138

سرکاری دفاتر اور عوامی اذیت: خدمت یا زحمت؟”

سرکاری دفاتر اور عوامی اذیت: خدمت یا زحمت؟”

تحریر: ظہیر حیدر جعفری
ای میل : broadcaster1214 @gmail.com

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں عوام کو پہلے ہی زندگی کے بے شمار مسائل کا سامنا ہے، وہاں سرکاری دفاتر کی غیر فعالیت اور ناقص کارکردگی عوام کے لیے مزید پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ خاص طور پر پبلک ڈیلنگ والے دفاتر میں، جن کا براہ راست تعلق عوامی سہولت سے ہوتا ہے، وہاں سست روی، ، کام چوری، اور بدتمیزی جیسے مسائل معمول بن چکے ہیں۔

پبلک ڈیلنگ کا مطلب ہی ہے کہ ایسے ادارے یا دفاتر جہاں عام شہریوں کے مسائل براہِ راست حل کیے جاتے ہیں، جیسے ، واپڈا، محکمہ مال، بلدیہ، آفس، گیس و پانی کے دفاتر، ہسپتال، اور پولیس تھانے وغیرہ۔ ان اداروں کا اصل مقصد عوام کی خدمت، سہولت، اور فوری مدد ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، ان دفاتر کا تجربہ اکثر شہریوں کے لیے بدترین ہوتا ہے۔

بیشتر دفاتر میں سرکاری اہلکاروں کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے وہ عوام پر احسان کر رہے ہوں۔ مسکراہٹ تو دور کی بات، اکثر افسران اور کلرک حضرات عوام کو جھڑکیاں دینے، گھنٹوں انتظار کروانے، اور کام کو بلاوجہ لٹکانے کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔ دفتر میں موجود فائلیں مہینوں پڑی رہتی ہیں اور عوام بار بار چکر لگانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اکثر دفاتر میں غیر ضروری تاخیر، ٹال مٹول، اور بہانوں کی بھرمار نظر آتی ہے۔ کوئی چھٹی پر ہے، کوئی میٹنگ میں ہے، کوئی “سسٹم بند” کا بہانہ کر رہا ہے، تو کوئی کہتا ہے “صاحب کے دستخط ہونے باقی ہیں”۔ حالانکہ ایک سادہ سا کام جو چند منٹ میں ہو سکتا ہے، اسے ہفتوں اور مہینوں پر پھیلا دیا جاتا ہے۔

پبلک ڈیلنگ کے کئی دفاتر میں تو صورتحال یہ ہے کوئی کام مکمل نہیں ہوتا۔ دفاتر کے اندر اور باہر “ایجنٹ” بیٹھے ہوتے ہیں جو سرکاری اہلکاروں کے ساتھ مل کر نظام کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ فائل آگے بڑھوانی ہو، سرٹیفیکیٹ بنوانا ہو یا کسی شکایت کو سُنوانا ہو — ہر جگہ “چائے پانی” مانگا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کمپیوٹرائزیشن سے کام میں شفافیت اور تیزی آتی ہے، لیکن ہمارے ہاں کمپیوٹر بھی صرف ایک بہانہ بن چکا ہے۔ “سسٹم سلو ہے”، “نیٹ نہیں آ رہا”، “سسٹم ڈاؤن ہے” — یہ سب ایسے جملے ہیں جو عوام روز سنتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان جملوں کے پیچھے اکثر نااہلی، نالائقی، یا دانستہ تاخیر چھپی ہوتی ہے۔
عوام کا صبر آزما سفر
ایک عام شہری جسے دفتر آنے کے لیے کرایہ، وقت اور محنت لگانی پڑتی ہے، جب کئی دن بعد بھی اس کا مسئلہ حل نہ ہو تو وہ ذہنی اذیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر بوڑھے افراد، خواتین، اور ناخواندہ لوگ اس رویے سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو لوگوں کو فائل ہاتھ میں لیے سالوں انتظار کرتے دیکھا گیا ہے۔

اکثر سرکاری ملازمین کو نہ تو درست تربیت دی جاتی ہے اور نہ ہی ان میں عوام سے حسن سلوک کا شعور پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ ادارہ جاتی کرپشن کی بنیاد بن جاتا ہے جہاں عوام کی خدمت کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان اداروں میں احتساب کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ نہ کوئی سینئر آفیسر اپنے ماتحت کی کارکردگی چیک کرتا ہے، نہ عوام کی شکایات پر کارروائی ہوتی ہے۔ اگر کوئی سائل شکایت کرے تو اسے اور زیادہ تنگ کیا جاتا ہے۔

کچھ روشن مثالیں بھی موجود ہیں

یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ تمام سرکاری ملازمین خراب ہیں۔ بعض دفاتر اور افسران واقعی عوام کی خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد کم سہی، مگر ان کی موجودگی امید کی کرن ہے۔ اگر ان افسران کو سراہا جائے اور ان کے طریقہ کار کو ماڈل بنایا جائے تو بہتری ممکن ہے۔

تجویز
. پرفارمنس بیسڈ سسٹم: ہر ملازم کی سالانہ کارکردگی عوام کی شکایات اور کام کی رفتار کی بنیاد پر جانچی جائے۔

. ڈیجیٹل ٹریکنگ سسٹم: ہر فائل کو ٹریک کرنے والا سافٹ ویئر بنایا جائے جس سے معلوم ہو سکے کہ کام کہاں رُکا ہوا ہے۔

شکایت کا مؤثر نظام: ایسا پلیٹ فارم ہو جہاں عوام آسانی سے شکایت درج کرا سکیں اور ان پر کارروائی ہو۔

اخلاقی تربیت: ہر سطح کے سرکاری ملازمین کے لیے عوامی خدمت سے متعلق تربیتی ورکشاپس کا انعقاد لازمی ہو۔

ویٹنگ ایریاز کی بہتری: دفاتر میں عوام کے بیٹھنے، پانی پینے، اور معلومات حاصل کرنے کے لیے مناسب سہولیات مہیا کی جائیں

پاکستان کے پبلک ڈیلنگ دفاتر کا حال اگرچہ مایوس کن ہے، مگر مکمل ناامیدی نہیں۔ اگر حکومت، بیوروکریسی، اور عوام سب مل کر اصلاحات کی خواہش رکھیں اور ان پر عمل درآمد کیا جائے تو یہ نظام درست ہو سکتا ہے۔ عوام کو عزت، سہولت، اور تیزی سے سروس دینا ہی ان اداروں کا مقصد ہونا چاہیے — اور جب یہ مقصد پورا ہو گا تو عوام کا اعتماد بحال ہو گا، کرپشن کم ہو گی، اور ادارے حقیقی معنوں میں قوم کی خدمت کا ذریعہ بنیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں