80

مذاکرات میں ہی راستہ ہے !

مذاکرات میں ہی راستہ ہے !

ملک میں ایک طرف مذاکرات تو دوسری جانب احتجاج کا شور ہے،حکومت بظاہر مذاکرات کی بات کرتی رہتی ہے ،مگر مذاکرات کا ماحوال بنانے سے گریزاں ہے ،اپوزیشن کو لگاتار سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، دیوار سے لگا جارہا ہے ،اس کے بعد کہا جارہا ہے کہ اہل سیاست کو اہل سیاست سے ہی مذاکرات کر نے چاہئے،جبکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا ہے کہ ان بے اختیار لوگوں سے مذاکرات نہیں ،ان کے خلاف احتجاج ہو گا اور اس احتجاج کو اڈیالہ جیل سے ہی لیڈ کریں گے، وہ جیل میں آزاد ہیں

اور جو باہر ہیں ،وہ قیدی ہیں،اب باہرلوگوں کو اپنی آزادی کے لیے نکلنا ہو گا، رول آف لا ء کے ساتھ جمہوریت کے لیے نکلنا ہو گا اور 26 ویں ترمیم کے خلاف نکلنا ہو گا۔اگر دیکھا جائے تو اس وقت اپوزیشن کیلئے احتجاج کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں چھوڑا جارہا ہے ، اس لیے ہی بانی پی ٹی آئی احتجاج کی کال دینے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں ، لیکن اس احتجاج سے معاملات سد ھر کے بجائے مزید الجھیں گے

،اس لیے ہی پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت مذاکرات پر یقین رکھتی ہے، مگر بانی پی ٹی آئی عمران خان کو جیل میں بعض سمجھانے والے سمجھاتے رہتے ہیں کہ آپ درست جانب کھڑے ہیں، آپ ہی استقامت‘ مزاحمت اور ہمت کا استعارہ ہیں، اگر مفاہمت اور مذاکرات کا راستہ اختیار کیا گیاتو آپ کی مقبولیت کا گراف بہت نیچے آ جائے گا،اس لیے ہی بانی چیئرمین عمران خان نے واضح الفاظ میں مذکرات کی تجویز مسترد کرتے ہوئے اعلان کردیا ہے کہ پانچ اگست سے ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔
یہ بانی پی ٹی آئی کے احتجاج کا اعلان کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے پانچ مرکزی رہنمائوں، بشمول شاہ محمود قریشی، کے پیغام سے یکسر متصادم ہے کہ جس میں انہوں نے سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ سے غیر مشروط مذاکرات کی اپیل کی تھی، اس اپیل کو سیاسی عدم استحکام کے دور میں قومی اتفاق رائے کی راہ ہموار کرنے کا نہ صرف ایک نادر موقع قرار دیا جارہاتھا، بلکہ پی ٹی آئی رہنمائوں کے خط پر حکومتی حلقوںمیںخاص طور پر(ن)لیگ اور پیپلز پارٹی قیادت بھی مثبت ردعمل کا اظہار کررہے تھے

اس خط کو وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے دانشمندانہ اور اہم قرار دیتے ہوئے دونوں فریقین سے کہا تھا کہ وہ موقع غنیمت جانیں اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں غیر مشروط مذاکرات شروع کریں،تاہم،بانی پی ٹی آئی عمران خان کے تازہ ترین بیان نے فی الوقت ان ساری اُمیدوں پر پانی ہی پھیر دیا ہے۔
اس احتجاجی تحریک کے اعلان پر وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک میں کوئی دم خم نہیں رہاہے ،بانی پی ٹی آئی کو ملک کے حالات کو بھی دیکھنا چاہئے ، وہ مقتدر حلقوں سے بات کرنا چاہتے ہیں ،مگر اُن کے پاس بھی بانی کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے،اس صورتحال میں راستہ تب ہی نکلے گا ج کہ جب سیاسی جماعتیں ٹیبل پر مل بیٹھیں گی،

ہمیشہ سیاسی جماعتوں نے ہی مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالا ہے،لیکن اس وقت دونوں ہی جانب سے حکمت و تدبر سے کام نہیں لیا جارہا ہے ، حالا نکہ سیاست نام ہی حکمت و تدبر سے کام لینے کا ہے ،یہ اَنا پرستی اور شدت پسندی کا نام نہیںہے، سیاست کبھی کامیابی اور کبھی ناکامی کا نام ہے ،سیاست پھونک پھونک کر قدم رکھنے کا نام ہے ،کیونکہ سیاست میں ایک چھوٹی سی غلطی کبھی کبھار نہ صرف آپ کو اقتدار سے محروم کر سکتی ہے، بلکہ جمہوریت کا ہی بوریا بستر گول کرا سکتی ہے۔
اس نازک صورتحال کے پیش نظر حکومت اور اپوزیشن کے مختلف حلقوں میں ایک بڑی تعدادمذاکرات کی حامی ہے،اس سوچ کی حو صلہ افضائی کرنی چاہئے اور اس ٹوٹی پھوٹی جمہوریت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے،

ملکی حالات ایک بار پھر اہم موڑ پر آ چکے ہیں،اس وقت حکومت کو مزید کوئی آئینی ترمیم لانی چاہیے نہ ہی اپوزیشن کو احتجاج پر مجبور کر نا چاہئے ، اپوزیشن کو بھی لاحاصل احتجاج کا راستہ چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر کھلے دل و دماغ کے ساتھ آ نا چاہئے ، لیکن اس مذاکراتی عمل کو شروع کر نے سے قبل حکمران جماعتوں اور پی ٹی آئی کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ تاریخ کی درست سمت میں وہی کھڑا ہو گا ،جو کہ جمہوریت کے خاتمے کا نہیں، اس کے تسلسل کا باعث بنے گا،ورنہ پچھتائوئے کے علاوہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، سارے ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں