمختار ریاست بننا چاہتا ہے یا پھر ایک ایسی ریاست جو ہر مالی بحران میں اپنے ہی اثاثے بیچ کر وقتی سانس لینے کو نجات سمجھ لے اصل سوال یہ نہیں کہ پی آئی اے خسارے میں کیوں ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ہم آخر کب تک ادارے بیچ کر گزارا کرتے رہیں گے؟ کیا یہ ایک مستقل حل ہے یا صرف چند دن کی مہلت خریدنے کا طریقہ؟ اگر ہر مالی بحران کا جواب قومی اثاثوں کی فروخت بن جائے تو یہ معیشت کی بحالی نہیں بلکہ اس کی بتدریج نیلامی ہے پاکستان کے عوام کو یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیئے کہ چین جب 1949 میں آزاد ہوا

تو پاکستان ان اولین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس نوآزاد ریاست کی مدد کی یہ کوئی افسانہ نہیں کہ پاکستان نے چین کو پی آئی اے کا طیارہ بطور تحفہ دیا یہ اقدام محض سفارتی خیرسگالی نہیں تھا بلکہ اس حقیقت کی علامت تھا کہ پی آئی اے ایک مضبوط، باوقار اور بین الاقوامی معیار کا ادارہ تھا یہی پی آئی اے ایشیا کی اولین ایئرلائنز میں شمار ہوتی تھی جس کے پائلٹس، انجینئرز اور انتظامی نظام کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا تھا آج سوال یہ ہے کہ وہی ادارہ، جو کبھی قومی وقار کی علامت تھا بدحالی کا شکار کیوں ہوا،کیا

جہاز اچانک پرانے ہوگئے،کیا پائلٹ یکایک نااہل ہو گئے یا پھر اصل خرابی اس نظام میں تھی جس نے اس ادارے کو دہائیوں تک سیاسی مداخلت،میرٹ کی پامالی اور ناقص حکمرانی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ؟ پی آئی اے کی نجکاری ایسے پیش کی جا رہی ہے جیسے یہ کسی لاعلاج بیماری کا واحد علاج ہو حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ طرزِ فکر بالکل ویسا ہے جیسے بیماری کی درست تشخیص کئے بغیر مریض کو زہر کا انجیکشن لگا دیا جائے وقتی طور پر شاید کچھ مالی دباؤ کم ہو جائے مگر مریض کی جان بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے یہی طرزِ عمل ماضی میں بھی اپنایا گیا “قرض اتارو،ملک بچاؤ” کے نعرے کے تحت قوم نے قربانیاں دیں،ٹیکس ادا کئے،مہنگائی برداشت کی مگر نتیجہ کیا نکلا قرض کم ہونے کے بجائے بڑھتا گیا اور ملک مضبوط ہونے کے بجائے مزید کمزور ہوتا چلا گیا یہ تجربہ ہمیں بار بار یہ سبق دیتا ہے

کہ وقتی فیصلے دیرپا مسائل کا حل نہیں ہوتے اس پورے معاملے کو ایک سادہ مگر گہری مثال سے سمجھا جا سکتا ہے اگر آپ کے پاس ایک گائے ہے تو آپ اسے ذبح کر کے چند دن گوشت کھا سکتے ہیں مگر پھر کیا ہوگا گوشت ختم ہو جائے گا اور ذریعہ روزگار بھی اس کے برعکس اگر آپ اسی گائے کی دیکھ بھال کریں،ل اسے سنبھالیں تو وہ روزانہ دودھ دے گی جسے بیچ کر مستقل آمدن حاصل کی جا سکتی ہے یہی فرق ہے اثاثہ بیچنے اور اثاثہ سنوارنے میں بدقسمتی سے پاکستان نے ریاستی سطح پر ہمیشہ ذبح کا راستہ اختیار کیا پرورش کا نہیں پی آئی اے ہو،اسٹیل مل ہو،بینک ہوں یا بجلی کے ادارے مسئلہ یہ نہیں کہ یہ نقصان میں کیوں گئے اصل مسئلہ یہ ہے کہ انہیں نقصان میں جانے دیا کیوں گیا

اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے اور ذرا ماضی میں جایا جائے تو 1990 کی دہائی میں فروخت کئے گئے چند بڑے سرکاری ادارے آج نہ صرف اربوں روپے کی مالیت کے حامل ہیں بلکہ قومی معیشت میں فعال کردار بھی ادا کر رہے ہیں مسلم کمرشل بینک لمیٹڈ اس کی نمایاں مثال ہے یہ بینک 1974 میں قومی تحویل میں گیا مگر سرکاری انتظام میں غیر مؤثر ہوتا چلا گیا اور خسارے کی علامت بن گیا اُس وقت یہی کہا گیا

کہ یہ ادارہ قومی خزانے پر بوجھ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس ادارے کی بنیادی صلاحیت کہاں گئی؟ 1991 میں نجکاری کے بعد یہی بینک پیشہ ورانہ انتظام،جدید ٹیکنالوجی اور مؤثر رسک مینجمنٹ کے باعث پاکستان کے مضبوط ترین بینکوں میں شامل ہو گیا جس کے اثاثے آج کھربوں روپے تک پہنچ چکے ہیں اور منافع مسلسل بڑھ رہا ہے یہاں ایک بنیادی سوال جنم لیتا ہے اگر یہی ادارہ سرکاری تحویل میں رہتے ہوئے اتنے ہی کھربوں روپے کا سرمایہ اور منافع پیدا کرتا تو اس کا فائدہ کس کو ہوتا ریاست کو،عوام کو،قومی ترقی کو تو پھر ایسا کیا ہوا کہ سرکاری دور میں یہی ادارہ خسارہ کرتا رہا اور نجکاری کے بعد منافع بخش بن گیا

اس سوال کا جواب نجکاری میں نہیں بلکہ حکمرانی میں چھپا ہوا ہے پاکستان میں نجکاری کو بار بار معاشی مسائل کا جادوئی حل بناکر پیش کیا گیا مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں پی ٹی سی ایل کی مثال آج بھی ایک کھلا سوال ہے کیا خریداروں نے پوری رقم ادا کی کیا ادارے کے ملازمین کو مکمل واجبات ملے کیا عوام کو سستی،بہتر اور قابلِ رسائی سروس حاصل ہوئی حقیقت یہ ہے کہ کئی نجی کئے گئے

ادارے یا تو بند ہو گئے یا ان کی خدمات عوام کی پہنچ سے باہر ہو گئیں لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہوئے مگر معیشت کو کوئی دیرپا فائدہ حاصل نہ ہو سکا بجلی، گیس،ریلویز،پانی اور ہوا بازی جیسے شعبے قدرتی اجارہ داریاں ہوتے ہیں ان میں حقیقی مقابلہ ممکن نہیں ایک شہر میں دو بجلی کے نظام یا دو گیس پائپ لائنیں بچھانا نہ معاشی طور پر ممکن ہے اور نہ سماجی طور پر ایسے میں نجکاری کا مطلب ریاستی اجارہ داری کو ختم کرنا نہیں بلکہ اسے نجی اجارہ داری میں تبدیل کرنا ہوتا ہے فرق صرف یہ رہ جاتا ہے کہ پہلے عوام کے سامنے جواب دہی کا ایک نظریاتی امکان موجود تھا اب وہ بھی ختم ہو جاتا ہے کے الیکٹرک کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں نجکاری کے بعد نہ بجلی سستی ہوئی اور نہ نظام بہتر بلکہ عوام کے مسائل میں اضافہ ہوا نجکاری کا ایک پہلو جو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے

وہ قومی خودمختاری ہے قومی ادارے ریاست کو یہ صلاحیت دیتے ہیں کہ وہ مشکل وقت میں عوام،صنعت اور معیشت کو سہارا دے سکیں جب یہی ادارے محض منافع کی منطق پر چلنے لگیں تو قومی ضرورت ثانوی حیثیت اختیار کر لیتی ہے غیر ملکی سرمایہ کار کے لئے پاکستان کی سماجی ساخت،غربت یا علاقائی ناہمواری کوئی معنی نہیں رکھتی اس کے لئے صرف منافع اہم ہوتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی پالیسی سازی اور عوامی فلاح کو مکمل طور پر منافع کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے لئے تیار ہیں یہ بات اب بالکل واضح ہونی چاہیئے کہ مسئلہ نجکاری یا سرکاری ملکیت کا نہیں بلکہ حکمرانی کا ہے

دنیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں چین،جنوبی کوریا،فرانس اور دیگر ممالک نے ریاستی اداروں کے ذریعے صنعت،ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کو مضبوط کیا انہوں نے اداروں کو سیاسی مداخلت سے آزاد کیا پیشہ ورانہ انتظام لائے،سخت احتساب نافذ کیا اور پھر نتائج حاصل کئے اس کے برعکس ہم نے ہر ناکامی کا جواب فروخت کی صورت میں دیا جو دراصل اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہر بحران میں سزا مزدور کو ملتی ہے افسر کو نہیں پاکستان ریلوے ہو یا پی آئی اے وہاں اکیسویں اور بائیسویں گریڈ کے افسران کی ایک پوری فوج موجود ہے اگر ادارہ کام نہیں کر رہا تو ذمہ دار یہی افسران ہیں مزدور نہیں مگر ہوتا کیا ہے نزلہ ہمیشہ غریب مزدور پر گرتا ہے

ملازمین کو نکالا جاتا ہے تنخواہیں روکی جاتی ہیں پنشن ختم کی جاتی ہے مگر بھاری اسکیل والے افسران اپنی کرسیوں پر براجمان رہتے ہیں اگر واقعی اصلاح مقصود ہے تو سب سے پہلے ان افسران کا کڑا احتساب ہونا چاہیئے اگر ادارے نہیں چل رہے تو ان “بھاری بھر کم” اسکیل والوں کو فارغ کیا جائے نہ کہ ادارے کو ہی فروخت کر دیا جائے ادارے بیچ دینا آسان ہے ادارے چلانا مشکل مگر ریاستوں کی پہچان مشکل فیصلوں سے ہوتی ہے آسان راستوں سے نہیں پی آئی اے کی نجکاری کو محض ایک کاروباری ڈیل کے طور پر دیکھنا خود فریبی ہے یہ دراصل اس سوال کا امتحان ہے کہ ہم کس قسم کی ریاست بننا چاہتے ہیں

ایک ایسی ریاست جو مشکل وقت میں اصلاحات کرے نظم و ضبط لائے اور اداروں کو سیاسی غلامی سے آزاد کرے یا ایک ایسی ریاست جو اپنے ہی جسم کے اعضا کاٹ کر چند دن کی زندگی خریدتی رہے اگر ہم نے اب بھی یہ بنیادی سوال نہ اٹھایا اگر ہم نے اب بھی علاج کے بجائے فروخت کو ترجیح دی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی آنے والی نسلیں صرف یہ نہیں پوچھیں گی کہ پی آئی اے کیوں بیچی گئی بلکہ یہ بھی پوچھیں گی کہ جب سب کچھ بیچا جا رہا تھا تو کسی نے یہ کیوں نہ کہا کہ ریاست کو بچانے کے لئے ادارے بیچنا نہیں بلکہ ادارے بچانا ضروری تھا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں