تحریر: ڈاکٹر رقیہ عباسی 89

پی آئی اے اصلاح یا اعتراف شکست

پی آئی اے اصلاح یا اعتراف شکست

تحریر: ڈاکٹر رقیہ عباسی
آج جب ایوانوں میں پی آئی اے کی نجکاری کے کاغذات پر دستخط ہو رہے ہیں اور اسے معاشی اصلاحات کی ایک عظیم فتح قرار دے کر مبارکبادوں کا تبادلہ کیا جا رہا ہے تو دل کے کسی گوشے میں ایک سوال سر اٹھاتا ہے کہ کیا واقعی یہ جشن کا مقام ہے یا یہ اس قومی شکست کا باقاعدہ اعتراف ہے کہ ہم اپنے گھر کو سنبھالنے کی سکت کھو چکے ہیں۔ اسلامی روایات ہمیں امانت اور دیانت کا درس دیتی ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل لوگوں کے سپرد کرو۔ کیا ہم نے ایک عظیم قومی اثاثے کو بطور امانت اس کی روح کے مطابق چلایا ہے یا اسے نااہلی اور اقربا پروری کی بھینٹ چڑھا کر آج اس حال میں پہنچا دیا کہ اسے بوجھ سمجھ کر کندھے سے اتارا جا رہا ہے۔

پی آئی اے صرف ایک ایئرلائن نہیں تھی۔ یہ فضاؤں میں لہراتا پاکستان کا سبز ہلالی پرچم تھا۔ یہ وہ ادارہ تھا جس نے ایمریٹس اور سنگاپور ایئرلائنز جیسے آج کے عالمی جائنٹس کی انگلی پکڑ کر انہیں چلنا سکھایا تھا۔ جب پی آئی اے کے جہاز دنیا کے بڑے ہوائی اڈوں پر اترتے تھے تو وہ پاکستان کی ترقی اور وقار کی علامت ہوتے تھے۔ آج اسے بیچ دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی خاندان اپنی غربت چھپانے کے لیے اپنے آباؤ اجداد کے تمغے نیلام کر دے۔ ترقی پسند دنیا میں بھی نجکاری کوئی شجر ممنوعہ نہیں ہے۔ یہ معیشت کو متحرک کرنے کا ایک اوزار ہو سکتی ہے لیکن اس کے پیچھے ایک شفاف حکمت عملی اور نیت کا ہونا لازمی ہے

دنیا میں ادارے اس وقت بیچے جاتے ہیں جب ریاست اپنی ریگولیٹری طاقت مضبوط کر چکی ہو لیکن ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ہم پہلے اداروں کو کرپشن اور سیاسی مداخلت کے ذریعے سفید ہاتھی بناتے ہیں پھر ان کی تذلیل کرتے ہیں اور آخر میں انہیں کوڑیوں کے دام فروخت کر کے اسے کامیابی کا نام دے دیتے ہیں۔ یہ نجکاری نہیں ہے بلکہ یہ ایک منظم ٹرسٹ خسارہ ہے جو عوام اور ریاست کے درمیان بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر ہم ایئرلائن نہیں چلا سکتے تو کل کو یہ سوال دیگر اہم قومی اداروں پر بھی اٹھے گا۔

سنجیدہ قومیں اس وقت خوشیاں مناتی ہیں جب ان کا تجارتی خسارہ کم ہو برآمدات بڑھیں اور جب ان کے نوجوانوں کو باعزت روزگار ملے لیکن یہاں سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا پی آئی اے کو بیچنے سے ہمارا گردشی قرضہ ختم ہو جائے گا۔ کیا عوام کو سستی فضائی سفری سہولیات میسر آئیں گی۔ کیا اس سے قومی غیرت کا گراف بلند ہو جائے گا۔ اگر جواب نفی میں ہے تو یہ جشن نہیں بلکہ احساسِ زیاں کا مقام ہے۔ ہم نے جہاز تو پرانے ہونے کا عذر پیش کیا لیکن کبھی اس زنگ آلود نظام کو بدلنے کی کوشش نہیں کی جس نے ان جہازوں کو گراؤنڈ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پی آئی اے ناکام نہیں ہوئی اسے ناکام بنایا گیا ہے

ادارے افراد سے نہیں نظام سے چلتے ہیں۔ جب تقرریاں میرٹ کے بجائے پرچی پر ہوں۔ جب یونین سازی کے نام پر سیاست چمکائی جاتی رہے گی اور جب وژنری قیادت کے بجائے بیوروکریٹک جمود مسلط ہوتا رہے گا تو پھر ایمریٹس بنانے والے ہاتھ بھی کشکول تھامنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہمارا مذہب بھی کہتا ہے کہ اسراف اور ضیاع گناہ ہے۔ ہم نے دہائیوں تک قومی سرمائے کا اسراف کیا اور اب اس کے ضیاع پر تالیاں بجا رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم نجکاری کو آخری حل کے بجائے آخری آپشن کے طور پر لیں۔ آج میڈیا و سوشل میڈیا پر اکثریتی قوم مطالبہ کر رہی ہے کہ ایک بااختیار کمیشن بنایا جائے

جو ان وجوہات کا تعین کرے جن کی وجہ سے یہ سونے کی چڑیا خاک چھاننے پر مجبور ہوئی۔ ادارے کو تباہ کرنے والے مہروں کا کڑا احتساب ہونا چاہیے اور آئندہ کے لیے ایسی پالیسی بنے کہ کوئی دوسرا قومی اثاثہ اس نہج تک نہ پہنچے۔ اثاثے بیچ کر وقتی طور پر جیب تو بھری جا سکتی ہے لیکن تاریخ کے اوراق میں ایسی قوموں کو کبھی فاتح نہیں لکھا جاتا۔ پی آئی اے کی نجکاری دراصل ہماری اجتماعی انتظامی نااہلی کا وہ تمغہ ہے جو ہم نے خود اپنے سینے پر سجایا ہے۔کاش ہم بیچنے کے بجائے بنانا سیکھ لیتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں