59

کیا جنات دیگر مخلوق کی ہئیت اختیار کئے جیسا ہم انسانوں کی ہئیت اختیار کرسکتے ہیں؟

کیا جنات دیگر مخلوق کی ہئیت اختیار کئے جیسا ہم انسانوں کی ہئیت اختیار کرسکتے ہیں؟

نقاش نائطی
۔ +9665677707

ہزاروں سال قبل حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق نسل انسانی شروع کئے جانے سے قبل ہی سے، اللہ رب العزت نے نور سے فرشتوں کو اور آگ سے جنات کو تخلیق کئے ہوئے تھے۔ جو صدا اللہ ربالعزت کی حمد و ثناء میں مشغول رہاکرتے تھے۔حکم رب تعالی حضرت آدم علیہ کو سجدہ کرنے سے انکار کرنے والے، مقرب فرشتے عزازیل سے شیطان رجیم قرار دئیے گئے جن کی آل اولاد میں خبیث شیطان اور صالح جنات کی اولاد مسلمان جنات ہم انسانوں سے تعداد میں زیادہ دنیا میں، ہمارے آس پاس یا ویران کھنڈروں میں یا ویران جگہوں پر آباد پائے جاتے ہیں۔ ہم انسانی آنکھوں سے اوجھل جنات کو یہ صلاحیت اللہ نے بخشی ہوئی ہے کہ مختلف مخلوقات کی شکل و صورت اختیار کرسکتے ہیں

اور چونکہ ہم انسانوں کو عطا ساٹھ تا اسی سال اوسطا” عمر مقابلہ جنات کو، کئی کئی ہزار سال کی عمر عطاکی ہوئی ہوتی ہے،اور ہم انسانوں کی بستیوں میں، ہمارے آس پاس اور بعضےہمارے ساتھ ہمارے گھروں میں رہتے آئے ہیں، وہ ہمارے بچپن سے ہمارے بارے میں اور ہمارے اباء و اجداد کے بارے میں بھی بہت کچھ علم رکھتے پائے جاتے ہیں۔ اس لئے عامل لوگ کچھ جنات کو اپنے قابو میں کئے، انکی معرفت ہم انسانوں اور انکے آباء واجداد کے بارے میں معلومات حاصل کئے، انکے پاس جانے والے ہم انسانوں کو ورطہ حیرت میں مبتلا کیا کرتے ہیں۔ نصف صد سال قبل ہندستان کی پہلی اسلامی یونیورسٹی دیوبند میں، بہت سارے جنات انسانی ہئیت میں علم دین حاصل کرنے آتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک انسانی طالب علم بچے نے، اپنے رہائشی ہاسٹل کے پاس رینگتے سانپ کو مار ڈالا تھا۔

حقیقیتا وہ مدرسہ میں علم حاصل کرنے والا ایک جن کا بیٹا ہی تھا۔ دانت کے بدلے دانت آنکھ کے بدلے آنکھ جان کے بدلے جان حکم اسلامی کی رو سے جنات اس قاتل طالب علم کو جان سے مارنے کا فیصلہ لینا چاہتے تھے۔۔کہ اس طالب علم کے ساتھ علم دین حاصل کررہے ایک جن بچے نے، اپنے دوست دوسرے طالب علم کو، قاتل طالب علم کو مارے جانے والے جن مشاورت فیصلہ کے بارے میں بتا دیا تھا۔

اور یہ بات اساتذہ کرام موقر علماء تک پہنچی تو ایک عالم دین نے (ہماری کج فہمی ہی کی وجہ اس عالم دین کا نام ہمیں یاد نہ رہا) اسی جن بچے کی معرفت جنات کی مشاورت تک رسائی حاصل کی تھی اور وہاں جنات علماء کے سامنے اللہ کے رسول محمد مصطفی ﷺ کی وہ حدیث موذی جانور کو ایذا رسانی سے پہلے ماردیا جائے بتائی تھی
“حدیث میں سانپ، بچھو اور موذی جانوروں کو مارنے کی ہدایت موجود ہے: سانپوں کو مار ڈالو، اور ایک کو دو دھاریوں سے اور ایک کو بغیر دم کے مارو، کیونکہ وہ بینائی حاصل کرتے ہیں اور اسقاط حمل کا سبب بنتے ہیں” (ترمذی) اسلئے چونکہ اس طالب علم کا اس معاملہ میں کوئی قصور نہیں، اس لئے جان کے بدلے جان اس طالب العلم کا قتل صحیح نہیں ہے۔ اس پر اس مشاورت میں طہ ہوا تھا چونکہ جنات کو سانپ والی ہئیت اختیار کرنا پسند ہے، اس لئے ہم انسانوں کے آس پاس پائے جانے والے سانپ کو دیکھ، اسے مارنے سے قبل یہ کہتے ہوئے کہ “اگر تو جنات میں سے ہے ہم تمہیں ایک موقع دیتے ہیں

یہاں سے غائب ہوجا، بصورت دیگر حدیث رسول ﷺ پر عمل پیرا ہم تمہیں مار دیں گے” یہ کہتے ہوئے لحظہ بھر کے لئے، اپنی نظریں پھیر دیں اگر وہ سانپ جن میں سے ہوگا تو غائب ہوجائے گا۔ ہم نے سنا ہے اس واقعہ کے بعد ، دارالعلوم دیوبند میں، علم دین حاصل کرنے والے جنات کے لئے بھی تعلیم کا بندوبست موجود ہے۔

اچانک غائب ہوتی ہر آسرار شخصیات یا کمپیوٹر فوٹو شاپ پر آے آئی ماہر انسانی شریر انگلیوں کھیل
اس تصویر میں شب کی تاریکی میں انسانی نساء شکل میں جن کو بلی کی شکل اختیار کئے دروازے کے نیچے پتلے حصہ سے گھر کے اندر گھستے جو بتایا گیا ہے، سی سی ٹی وی فوٹیچ میں ریکارڈ شدہ اصل جنات کی شکل تبدیل کرتی کلپ ہے یا کسی فلم کا فلمایا سین ہے؟ یا فی زمانہ موجودہ سائبر میڈیا فوٹو شاپ ای آئی ٹیکنولوجی ماہر شریر انگلیوں کا کھیل؟ جو ان گنت ایسی فرضی کلپ سائبر میڈیا پر وائرل کئے

ہم انسانوں کو متحیر العقل مستعجب کرتے رہا کرتے ہیں۔ اللہ ہی ہمیں واہمات سے آمان میں رکھے۔حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے، انسانوں کے ساتھ ہی ساتھ نہ صرف جنات پر رسول بناکر بھیجا تھا بلکہ جنات کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع و فرما بردار بنایا تھا۔اسی لئے حضرت سلیمان علیہ السلام نے، جنات کو حکم دئیے، نہ صرف ھیکل سلیمانی تعمیر کرائی تھی بالکہ بیت المقدس کو بھی بزے بڑے پھتروں سے تعمیر کرایا تھا۔

ہم انسانوں کی طرح جنات میں بھی مسلم اور کفار جنات ہوتے ہیں اور مذہب سے پرے، اچھے، با اخلاق اور برےسرکش شرارتی جنات بھی ہوتے ہیں۔ اچھے جنات اچھی صاف ستھری جگہ اور برے اور سرکش جنات گندگی والی جگہوں پر رہنا پسند کرتے ہیں، اچھے مشرک جنات، اپنے اپنے مسلکی و تفکراتی اعتبار مندروں مٹھوں، گرجا گھروں اور شمشان گھروں کے ساتھ، مسلم و عیسائی قبرستانوں میں رہتے ہیں تو، موحد مسلم جنات بھی، مساجد دینی مدارس اور عبادات والی جگہوں گھروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں

۔ ویسے تنہائی پسند جنات متروک مساجد، و منادر، لمبے عرصے تک بند رکھے گئے، حویلی نما بنگلوں میں، اونچے اور زیادہ انسانی پہنچ سے ماورا، برگد و تاڑ کے درخت، نیز کیوڑہ پھول والے اونچے درختوں پر بھی رہائش پذیر رہتے ہیں، انسانی بستیوں سے دور ویرانوں میں خصوصا” غیر آباد انسانی جزائر بھی جنات کے مسکن کے طور کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ اور عموما” ہمارے ناپاک رہتے لمحاٹ میں، ہم انسانوں کی بد آحتیاطی سے سرکش جنات، ہم پر سوار ہمیں تکلیف دئیے پائے جاتے ہیں

ہم انسانوں کی روزمرہ زندگی معمولات جیسے چڑھتے سورج کے ساتھ دن کے اوقات شروع ہوتے، اور سورج ڈھلے، بعد المغرب اختتام دن کےساتھ ختم ہوتی ہے، بالکل ویسے ہی، جنات کی روز مرہ زندگی معمولات، غروب شمس سے نصف ساعہ قبل، وقت تحریمی اوقات صلاة کے ساتھ شروع ہوتے، اور طلوع شمس کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔ اسی لئے ہماری بڑی بوڑھی نانی دادی امائیں، سرشام غروب آفتاب سے پہلے، چھوٹے بچوں کو، گھر سے باہر کھلے آسمان تک جانے نہیں دیتی تھیں۔ چونکہ بچے بعد العصر گھر کے باہر گلی کوچوں میں یا گھرکےپچھواڑے میدانوں میں کھیلنےجاتے، مغرب تک کھیل کود میں، مصروف رہے

، سر شام اپنے اپنے مسکنوں سے باہر آنے والے جنات کے اثرات تلے آسکتے ہیں، اس لئے مغرب نماز سے آدھا گھنٹہ پہلے، وقت تحریمی نماز والے وقت سےکافی پہلے، اسکول جاتے چھوٹے بچوں کو، گھر واپس آنے کی تاکید کئے، انہیں ہاتھ منھ دھوئےکھانے سےفارغ کروا، اسلامی اقدار، ان میں سرایت کرنے اور انکا ایمان و عقیدہ مضبوط کرنے، گھر کے سب بچوں کو ساتھ بٹھا، دین اسلام کے اقدار والے چھ کلمے، درود شریف کے ساتھ روز مرہ معمولات زندگی میں پڑھے جانے والی تمام مسنون دعائیں،

بڑی آواز سے انہیں پڑھوا، رٹہ لگوا، نہ صرف ذہن نشین کروائی جاتی تھیں، بالکہ ان چھ کلمات نیز مسنون دعاؤں کے معانی و مطلب ذہن نشین کروائے، نقوش ھجر مانند بچوں کےاذہان میں، اچھی طرح بٹھادیتی تھیں تاکہ بڑھتی عمر کے ساتھ، وہ ان اسلامی اقدار کو یاد رکھے زندگی کی ہما ہمی میں، شیطان رجیم کےبہکاوےکا شکار بنے، اپنے قدم کو ڈگمگانے نہ دیتے، محفوظ رکھ سکیں، اللہ رب العزت عرش معلی پر مستوی ہیں اور ہم انسانوں کو پیدا کئے جانے سے قبل، تاقیامت ہیداکئے جانے والے تمام انسانوں کی ارواح کو جمع کئے، لوح قلم سے انکی رزق و جاء موت نیز وقت موت متعین لکھ دئیے جاتے،

مقام علیئیں میں اسے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ اور ہم انسانوں کے ہزار چاہے، ہماری قسمتوں میں لکھی گئی رزق متعین،ہمیں ملنے سے کوئی طاقت اسے مانع نہیں رکھ سکتی ہے۔یہ وہ عقائد ہیں جو ہمارے ذہنوں میں، نقوش ھجر کی طرح ایسے نقش پائے جاتے ہیں کہ، بڑھتی عمر کے ساتھ، اس کافرستان ھند ہزاروں سالہ آسمانی سناتن دھرم کے دیکھا دیکھی، انکےغلط عقائد ہم مسلمانوں میں محلول ہوئے جیسا، جتنے کنکر اتنے شنکروالے وحدة الوجود شرکیہ عقیدے کا، نہ ہم مسلمانوں پر خاص اثر پڑتا ہے اور نہ مصروف معاش رہتے، ہم اپنی آسودہ زندگانی کے لئے، حرام و مباح رزق حاصل کرتے پائے جاتے ہیں؟

اسی لئے ہم اہل عرب اہل نائطہ قبیلے والے عموما” شراب و نشاء آور اشیاء تجارت نیز، سودی تجارت والی حرام کمائی کی طرف پھٹکتے بھی نہیں پائے جاتے ہیں، بلکہ مباح رزق جیسے فوٹو گرافی یا اس سے منسلک کاروبار، ویڈیو فلم کرایہ پر دینے والی تجارت ہو یا گانے بجانے والے شریط کی تجارت سے،ہمارے نوجوان بچتے پائے گئے ہیں۔ وہیں چونکہ ہم آل عرب تجار قبائل کی اولاد میں سے ہونے کی وجہ، ہمارے مرد حضرات، زمانے قبل سے، ھند و بیروں بند،سفر کرتے،چھ مہینے سال بعد یا کبھی کبھی دو دوسال بعد، وطن اپنے آل آولاد کے پاس پہنچنے والے وطیرہ باوجود، ہمارے قبیلے کی نساء انتہائی صابر و شاکر، اپنے اپنے شوہروں کی وفاشعار پائی جاتی ہیں۔ چونکہ ہمارے قبیلے والے بغرض تجارت ماقبل آزادی ھند، سری لنکا سیلون، پاکستان کراچی اور بنگلہ دیش ڈھاکہ میں مصروف تجارت تھے،
چونکہ ان میں سے اکثرہت اپنی آل اولاد کے ساتھ مستقر تجارت رہا کرتے تھے، بعد آزادی ھند و پاک بٹوارے کے وقت، اپنی تجارت سمیٹ، لٹے لٹائے واپس اپنے مستقربھٹکل آنے کےبجائے، اپنے آباء و اجداد آل عرب تجار کی روایات مطابق، وہیں مستقر تجارت، مستقل سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ اور جن کی بیویاں اپنے آبائی وطن بھٹکل و مرڈیشور مقیم تھیں، بحالت مجبوری بٹوارء ھند، انکے شوہر نامدار واپس نہ آسکتے پس منظر باوجود، قاضی شہر سے رجوع ہوئے، اپنے شویروں سے خلاع لئے، دوسرے نکاح کئے، از سر نوع، اپنا گھر بسانے کے بجائے، اپنے بچوں کی پرورش کو ہی، اپنی زندگی کا مقصد بنالیا تھا

اور الحمد للہ بعد ایمرجنسی، بھارت میں قائم ہوئی پہلی نون کانگرئس جنتا دل حکومت میں، سافٹ ھندتوا نظریاتی اٹل بہاری واجپائی کے وزیر خارجہ بنتے، ھند و پاک دوستی ہوتے پس منظر میں، پاکستان میں مجبورا” پھنسے بیشمار لوگوں نے، وزٹ ویزہ ھند آکر، اپنے منکوحہ کو، انکے لمبے تیس سالہ انتظار کے شکوے دور کرانے کی بھرہورسعی کی تھیں۔ انہی میں سے ایک، پاکستان سے وزٹ ویزہ پر اپنی پہلی بیوی بچوں کے پاس آئے،ایک شخص آشوکا (فرضی نام) نے، تیس سال بعد، ملاقات ہونے والی اپنی چہیتی بیوی بچوں کے پاس وقت بتائے، واپس پاکستان جانے کے بجائے، اپنی پہلی بیوی بچوں کے سامنے دم توڑے، ان سے اپنی وابستگی محبت کے نقوش اسی سرزمین ھند پر چھوڑتے ہوئے،

سرزمین ھند میں خود کو سموئے، ھند سے اپنی محبت و چاہت کا ثبوت بھی دئیے تھے۔ انہی کے رشتے کی ایک لڑکی جس نے وزٹ ویزہ پر ھند آکر اپنے رشتے ہی کے بھائی سے شادی کئے، صاحب اولاد ہونے کےباوجود، ھند پر موجودہ دور میں، حکومتی باگھ ڈور سنبھالنے والے، نفرتی سنگھی مودی امیت شاہ حکومت نے، اسے پاکستانی قرار دیتے ہوئے، اس نساء کو اپنے کم سن بچوں سے دور کئے، جیل کی کال کوٹھری میں قید کردیا تھا۔ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی، سر زمین ھند سے ہماری محبت و وابستگی کا ان نفرتی ٹٹوؤں کو کیا پتا؟ کہ ہم ان سے زیادہ اپنی سرزمین ھند سے والہانہ محبت رکھتے ہیں

۔ان واقعات کو تفصیل سے یہاں لکھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہمارے اطراف بھی ہماری انکھوں سے اوجھل، جنات رہتے ہیں۔ اور ان شریر و خبیث جنات سے آمان کے لئے، ہمارے اباء و اجداد نے، ہمارے بچپن میں، پچاس ایک سال قبل کافی کچھ حفاظتی اقدام پرعمل پیرا رہتے، اور ساتھ ساتھ بچپن کے، ان معصوم اذہان کو، ہمارے دین اسلام عقائد سےانتہائی مضبوط کیا کرتے تھے۔چونکہ ان ایام بھٹکل و اطراف بھٹکل اہل نائطہ علاقوں میں، اہنے آل یمن طرز رہائشی گھر،ایک لمبی قطار میں، تین دیوراوں پر دو، ذرا باریک مگر طویل تر گھر تعمیر کرتے ہوئے، ابتدائی حصہ میں رہائشی گھر،پھر چھت کے ساتھ دالان والی بیٹھک بعد، پکوان گھر، وضو کرنے، نہانے، پیشاب کرنے والے حمام اور ان ایام نساء حیض والے ریڈی میڈ پیڈ عدم دستیابی والے پس منظر میں، نساء کے ایام حیض تبدیل کئے جاتے

پیڈ کے طرز استعمال ہوتے کپڑے رکھنے، اور ان ایام گھر ہی میں تولیدی نظم ہوتے پس منظر میں، تولیدی عمل، متعین کمرہ اور پھر کھلے آسمان جھاڑ جھنکاڑ پر مشتمل چھوٹے سے باغ کے بعد، اور فی زمانہ آج کے خود ساختہ ایشور بھگوان کے آوتار وشؤ گرو مشہور، مہان مودی جے کے سوچیہ بھارت ابھیان سے نصف صد سال قبل، اپنے رہائشی گھر آخری سرحد پر بیت الخلاء تعمیر کئے جاتے تھے۔ اور تمام گھروں کے آخری حصہ تعمیر بیت الخلاء بعد، ایک پتلی سے راہ گرز چھوڑی جاتی تھی جس سے گزرتے ہوئے، گاؤں کے مویشی گائے بھینس جاتےہوئے، پچھواڑے کھلے میدان پہنچتی تھیں۔ مختلف گھنٹی بندھے مویشی اس راہ گزر سے آتے جاتے تھے،اس لئےان ایام رہائشی گھروں کے پچھواڑے والی چھوڑی گئی

راہ داری کو،گھنٹی ڈومی کہا جاتا تھا۔ پچاس سال قبل ان ایام ڈرنیج سیوریج سسٹم اور سیفٹی ٹینک سسٹم عدم ماورائیت دور میں، بڑے مویشی عموما” انسانی غلاظت میں، اپنا رزق پائے۔ ان بیت الخلاء سے تمام انسانی غلاظت پاک و صاف کر دیا کرتے تھے۔ ان ایام گھر کی نساء کو بھی ، قبل المغرب وقت تحریمی صلاة سے پہلے سے، شب کے اوقات میں حاجت روائی بیت الخلاء جاتی نساء کو بھی، کھلے آسمان ادھر ادھر آتے جاتے گزرتے جنات سے آمان میں رہنے، سر پر ڈوپٹہ اوڑھے، بسم اللہ اور ااستغفار پڑھتے ہوئے

، بیت الخلاء جاتے، کھلے آسمان باغ سے گزرنے کی ہدایت کی جاتی تھیں۔ اور بیت الخلا اندر داخل ہوتے ہوئے اور بیت الخلاء سے نکل واپس گھر آتے ہوئے، مسنون دعاؤں کا اہتمام کرنے کی تاکید کی جاتی تھیں۔ تاکہ بیت الخلاء میں موجود رہنے والے خبیث جنات سے نہ صرف آمان پائی جا سکے۔ بلکہ حاجت روائی بعد اسکے ہمراہ خبیث جنات بھی گھر میں داخل نہ ہوسکیں۔

دور جدید کے اعلی تعلیمی پس منظر میں، ہم اپنے نصف صد والے دور کے اباء و اجداد کو غیر تعلیم یافتہ، انپڑھ، جاہل، اجڈ سمجھتے تھے لیکن وہ فی زمانہ اعلی تعلیم یافتہ ترقی پزیر ہم انسانوں سے،عقل و فہم و ادراک میں تیز تر تھے۔ اسی لئے سرکش مشرک جنات کو گھر سے دور پچھواڑے بیت الخلاء تعمیر کئے انہیں اپنے رہائشی گھروں سے دور ہی رکھتے تھے۔اور کسی بھی صورت ان سرکش مشرک جنات کو، اپنے گھر داخل ہونے سے روکنے کے لئے۔ دھرتی پر ان جنات کے پھیلتے قبل المغرب اوقات میں، کومجان ماٹے میں آگ پر لوبان جلائے ہوئے، پورے گھرکےکمروں کونوں کونوں تک، اس کا بخار یا دھواں پھیلائے، اپنےگھروں میں انجانے میں، گھسے سرکش و مشرک جنات کو، اپنے گھروں سے باہر بھگائے، اگلے پچھلے داخلی و بیرونی دروازوں کھڑکیوں کو بند کئے،

اپنے تمام بچوں کو ایک ساتھ بٹھائے، ذکر واذکار استغفار کی محافل سجائے، اپنی آل اولاد کو ان سرکش جنات سے آمان میں رکھے، اپنی اولاد کی اسلامی اقدار تربیت کرتے پائے جاتے تھے۔ ان ایام ہر گھر میں گھر کی نساء کے نماز پڑھنے کا ایک کمرہ مخصوص ہوتا تھا۔ جہاں گھر کی تمام نساء،نہ صرف نمازپڑھے بلکہ ذکر واذکار کئے،اپنے پورے گھر کو، اچھے اور مسلم جنات کے لئے بھی، ایک خوشنما دینی ماحول مہیا کرتے پائی جاتی تھیں۔ پچاس ایک سال قبل ہمارے دور کے چچا،المحترم مولوی خواجہ خلفو علیہ الرحمہ کے گھر دارالسلام کے سامنے ہی، انکے داماد المحترم محی الدین منیری صاحب علیہ الرحمہ کے گھر، سال میں دو مرتبہ پورا دن گزارنے جب ہمارے گھر والے سبھی اراکین جاتے تھے

تو ہم نے انکے گھر “غریب خانہ” کے داخلی راہداری کے بعد والے پہلے ھال کے سیدھے ہاتھ پر،باریک مگر قدرے لمبا سا کمرہ چٹائی بچھائے۔ کچھ قرآن مجید رکھے، مسجد کے ماحول والا کمرہ ہم پاتے تھے۔جہاں نہ صرف گھر کی خواتین نماز پڑھتی اور ذکر و اذکار کرتی پائی جاتی تھیں، بالکہ خود محترم منیری صاحب بھی، مسجد سے فرض نماز واپسی پر،اسی مسجد نما کمرے میں، کافی وقت بیٹھے، نفل نماز و ڈکر و اذکار میں توضیع وقت کرتے ہم انہیں پاتے تھے۔

چونکہ ہر اسماثی مذاہب کے ساتھ انکے تفکراتی اختلافات والے فرقہ جاتیوں میں بھی، جنات پائے جاتے ہیں اس لئے ان ان مذہب والوں کے لئے، مسلم جنات بھی لادین جنات میں سے ہوتے ہیں۔ اسی لئےاپنی اہنی آل اولاد کو، ان لادین جنات کے اثرات سے آمان کے لئے، وہ مختلف مذاہب والے لوگ، خصوصا ہزاروں سالہ آسمانی سناتن دھرم والے، اپنے اپنے گھروں میں، اپنے اپنے اعتبار لائق ہرستش بھگوانوں کی مورتیاں یا انکے فوٹو فریم رکھے، اپنے اپنے حساب سے پوجا گھر بنائے پائے جاتے ہیں

اور ہر صبح حصول معاش نکلنے سے پہلے،اپنے اپنے بھگوان کی پرستش کرتے پائے جاتے ہیں اور فی زمانہ ایک ہم نام نہاد مسلمان ہیں، گھر کے اندر، گھر کی تمام نساء کے لئے، صلاة و اذکار عبادت لائق ایک چھوٹا کمرہ متعین کیا کریں، جس سے گھر میں ایک روحانی مذہبی ماحول بنائے رکھے، سرکش مشرک جنات کے لئے، اپنا گھر ممنوع قرار یا جائے تو، موحد مسلم اچھے جنات کو، اپنی طرف ملتفت کرتا پایا جاسکے۔ یہ تو ممکن نہیں ایسا روحانی اسلامی ماحول تیار کئے بنا ہی، ہم اپنے گھروں سے سرکش و مشرک جنات کو اپنی آل اولاد سے دور رکھ پائیں یہ اس لئے بھی کہ، فی زمانہ اس جدت پسند اعلی تعلیم یافتہ پس منظر والے ماحول میں، گھر کے تمام مکینوں کے لئے، مختص تعمیر کئے گئے

جدا جدا کمروں میں، تعمیر اٹیج باتھ روم، جو بیت الخلا کے طور بھی استعمال ہوتے ہیں، سرکش و مشرک جنات کو اس میں داخلے سے ہم کیسے روک پائیں گے، اور آٹیج باتھ کے دروازے بچوں کی لاعلمی میں، کھلے رکھنے کی وجہ سے، نیز بیت الخلاء آتے جاتے وقت پڑھنے والی مسنون ادعیہ ماورائیت ہی کی وجہ سے، نیز ہمارے گھروں میں صدا گونجنے والی تیز موسیقی آواز یا ٹی وی پر وقتا”” فوقتا” چلتے رہنے والے مندر بھجن آوازیں آتے رہنے کی وجہ سے، ہمارے پورے گھروں میں ہم سرکش و مشرک جنات کی آزادانہ نقل و حرکت قابو میں رکھنے،ہم ناکام پائے جاتے ہیں۔

سب سے اہم بات۔تقریبا” چالیس پچاس سال قبل موجودہ زمانے کے جدت پسند نساء حیص پیڈ مقامی مارکیٹ دستیابی سے پہلے والی نساء، ایام حیض اپنے بہتے گندے خون کو سوتی کپٹروں والے خود ساختہ پیڈ پر جذب کرلیا کرتی تھیں اور وقت وقت، اسے اپنے ہاتھوں سے دھوتے گندے حیض خون کو نالیوں میں بہائے، خبیث جنات کی دسترس سے دور رکھا کرتی تھیں، اور آج کی اعلی تعلیم یافتہ جدت پسند، اپنے آپ کو عقل مند سمجھنے والی نساء، دوران حیض جاری رہنے والے اپنے گندے خون کو، نساء پیڈ پر جذب کروائے

، بظاہر پلاسٹک تھیلیوں میں بند بلدیہ برد کرتی ہیں، لیکن انہیں کیا پتہ؟ گاؤں شہر کے باہر، کچرے پھینکے جانے والے ویرانوں میں،پلاسٹک و کانچ جمع کوتے غریب بچے، ہم آپ کے گھروں سے بند تھیلوں میں پھینکے کچرے میں، انکے لئے کچھ کارآمد پلاسٹ و کانچ کی اشیاء تلاش کرنے، بند پلاسٹک تھیلیوں کو کاٹ، اپنے لئےدرکار اشیاء کو لئے، باقی کچرے کو یونہی کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور ان کھلے کچرے میں تھیلیوں میں بند نساء پیڈ تھییلیوں کو ، اپنے لئے غذا تلاش کرتے کتے، ان تھیلیوں کو اور نساء پیڈ تک کو پھاڑ خون سے لٹ پت نساء پیڈکو کچرے کے ڈھیر پر کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ تعفن زد بدبودار ماحول میں رہنا پسند کرنے والے خبیث جنات، ان نساء پیڈ کو،سونگھتے ہوئے،

اپنی خداداد صلاحیتوں کی بناپر،وہ چاہیں تو اس کھلے خون آلود پیڈ والی نساء تک پہنچتے ہوئے، اسے اپنے قابو میں کئے، اسکے ساتھ رہنے لگتے ہیں اور اس کے ساتھ اس کے علم کے بغیر، اس سے حرام کاری کرتے بھی پائے جاتے ہیں۔ یوں ان خبیث جنات کی شکار لڑکیاں سوتے وقت اپنے سینے و بدن پر دباؤ محسوس کرتی شکایات ، اور لیکوریا سقم کی شکایت کے ساتھ یا تو انگریزی ادویات ڈاکٹروں کے ہاتھوں معشیتی طور لوٹی جاتی رہتی ہیں ، اور ڈاکٹری علاج شفایابی نہ پائے، معاشرے میں پھیلے بعض مخصوص عاملین یا گویا پنڈتوں کے کمیشن ایجنٹ دلالوں کی معرفت،ان نام نہاد مسلم عاملین یا ھندو پنڈتوں کے ہاتھوں پھنس جاتی ہیں تو اپنا دین و ایمان، عزت آبرو تک کھوئے، دنیا وآخرت برباد کر بیٹھتی ہیں

۔ فی زمانہ ان تیس چالیس سالوں میں، ان نساء حیض خون آلود پیڈ بلدیہ ڈرم توسط سے، شہر کےباہر،کتوں ہی کی مہربانی سے، خون آلود پیڈ کھلے کچرے کےڈھیر پر پائے جاتے وقت کے بعد سے، ہر مذہب کی نساء میں، اس اقسام کے روحانی مرض بڑھتے ہم پاتے ہیں ۔ اور مارکیٹ میں جس مرض کی کثرت بڑھتی ہے، اسکےمعالج ڈاکٹر طبیب و عامل، کویا پنڈتوں کی بہتات معاشرے میں ہونے لگتی ہیں۔ ان روحانی علاج معالج بننے کے لئے، کسی اسکول کالج یونیورسٹی تعلیم کی ضرورت کم کسی اچھے عامل کویا یا پنڈت کا سنگ و تجربہ کافی ہوتا ہے اس روحانی علاج ماہر عامل بننے کے لئے، کسی ویران مندر و بنگلے میں یا قبرستان شمشان گھاٹھ، کچھ گھنٹے تنہائی میں گزار، شیطان رجیم کو خوش کرتے،

اسکے کہے یا اشارہ کئے کچھ غیر شرعی اعمال مستقل کئے، کسی چھوٹے موٹے جن کو اپنے قابو میں کئے، آسانی کے ساتھ، مذہبی عامل کویا یا ٹانگل بنا جاسکتا ہے۔کافی سال قبل اسی موضوع پر،مقامی زبان نائطہ میں لکھا وہ کالم” گڑگڑی میراں آنی گویا گری” کے بعد گڑگزی میراں کی معشیتی زندگی اپنے پورے شباب پر، بھٹکلی قارئین کو یاد ہوگا۔
شیطان کوخوش کرتے ہوئے غیر شرعی کام کا جتنا بلند ترین امتحان دیا جائے گا، اتنا ہی بڑا اور طاقت ور جن، ان عاملین کے قبضہ میں آیا پایا جاتا ہے۔ کچھ عاملین بڑے جنات کو قابو میں کرنے، ویران جزیروں پر جاکر مراقبہ کرتے پائے جاتے ہیں۔ کیرالہ تامل ناڈ ساحل کے سامنے کی طرف سمندر درمیان، لکشدیب جزیرے سے قریب والے ویران جزیروں پر جاکر، کسی جن کو قابو میں کرنے والے عاملوں کو، دیو والے عامل، دیوا ویلے کویا،

