50

دہشت گرد ی کی سہولت کاری کیخلاف کاروائی ضروری !

دہشت گرد ی کی سہولت کاری کیخلاف کاروائی ضروری !

پا کستان میں جب بھی کوئی اہم دن آتا ہے ،اس دن ہی دہشت گردی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں، سیکورٹی ہائی الرٹ ہو جاتی ہے ، اس کے باوجود کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی واقعہ ہو ہی جاتا ہے ،اس یوم ا ٓزادی پر بھی ہائی الرٹ تھا ، سیکورٹی اداروں کو معلو مات ملی تھی کہ بلوچستان میں یومِ آزادی کے موقع پر دہشت گردوں نے معصوم بچوں کو نشانہ بنا نے کا پروگرام بنایا ہے ، اس دہشتگردی کے حملے کو سہو لت کار کی بروقت گرفتاری کر کے ناکام بنایا گیا ، جو کہ سکیورٹی اداروں اور صوبائی حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے ،یہ کامیابی کالعدم مجید بریگیڈ کے ایک دہشتگرد کی گرفتاری کی بدولت ممکن ہوئی ، اگر یہ دہشت گرد بروقت قابو میں نہ آتا تو ناقابل تلافی نقصان ہو نا تھا۔
اگر دیکھا جائے تو پا کستان میں دہشت گردی کی میں وجہ سہو لت کاری ہے ، اگر ملک میں اپنے ہی سہولت کاری نہ کریں تو بیرونی دہشت گرد کامیاب ہو سکتے ہیںنہ ہی اندرون دہشت گرد وں کااتنا حوصلہ بڑھ سکتا ہے کہ آزادانہ دہشت گردانہ کروایاں کرتے پھریں ، اگر اس کاروائی کا ہی بغور جائزہ لیا جائے تو انتہائی افسوس کے ساتھ حیرانگی ہوتی ہے کہ کیسے ایک پڑحا لکھا یونیورسٹی کالیکچرار کیسے دہشت گروں کا آلہ کار اور سہو لت کار بن گیا،یہ خود ریاست سے نہ صرف غداری کرتا رہا

بلکہ عام شہریوں کو ورغلا کر دہشتگردی کے راستے پر بھی ڈالتا رہاہے ،اس نے ریاستی خرچ پر اپنی تعلیم مکمل کی اور سرکاری نوکری سے ہی ریاستی مراعات بھی حاصل کررہا تھا،مگر دوسری جانب خودکش حملہ آوروں کی سہولت کاری بی کر رہا تھا۔
یہ گرفتاری ہر ایسے بیانیے کاتوڑ کر تی ہے کہ جس میں کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کی محرومیاں لوگوں کو شدت پسندی کی طرف مائل کررہی ہیں،یہ کسی محرومی کا نہیں، اس فتور کا شاخسانہ ہے ،جو کہ کچے ذہنوں میں انڈیلا جا تا ہے،یہ فتور انڈیلنے والے کوئی عام لوگ نہیں ہیں ، بلکہ اس میں پڑھے لکھے مفادپرست باشعور لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں، اس کا اندازہ ایک لیکچرار کی گرفتاری سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ،اگر عالم دین اور استاد بھی آلہ کار ، سہو لت کار بنیں گے تو کس پر اعتماد کیا جاسکے گا

اور کیسے دہشت گردی سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکے گا،اس طرح کے عناصر کیساتھ کسی قسم کی نرمی کی کوئی گنجائش نہیں، انہیں سخت سزا ملنی چاہیے، تاکہ یہ باقیوں کیلئے نشانِ عبرت بن سکیں، اگر ایسے شرفاء کا چہرا بے نقاب نہیںکیا جائے گا ،نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا اور مصالحت سے کام لیا جائے گا تو دہشت کم ہو نے کے بجائے مزید بڑھے گی۔اس دہشت گردی کی جنگ میں سیکورٹی ادروں کے ساتھ عوام کا کردار بھی فیصلہ کن ہے، کیو نکہ دہشتگرد عوام میں ہی گھل مل کر اپنے عزائم پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ اس لیے عوام کو چاہیے کہ ان کے کسی پروپیگنڈا میں نہ آئیں

،بلکہ ریاست کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر دہشت گروں کے ساتھ ان کے سہولت کاروں کا بھی سد باب کرائیں، لیکن اس میںجو لوگ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں، انہیں اپنی غلطیاں سدھارنے کاموقع ضرور ملنا چاہیے، لیکن جو ریاست کے مخالف عمل پیراں ہیں ، انہیں کو رعایت نہین ملنی چاہئے،اس ملک دشمن دہشت گردوں کو شکست دینے کا ایک ہی راستہ ہے کہ سکیورٹی فورسز اور عوام مل کر دہشت گردوں کے ساتھ ان سہولت کاروں کا بھی تعاقب کریں اور انہیں ان کے منتقی انجام تک پہنچائیں، اس کے بغیر دہشت گردی کی دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
اس ملک میں جب تک دہشت گردی کا سد باب نہیں ہو گا ،ترقی وخوش حالی کا خواب ادھورا ہی رہے گا،آج پاکستان کے بیشتر ماہر اقتصادیات اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ایسی ریاست جسے ہر سال چالیس لاکھ نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنا ہے، وہ ریاست علاقائی تعاون کے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتی ،اس کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ رکھا جائے، لیکن اگر افغان حکومت دہشت گردی کے معاملات میں تعاون کرنے پر تیار نہیں تو پاکستان کو دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بغیر کسی امتیاز کے سخت ترین اقدامات کرنے چاہئیں، یاد رہے کہ پاکستان کو کسی نے فتح نہیں کیا

کہ اسے مال غنیمت سمجھ کر مسلسل لوٹا جائے یا اس کے قیام امن کو تباہ کیا جائے، یہ ملک ایک جمہوری کوشش سے بنا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم جمہوریت، آئین کی پاسداری اور پڑوسی ممالک سے برادرانہ تعلقات کی روایات پر عمل پیرا ہو کر پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالیںاور اس کی راہ میں روکاوٹ بننے والوں اور ان کے سہولت کاروں کو نشان عبرت بنادیں تو ہی دہشت گردی کاسد باب کر پائیں گے اور ملک میں قیام امن لا پائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں