108

پا کستان امن فورس کا حصہ کیو ں بنے !

پا کستان امن فورس کا حصہ کیو ں بنے !

پا کستان نے بھارت کو جنگی میدان میں ہی نہیں،سفارتی میدان میں شکست تو دے دی، لیکن داخلی سطح پر بہت کچھ کر نے کی ضرورت ہے،اس پر حکمرانوں کی پوری توجہ مر کوز کر نی چاہئے ، لیکن اس کے بر عکس حکمران اپنے سیاسی مخالف کو گرانے اور راستے سے ہٹانے میں ہی لگے ہوئے ہیں ، اس کا بھر پورفائدہ اُٹھاتے ہوئے ملک دشمن دفاعی لحاظ سے دو طرفہ یلغار کی تیاریاں کر رہے ہیں، اس صورتحال میںحکمرانوں کا فرض ہے کہ منقسم قوم یکجا کریں،لیکن مزید تقسیم اور نئی خلیج پیداکی جارہی ہے ، نئی کشمکشوں کو جنم دیا جارہا ہے ،نئے شگاف پیدا کیے جارہے ہیں اور نئے محاذ کھولے جارہے ہیں، یہ کسی دشمن کا ایجنڈا تو ہو سکتا ہے‘ کسی محب وطن کا ہرگز نہیں ہو سکتاہے۔
یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ یہ دانستہ ہو یا نادانستہ،اس کی کوئی ایک وجہ ہو یا متعدد وجوہات ہوں، اس کا تاوان پورے ملک اور عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے، کیو نکہ ہر آنے والا پچھلوں کی غلطیوں سے نہ کچھ سیکھتا ہے نہ اس کی ذمہ داری لیتا ہے، اس لیے ہی آج تک دہشت گردی کی شکل میں ان پالیسیوں کو بھگت رہے ہیں، جوکہ ضیا الحق اور پرویز مشرف کے دور سے جاری ہوئیں اور جنہوں نے سڑکیں خون سے رنگ دیں،

اُس وقت بھی خیر خواہ آوازوں کو نظر انداز کیا گیا اور اج بھی کیا جارہا ہے ،اس وقت کچھ اہلِ منصب نے اپنے مفاد کیلئے امریکی دبائوکو قبول کرکے پوری قوم کو ایک عذاب میں مبتلا کردیا، پاکستان بہت برے حالات سے گزرا اور خدا کرے جلد اس کے برُے نتائج سے بھی باہر آسکے، لیکن ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔
اس وقت بھی ایک ڈو مور کے مطالبے نے پوری قوم کو ایک دلدل میں دھکیلا اور آج بھی ایک ڈو مور کا مطالبہ ایک گہری کھائی کی جانب دھکیل رہا ہے ،امر یکہ اور یورپ کا میڈیا مل کر ایک بار پھر پا کستان اور پاکستانی قائدین کی تعریفیں کررہا ہے ،امریکی جریدہ فارن پالیسی ٹرمپ کی نئی خارجہ پالیسی میں پاکستان کو’’وِنر‘‘ جبکہ بھارت کو واضح طور پر ’’لوزر‘‘ قرار دے رہا ہے اور امریکا کے نزدیک پاکستان ایک بار پھر قابل قدر اور کارآمد شراکت دار بن گیاہے ، لیکن اس کے عوض پا کستان سے کیا چاہتا ہے

،بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کا پاکستان سے بنیادی مطالبہ دہشت گردوں کے خلاف مزید کارروائیاں کرنا اور شدت پسندوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنا ہے،جبکہ پاکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اس کی سر زمین پر شدت پسندوں کی پناہ گاہیں موجود نہیں اور ان کے خلاف پہلے ہی خاطر خواہ کارروائیاں کر رہا ہے،جبکہ غزہ میں اتحادی فوج کا حصہ بننے بارے سوچے گا۔اس بارے پا کستان سوچ رہا ہے یا فیصلہ کر چکا ہے ، لیکن اس بارے ڈونلڈ ٹرمپ کی پوزیشن بالکل کلیئر ہے کہ ایک انٹرنیشنل فورس بنے گی،اس میں مختلف ممالک کی فوج ہو گی، ا س کی لیڈر شپ ڈونلڈ ٹرمپ کرے گا،

اس کا مقصد غزہ میں امن کے نام پر حماس کو ڈس آرمڈکرنا ہے،یہ اسرائیل کابھی مطالبہ ہے،اس پرپاکستان کا موقف بالکل واضح ہے اور ا س کا اظہار وزیر خارجہ اسحا ق ڈار نے کر بھی دیاہے کہ ہم غزہ جانے کیلئے تیار ہیں ،مگرحماس سے نہیں لڑیں گے ،یہ بیان دے کر جہاںاپنی پوزیشن بتادی گئی ہے، وہاںیہ پیغام جہاں پہنچنا تھا، وہاں پہنچا بھی دیا گیاہے،لیکن اگر اس موقف پر پا کستان ڈٹارہا تو ٹرمپ ناراض بھی ہو سکتا ہے، کیو نکہ ہم ایک طر ف امریکی کیمپ میں بیٹھے ہیں تودوسری جانب چین کے کیمپ میں ہیں،

اس کے ساتھ روس سے تعلقات بھی بنا رہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ آسانی سے نظر انداز کر نے والوں میں سے نہیں ،جیسے تعریف کھل کر کرتا ہے، اس طریقے سے ہی راتوں رات خلاف بھی ہو جاتا ہے،بھارت کی بھی ایسی ہی کو شش ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان سے ناراض ہوجائے،لیکن بھارت کی سازشیں کبھی کا میاب نہیں ہو پائیں گی۔
بھارت کی سازشوں کو جہاں ناکام بنانا ہے ،وہیں امر یکہ کے ڈومور کے مطالبے سے بڑی مو ثر حکمت عملی سے نکالنا ہے، پاکستان کو کسی طور پر غزہ میں فوجیں بھیجناچاہئے نہ کسی امن فورس کا حصہ بنا چاہئے، اس کا ایک تلخ تجربہ ہو چکا ہے ، ماضی میں اُس وقت کے بریگیڈیئر ضیا الحق اردن گئے تھے اور فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کی تھی، وہ وقت فلسطینی بھولے نہیں ہیں، ایک دور میں ایسا بھی ایشو اٹھا تھا کہ عراق فوج بھیجی جائے یا نہیں، یہ افواج پیس کیپنگ نہیں ہوتیں، یہ جنگ کیپنگ ہوتی ہیں،

ان کا کام ہی لڑنا ہوتا ہے،اس لیے پاکستان کسی صورت ایسی غلطی نہ کرے،موجودہ حالات میں پاکستان مخالف خوارج وقفے وقفے سے اس بات کو بار بار اٹھا رہے ہیں کہ پاکستان اسرائیل سے تعلقات بہتر کر رہا ہے، اس صورتحال میں ایسی کوئی بھی خبر خوارج کا نہ صرف بیانیہ مضبوط کرے گی ، بلکہ ملک میں سیاسی انتشار و احتجاج کے ساتھ دہشت گردی بھی مزید بڑھ جائے گی تو پھر پا کستان امن فورس کا حصہ ہی کیو ں بنے۔!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں