سیلاب سب کچھ ہی بہا لے جائے گا!
ملک میں ایک طرف قدرتی آفات کازور ہے تو دوسری جانب بھارت نے آبی جارحیت شروع کر رکھی ہے،بھارت کل تک سندھ طاس معاہدہ ختم کر نے کا دعوئیدار تھا،اس نے آج سند طاس معاہدے کے تحت ہی اپنا اضافی پانی راوی‘ ستلج اور چناب میں چھوڑ دیا ہے ،اس کے باعث پنجاب ڈوب گیا اور سندھ کے میدانی علاقے بھی خطرے کی زد میں ہیں ، اس سیلابی ریلوں سے پنجاب اور سندھ کی ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ ہونے کا خدشہ ہے
،ملک کی زرعی معیشت پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہے‘ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں فصلوں کو ہونے والا نقصان کاشتکاروں کیلئے مزید معاشی مسائل کا سبب بنے گا،اس کا ازالہ حکومت نے ہی کر نا ہے اور حکو مت کو ہی کر نا پڑے گا ، ورنہ یہ سیلاب سب کچھ ہی بہا لے جائے گا۔یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ ملک کے اندر اور باہر سارے ہی موسمی اور ماحولیاتی ادارے متنبہ کررہے تھے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشیں زیادہ ہوں گی
اور قدرتی آفات بھی آئیں گی ، مگر حکو مت اور انتظامیہ کو اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے اور دیوار سے لگانے سے ہی فرصت نہیں رہی ہے ، اس لیے کوئی منصوبہ سازی کی گئی نہ ہی حفاظتی اقدامات کیے گئے ، ساری ہی سیاسی قیادت بیان بازیوں میں لگی رہی ہے کہ بھارت نے پانی روکا تو خون بہا دیں گے ، پانی کے ایک قظرے کیلئے بھی لڑیں گے ، اپنا پانی لے کر ہی رہیں گے ،بھارت نے پانی چھوڑ دیا ہے ، اس کو اب کون سنبھالے گا ؟ ہم ایک کے بعد ایک بیا نیہ بناتے ہیں ،مگر ڈیم بناتے ہیں نہ ہی نہریں بنانے دیتے ہیں تو پھر سیلاب ہی آئیں گے ۔محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال جولائی میں 36 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیںاور آئندہ سال اس سے بھی زیادہ ہوں گی
،سااس سال بالائی علاقوں میں کلائوڈ برسٹ کے مسلسل واقعات بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کا ہی نتیجہ ہیںاور یہ سب کچھ پا کستان میں ہی نہیں ، بھارت میں بھی ہورہا ہے ، بھارت نے نہ صرف اپنا کافی حدتک بند وبست کررکھا ہے، بلکہ خود کو مزید کسی نقصان سے بچانے کیلئے پا کستان کی جانب اضافی پانی چھوڑ رہا ہے، بھارت دوست نہیں ، دشمن ہے اور وہ دشمن وہی کرے گا جو کہ ایک دشمن کر سکتا ہے ، لیکن ہم کیا کررہے ہیں ، کیا ہم نے بھارت کی جار حیت سے بچنے اور اس کا جواب دینے کیلئے کوئی حکمت عملی بنائی ہے ؟
اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہو گا، کیو نکہ یہاں ماسوائے نمائشی اعلانات و اقدامات کے کچھ بھی نہیں کیا جاتا ہے ، یہاں پر ڈیم بنانے کی بات کی جائے یا صوبے بنانے کا کہا جائے تو سارے ہی مخالفت میںاُٹھ کھڑے ہوتے ہیں،کیو نکہ ان کے ذاتی مفادات کو نقصان پہنچتا ہے، اس کی اشرافیہ کی تر جیحات میں قومی مفاد ہے نہ ہی قو می مفادات کو اپنی تر جیحات میں شامل کیا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ ایسے ہی کب تک چلے گا ؟اگرایسا ہی چلے گا تو پھر ایسے ہی بھگتنا بھی پڑے گا،
اس ملک میں جب بھی کوئی سیلاب یا قدرتی آفات آتی ہیں تو حکو مت دوسروں کی جانب دیکھنے لگی ہے ، اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ،
وزیر اعظم شہباز شریف نے مطالبہ کردیا ہے کہ اس صورتحال سے پا کستان اکیلا نہیں نمٹ سکتا، ترقی یافتہ ممالک کو مدد کیلئے آنا ہو گا، اس اصول کی بنیاد پر مطالبہ درست ہے ،جوکہ ہر سال ماحولیاتی کی عالمی کانفرنسوں میں دہرایا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ صنعتی ملک جو عالمی حدت میں اضافے کے اصل ذمہ دار ہیں‘ مگر اس ضمن میں ابھی تک سوائے زبانی جمع خرچ کے کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے،گزشتہ سیلابوں میں بھی نقصان کے ازالے اور بحالی کی کوششوں کیلئے کوئی بڑا تعاون نہیں مل سکا تھا تو اس بار بھی کوئی خاص نہین مل پائے گا،
اس لیے ضروری ہے کہ دنیا کی امیدوں کے بجائے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے درست اقدامات کے ذریعے ماحولیاتی آفات کے خطرات سے بچنے کی کوشش کی جائے، لیکن یہ سب کچھ جا نتے ہوئے بھی سنجیدگی سے کچھ کیا نہیں جارہا ہے،ہر کوئی فوٹوسیشن ہی کروا رہا ہے اور ڈننگ ٹپارہا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو قدرتی آفات اپنے آپ میں بڑے ہی سبق آموز ہیں‘ اگر ہم سمجھنے کی کوشش کریں تو اس سال کے بہت سے مسائل آنے والے وقتوں میں بچائوکی تدابیر سجھاتے ہیں، سیلاب دریائی یا شہری یا بالائی علاقوں میں بادل اور گلیشیر پھٹنے کے واقعات، انسانی بس سے باہر ضرور ہیں‘ مگر بروقت درست اقدامات اور موثرحکمت عملی سے ان کے خطرات کو کم از کم کیا جاسکتا ہے،ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسموں کے مزاج کو نہ صرف سمجھنا ہو گا ، بلکہ اس کے مطابق عملی اقدامات کی روش کو بھی اپنانا ہو گا،
ماحولیاتی تبدیلیوں کی صورتحال میں بچائوکی ایک ہی کارگر تدبیر ہو سکتی ہے کہ حالات سے ہم آہنگی پیدا کی جائے اور خود کو ان تبدیل شدہ موسموں کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے،اگر اب بھی حکومت اور متعلقہ اداروں نے مل کر کوئی فعال کردار ادا نہ کیا اور فوٹوسیشن پر ہی ڈننگ ٹپائو پروگرام جاری رہا تو پھر ملک اور عوام کو ڈوبنے سے کوئی بچا پائے گا نہ ہی کوئی مدد کوآپائے گا۔