یا دیو تانگل، بھی کہا جاتا ہے ۔ کلکتہ بنگلہ دیش قریب والے سندر بن جھیل یا سندر بن جنگل والے جن کو قابو کرنے والے بنگالی عاملین کی ھند و پاکستان میں بڑی مانگ ہوتی ہے۔ ویسے ہی سوڈان سومالیہ والے افریقی جنگلوں کے جنات کو قابو میں کئے، کالے عاملین کی عالم بھر میں مانگ ہوتی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اللہ اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک بندہ اللہ کی رحمت، مغفرت اور مدد کے بارے میں یقین رکھتا ہے، اللہ اسی طرح اس سے معاملہ فرماتا ہے.
اسی طرح انسان جب کسی کے اس پر جادو ٹونا کرنے والے واہمہ کا شکار ہوجاتا ہے تو، اس واہمہ کو تقویت دیتی چیزیں ہوتی، اسے نظر آتی رہتی ہیں۔یاد رہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔“ [صحيح مسلم/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 7417] کی رؤسے، وقت وقت سے ہم مومنین کو کسی نہ کسی تکلیف و آزمائش کاشکار بنائے ہمارے صبر و استقامت کا امتحان لیا جاتا رہا ہے اسلئے اللہ ہمیں جس حال میں بھی رکھے، ہمیں اللہ کی ذات پر ایمان کامل رکھے اسی سے اس تکلیف والی مصیبت گلو خلاصی کی دعا مانگتے رہتے ہوئے،

اپنے طور خود مطمئن و خوش رہنے کی کوشش کرتے پائے جائیں۔اور باقی سب اللہ پرچھوڑ دیں انشاء اللہ ہمارا اللہ ہمارے ساتھ حسن سلوک کرتا پایا جائیگا وما التوفیق الا باللہ۔آخر میں ایک نکتہ،نساء حیض گندے خون والے پیڈ کو، کچرا ڈرم حوالے کئے جانے کے اثرات بد، علم آگہی بعد کیا ہمیں اپنے پچاس سال قبل والے، حیض دوران، سوتی کپٹروں والے خود ساختہ پیڈ استعمال کو دوبارہ شروع کرنا چاہئیے؟ فکر معاش گھر سے باہر رہتی نساء و تعلیم حاصل کرنے اسکول و کالج جاتی جوان بچیوں کے لئے، یہ حیض کو جذب کرتے،پیڈ معرض وجود میں آئے تھے۔ لیکن مستقل گھر بیٹھے رہنے والی نساء کو، انکے پھینکے خون آلود پیڈ سے،ممکنہ ہونے والے خبیث جنات حملوں کے بچاؤ خاطر اپنے آپ کو محفوظ رکھنے، یقینا پیڈاستعمال بند کرنا ضروری لگتا ہے، اس سےفضول اڑائی جانے والی رقم بچت بھی ہوگی

اور خبیث جنات اثرات سے آمان میں بھی رہیں گے۔ہاں البتہ اگر کوئی نساء بدستور نساء پیڈ استعمال جاری رکھنا چاہے اور خبیث شیاطین کے اثرات بد سے بھی آمان چاہے تو، اس کے لئے لازم ہے، استعمال بعد خون آلود پیڈ پر، تیز دھار پانی پائیپ سے پانی کی پوھار، پیڈ پر چھوڑے، اپنے گندے خون کو نالی میں بہائے، پھر ااس بھیگے ہوئے پیڈ کو پلاسٹک میں بند کئے، کچرا ڈبہ میں پھینک سکتی ہیں۔ واللہ الاعلم بالتوفیق الا باللہ

اچانک غائب ہوتی ہر آسرار شخصیات یا کمپیوٹر فوٹو شاپ پر آے آئی ماہر انسانی شریر انگلیوں کھیل
مختلف جنات و شیاطین والی کلپس

ہ۔ ہمزاد
ہر انسان کے دو ہمزاد ہوتے ہیں،انسانی لے ساڑھے رہتے ہیں، ایک فرشتے میں سے جوانسان کو برائی سے روکنے بھلائی کی دعوت دیتے پائےجاتے ہیں اور دوسرا ہمزاد خبیث جنات میں سے ہوتا ہے جو انسان کو برائی کی دعوت دیتا رہتا ہے اللہ کے رسول محمد ﷺ کا ہمزاد اللہ لے فضل سے مسلمان ہوچکا ہوتاہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں