70

سلطان الزاکرین حضرت خوااجہ صوفی محمد االطاف حسین نقشبندی مجددی ؒ — ذکر میں ڈوبا ہوا ایک زمانہ

سلطان الزاکرین حضرت خوااجہ صوفی محمد االطاف حسین نقشبندی مجددی ؒ — ذکر میں ڈوبا ہوا ایک زمانہ

تحریر!صاحب زادہ ذیشان کلیم معصومی
جب آسمان سیاہ ہو جائے، جب زمین پر ہنگامہ ہو، اور دل پر سکوت طاری ہو۔تب کہیں سے ایک صدا آتی ہے، ”اللہ ھو!”یہ صدا صرف آواز نہیں ہوتی، یہ روح کی بیداری ہوتی ہے، دل کی تطہیر، اور قلب کی آبیاری۔ایسی ہی صدائیں اُس فقیر کامل کی زندگی کا حصہ تھیں، جسے دنیا حضرت خواجہ صوفی محمد الطاف حسین نقشبندی مجددیؒ کے نام سے جانتی ہے، اور عشاق کی زبان میں وہ ”سلطان الذاکرینؒ” کہلاتے ہیں

یہ اُن ہستیوں میں سے تھے جنہیں دیکھ کر خدا یاد آ جائے، جن کی خاموشی علم کی کتاب، جن کا تبسم بندگی کا اظہار، اور جن کی مجلس دنیا سے بے نیاز کر دینے والی کیفیت میں بدل جایا کرتی تھی۔ان کی پوری حیات طیبہ گویا ایک ذکر مسلسل تھی—زبان پر اللہ کا ذکر، دل میں عشق مصطفی ﷺ، ہاتھ میں خدمتِ خلق، اور نگاہ میں فقر کا غرور۔
21 مئی 1929ء کو ضلع گورداسپور کے گائوں بھانبڑی کی گود میں وہ مبارک لمحہ اترا جب ایک ایسا چراغ روشن ہوا، جس کی روشنی نے زمانوں کو منور کرنا تھا۔بچپن ہی سے خاموش طبع، مہذب، عبادت گزار، اور ذکر میں مشغول۔ وہ کھیل سے زیادہ قناعت کے قائل، اور شور سے زیادہ سکوت کے راہی تھے۔

گلیوں میں بچوں کے ہجوم سے دور، مسجد کے سائے میں ان کی ننھی انگلیاں تسبیح کے دانے چُنتی تھیں، اور زبان پر ”اللہ، اللہ” کی سرگوشی رہتی۔ابتدائی تعلیم نیک سیرت والدہ کی گود کے بعد گائوں میں ہوئی، پھر اعلیٰ تعلیم کے مراحل میں میٹرک، بی اے اور ایل ایل بی میں کامیابیاں حاصل کیں۔ مگر ان کی طبیعت کا رخ علم کے ظاہری پہلو سے زیادہ باطنی معرفت کی طرف مائل رہا۔ان کا علم فقط کتابوں میں قید نہیں تھا، وہ علم جو چہرے سے چھلک جائے، آنکھ سے ظاہر ہو، اور سجدوں میں پگھل جائے

—یہ ان کا سرمایہ تھا۔قیام پاکستان کے بعد پاکستان ریلوے میں بطور سپیشل ٹکٹ ایگزمین آفیسر ملازمت اختیار کی، مگر ان کی روح کی اصل پرواز تب شروع ہوئی جب وہ سلطان الاولیاء حضرت صوفی نواب الدینؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔دستِ بیعت ہوا تو گویا خز ائن عرفان کھل گیا۔آپ نے مرید ہونے سے قبل کچھ شرائط عرض کیں:جب شیخ کامل نے اقرار فرمایا اور وہ اپنی نگاہ باطن سے پوری بھی کردیں تو پھر آپ بارگا ہ شیخ میں حاضر خدمت ہوئے اور عرض کی”میں اب آپ کا لوہے کی لٹھ جیسا مرید ہوں !”اور ساری زندگی ولایت طریقت کے آفتاب و مہتاب ہوکر بھی اپنی پہلی والی اسی بات کو نبھاتے رہے

اور شیخ کامل اور انکے جانشین عالمی مبلغ اسلام حضرت خواجہ محمد معصوم صاحب کا بھی اایسا ادب کیا جسکی مثال نہیں اپکی استقامت اور ادب کو دیکھ کر آپکے پیر کامل سلطان الائولیاء نے فرمایا:”جو کچھ میرے پاس ہے، تمہیں عطا کیا!”یوں ایک مردِ قلندر نے فقر کی چادر اوڑھی، اور دنیا کے زرق برق مناظر کو تیاگ کر روحانیت کی شاہراہ پر گامزن ہو گئے۔حضرت سلطان الذاکرینؒ کی زندگی کا ہر لمحہ عبادت سے آشنا، اور ہر سانس ذکر سے مہک رہی تھی۔تہجد، اشراق، چاشت، اوابین—نمازیں اُن کے جسم کا لباس،

اور وضو اُن کا وقار تھا۔بغیر وضو کسی سنگی مرید سے کبھی بات تک نہ کرتے ،ہمیشہ باوضو رہتے ،رات کی تنہائیاں اُن کی رفیق تھیں۔ جب دنیا نیند کی آغوش میں ہوتی، وہ اللہ کے حضور کھڑے ہو کر اشک بہاتے، اور زمین کو اپنی جبین سے روشن کرتے۔ایسا بھی ہوتا کہ روتے روتے پاؤں سوج جاتے، آواز بیٹھ جاتی، اور آنکھیں سرخ ہو جاتیں—مگر تسبیح کے دانے نہیں رکتے، سجدوں کی تسلسل میں فرق نہیں آتا۔یہ وہ مقامات تھے جنہیں دنیا والے نہ دیکھ سکتے تھے، مگر خدا کی رضا ہر لمحے ان پر سایہ فگن رہتی۔جس کے پاس خود کچھ نہ ہو، مگر وہ سب کچھ بانٹ دے—یہی ولی کی پہچان ہے۔
سلطان الذاکرینؒ نہ صرف مریدوں کے راہنما تھے بلکہ یتیموں، بیواؤں، غریبوں اور مسافروں کے مربی بھی تھے۔اپنی ذات کو پیچھے، اور امت کی ضرورت کو آگے رکھا۔ شادیوں کے اخراجات سے لے کر دواؤں کی فراہمی تک، سب کچھ ذاتی حیثیت سے کرتے۔لنگر کا اہتمام خود کرواتے، حتیٰ کہ بیماری کے آخری دنوں میں بھی ہاتھ سے کھانا تیار کرواتے اور غرباء میں تقسیم کرواتے۔ان کی نظر میں نہ امیری کا امتیاز تھا، نہ مسلک کا۔ نہ قوم، نہ قبیلہ—بس بندگی ہی شرف کا معیار تھی۔
سلطان الزاکرینؒ کی حیاتِ طیبہ کا ایک روحانی منظر وہ تھا

جو لفظوں میں نہیں، کیفیات میں بیان ہوتا ہے۔جب آپ کسی محفل میں داخل ہوتے، تو اہلِ دل پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی۔یوں محسوس ہوتا جیسے حضرت خواجہ محمد معصومؒ خود تشریف لا چکے ہوں۔چہرہ وہی، نشست وہی، انداز وہی—دل گواہی دیتا کہ یہ کوئی عام سالک نہیں، اپنے مرشد کی تصویر ہے، اُن کے باطن کا عکس، اُن کے فیض کا مظہر۔یہ کیفیت صرف ظاہری مشابہت نہیں تھی—یہ فنا فی الشیخ کا کامل جلوہ تھا۔وہ روحانی مقام جہاں ایک مرید، خود کو یوں مٹا دیتا ہے کہ اُس کی زبان، نگاہ، چال، اور جمال—سب کچھ اُس کے مرشد کے رنگ میں رنگا جاتا ہے۔اور پھر جب دل کا آئینہ مکمل صاف ہو جائے،

تو اس میں جمالِ مصطفیٰ ﷺ جھلکنے لگتا ہے۔سلطان الزاکرینؒ کی زندگی اسی روحانی سفر کا نمونہ تھی:فنا فی الشیخ: جہاں اُنہوں نے مرشد کی اطاعت میں فنا ہو کر اُنہی کی روحانی تصویر بننے کا شرف پایا۔فنا فی الرسول ﷺ: جہاں اُن کی ہر سانس درود، ہر آنکھ اشک، اور ہر لب ذکرِ حبیب ﷺ سے تر ہوتا۔ نعت میں بہتے ہوئے آنسو، محبتِ رسول ﷺ کا منہ بولتا ثبوت تھے۔فنا فی اللہ: وہ مقامِ عرفان جہاں صرف اللہ باقی رہ جاتا ہے۔ سلطان الزاکرینؒ کا ہر لمحہ، ہر عمل، ہر خاموشی—محض اللہ کے لیے تھی۔

ان کی شب زندہ داری، اُن کے سجدے، اُن کا گریہ—یہ سب کچھ اللہ کی رضا میں فنا ہونے کا عملی مظاہرہ تھا۔اور یہی وہ علوِ مراتب ہے جس پر حضرت سلطان الزاکرینؒ کو فائز کیا گیا۔
آپ نہ صرف مجاہدہ و ریاضت کی شاہراہ کے مسافر تھے، بلکہ روحانیت کے مجسم سرچشمہ بھی تھے—جن کے پاس آ کر دلوں کی ظلمتیں مٹ جاتیں، سینے کھلتے، آنکھیں برسنے لگتیں، اور ”اللہ ھو” کی ضرب سے دل پاک ہو جاتے۔
وہ محفلیں، جن میں ان کی آواز ”اللہ ھو” کی صورت بلند ہوتی، گویا آسمان لرز اٹھتا، دل پگھل جاتے، اور آنکھیں ندامت سے بہنے لگتیں۔ذکر کی وہ کیفیت ہوتی جیسے فرشتے صف باندھ کر شریک ہوں، اور فضا میں نور کے پھول برس رہے ہوں۔محفلِ نعت میں ان کے آنسو حضور ﷺ سے محبت کی گواہی دیتے۔ ان کا رومال جو ان اشکوں سے بھیگتا، مریدوں کے لیے بہترین تحفہ بن جاتا۔لاہور کے فردوس سنیما کو، جہاں کبھی فلموں کی گونج ہوا کرتی تھی، حضرت نے اپنی ذاتی دولت سے خرید کر مسجد میں بدل دیا۔یہ محض عمارت کی تبدیلی نہیں تھی—یہ روحانی مزاج کا انقلاب تھا۔آج وہی جگہ ”جامع مسجد المعصوم” کے نام سے معروف ہے، جہاں صبح و شام ”اللہ ھو” کی صدا بلند ہوتی ہے، اور دلوں کا زنگ اُترتا ہے۔
راقم السطور، بندہ ناچیز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ محض دس سال کی عمر میں، جب شعور کے پَر بھی پوری طرح نہیں کھلے تھے، آپ کی ذاتِ مبارک سے دستِ بیعت کا شرف حاصل ہوا۔یہ صرف بیعت نہ تھی، بلکہ ایک ایسی محبت کا آغاز تھا جو دل میں اتر کر، روح میں تحلیل ہو گئی۔اتنی کم عمر میں بھی، آپ کی محفلوں میں ذکرِ الٰہی اور ذکرِ رسول ﷺ کی سعادت نصیب ہوئی۔ وہ لمحے، جب آپ کی آواز میں ”اللہ ھو” کی گونج فضا کو چیرتی تھی، جب ہر آنکھ اشکبار ہوتی، اور ہر دل خشوع میں لرزتا تھا

—میرے دل کی مٹی پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گئے۔آپ کی صحبت میں صرف الفاظ نہیں، روح بولتی تھی۔ ذکر میں ڈوبے ہوئے لمحات، وہ ادب آداب، وہ صبر و خاموشی، وہ خوشبو جو آپ کے وجود سے مہکتی تھی—یہ سب کچھ کسی درسگاہ، کسی کتاب، کسی مدرسے سے نہیں مل سکتا تھا۔میری خوش نصیبی کہ آپ کی قربتِ خاص بھی مجھے عطا ہوئی۔یہ ایک دن کی بات نہیں، بلکہ مسلسل مہربانیوں کا سلسلہ تھا۔ ایک دن، آپ نے خود بلایا، قریب بٹھایا، اور اپنی زندگی کے روز و شب، سلوک و ریاضت، مجاہدات و مشاہدات پر طویل گفتگو فرمائی۔وہ ایک لمحہ گویا ایک پورا زمانہ تھا—جس میں نہ صرف ایک شیخ اپنے مرید سے بات کر رہا تھا،

بلکہ ایک چراغ دوسرے چراغ کو روشنی منتقل کر رہا تھا۔آپ نے اپنے سفر، ذکر، خلوت و جلوت، دینی خدمات، شب بیداری، اور روحانی انکشافات کا نچوڑ ایک امانت کی صورت میرے دل میں منتقل کیا۔یہ انٹرویو محض سوال و جواب نہ تھا، بلکہ ایک خاموش عطا تھی، ایک نورانی لمس، ایک ایسا فیض جس کی تاثیر آج بھی قلم کے لفظوں سے آگے، روح کے دریچوں تک رسائی رکھتی ہے۔اور وہ لمحہ—جب آپ نے اپنے دستِ مبارک سے مجھے کھانا پیش فرمایا—میرے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔یہ وہ رزق تھا

جس میں صرف جسم کی غذا نہیں، روح کی توانائی، محبت کی لذت، اور قربت کی خوشبو شامل تھی۔آج بھی جب اُس لمحے کو یاد کرتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے وقت تھم گیا ہو، اور میری روح اسی لمحے میں ٹھہر گئی ہو۔19 اکتوبر شب جمعہ 2000ء کو، اللہ کے اس فقیر نے اپنے محبوب کے ذکر پر جان دے دی۔20 اکتوبر کو، بروز جمعہ، حضرت داتا گنج بخشؒ کے احاطے میں اُن کا جنازہ ادا ہوا، جس میں ہزاروں عقیدت مند، علمائ، مشائخ اور محبین شریک ہوئے۔اور پھر وہ مٹی، جس پر وہ چلتے تھے، اُن کے قدموں کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر بیٹھی۔ مرشدآباد شریف میں واقع آپ کا مزار اقدس، آج بھی روحانی تشنگی کے ماروں کے لیے زمزم کی طرح شفا دیتا ہے۔آج بھی وہی چراغ جل رہا ہے…
آپ کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ”زندگی وہی ہے جو دوسروں کے لیے ہو،عبادت وہی ہے جو خدمت کے ساتھ ہو،اور محبت وہی جو ذات سے نکل کر کائنات میں پھیل جائے۔”18 اور 19 اکتوبر 2025ء کو، آپ کا سالانہ عرس دربار عالیہ مرشدآباد شریف میں عقیدت و محبت سے منایا جا رہا ہے،جس میں ملک بھر سے جید علماء ،مشائخ ،خلفائ،مریدین عقیدت مند کثیر تعداد میں شرکت فرمائیں گے آپکے جانشین عالمی مبلغ اسلام مخدوم المشائخ حضور خواجہ محمد خالد محمود ااحمد نقشبنندی مجددی تقریبات کی صدارت ودعا فرمایںگے اور آپکے سلسلہ طریقت کو پوری دنیا میں پھیلا رہے ہیں

اور آپ نے اپنی پوری زندگی اس ذکر و میلاد کے مشن کے لئے وقف کی ہوئی ہے عرس مبارک کی یہ صرف تقریب نہیں، تجدیدِ عہد کا لمحہ ہے—کہ ہم بھی اُس راستے پر چلیں، جس پر سلطان الزاکرینؒ چلے:جہاں ذکر ہے، فکر ہے، خدمت ہے، تواضع ہے، اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ ہے۔آخر میں صرف یہی کہنا کافی ہے…خدا کے بندے وہ نہیں جو مصلے پر بیٹھ کر جنت مانگتے ہیں،بلکہ وہ ہیں جو لوگوں کے دکھوں میں شریک ہو کر خود جنت بن جاتے ہیں۔سلطان الزاکرینؒ، آپ زندہ ہیں…ذکر کی ہر گونج میں،خدمت کے ہر عمل میں،اور ہر اُس دل میں…جہاں اب بھی ”اللہ ھو” کی ضرب پڑتی ہے۔اآج کا دور عجیب ہے۔بازار میں ہر شے کی قیمت ہے—even روحانیت بھی۔ایسے ”نام نہاد پیر” اور ”جعلی عامل” ہر طرف نمودار ہو چکے ہیں، جنہوں نے اولیاء اللہ کے پاکیزہ مشن کو اپنے نفس کا کاروبار بنا لیا ہے

جن کے پاس نہ علم ہے، نہ عمل—نہ شریعت کا شعور، نہ طریقت کا نور۔ صرف دعوے، شعبدے، اور لوٹ مار!یہ وہ لوگ ہیں جن کا اہلِ سنت کے دین و مزاج سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ان کی ظاہری گدیوں، بلند عمارتوں، اور جھوٹے کرامات کے شور سے نوجوان نسل متاثر ہو کر اولیاء کا اصل چہرہ پہچاننے سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔لیکن یاد رکھو!اللہ کے ولی ہر دور میں موجود رہے ہیں، ہر مکان میں رہے ہیں، اور قیامت تک رہیں گے۔وہ دلوں میں اترتے ہیں، اور پھر وہیں بسیرا کرتے ہیں۔ان کی زبان پر ”اللہ”،ان کی نظر میں ”مصطفیٰ ﷺ”،ان کے ہاتھ میں ”خدمت”،اور ان کے دل میں ”خلقِ خدا کے لیے درد” ہوتا ہے

۔وہ قوم کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں،وہ بندے کو بندہ بناتے ہیں،اور نبی کریم ﷺ کی سیرت کو اپنی حیات میں مجسم کر دکھاتے ہیں۔ولی وہ نہیں جو شریعت سے آزاد ہوولی وہ ہے جو شریعت کا پابند ہوجو مصطفیٰ ﷺ کا تابع ہوجو سچ بولے، عدل کرے، اور خلق کی خیر چاہے،جو شریعت و طریقت کو الگ الگ راستے سمجھ کر دھوکہ دیتا ہے، وہ نہ صوفی ہے، نہ سنی، نہ ولی۔صوفی کبھی دین کی بنیادوں کو نہیں چھیڑتا—وہ تو بنیاد کو عمارت بناتا ہے، اخلاق کو کردار، اور دل کو مقامِ الٰہی!یہی مشن تھا حضرت سلطان الزاکرینؒ کا…کہ ذکر کو عام کیا جائے،نوجوانوں کو مساجد کی طرف بلایا جائے،اور وہ جو گمراہ ہو چکے ہیں،

ان کے دلوں پر ”اللہ ھو” کی ضرب لگائی جائے تاکہ وہ اپنے اصل کی طرف لوٹ سکیں۔اے نوجوانو!جس وقت تم سوشل میڈیا پر ”جادو کے توڑ”، ”روزی کے نقش”، ”محبت کا عمل” تلاش کرتے ہو،اُس وقت ولی اللہ تمہارے لیے سجدے میں دعا مانگ رہا ہوتا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ تم نے ولی پہچاننا چھوڑ دیا ہے۔اٹھو!قرآن پڑھو، سیرتِ مصطفیٰ ﷺ سے جڑو، اور اولیاء اللہ کی مجلسوں کا رخ کرو۔وہاں نہ عمل بِکتا ہے، نہ دعا کی قیمت لگتی ہے۔
وہاں صرف ایک چیز ہوتی ہے: اللہ، اللہ، اللہ۔سلطان الزاکرینؒ جیسے اولیاء کا مشن دراصل مشنِ نبوی ﷺ ہے—یعنی:”لوگوں کو خدا سے جوڑنا، اور انسان کو انسان بنانا۔”وہ مشن جو صرف مسجد کی چاردیواری میں قید نہیں،بلکہ دلوں، بازاروں، گھروں، اور تنہائیوں تک رسائی رکھتا ہے۔آخر میں صف یہی کہنا کافی ہے:”نہ دیکھ ان پیر فقیروں کی بھیڑ میں ہر چہرہ،ولی وہی ہے جو تجھے خدا یاد دلا دے!”للہ ان کاملین کی صبحت میں رکھے اور انکے بتائے ہوئے پیغام پر عمل پیرا ہونے کی تووفیق عطاء فرمائے آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں