ملاقات کیلئے نرالی منطق
دھوپ چھا ؤں
الیاس محمد حسین
ایک صدی پیشترکا ذکر ہے کہ ایک بوڑھا شخص جو ظاہری طور پر بڑا آسودہ حال نظر آرہاتھا عدالت میں داخل ہوا اس نے قاضی کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنے کی اجازت چاہی
قاضی نے استفسارکیا کہ جناب آپ کامقدمہ کس کیخلاف ہے؟
اس نے گہری سانس لیتے ہوئے جواب دیا اپنے بیٹے کے خلاف
قاضی صاحب نے بڑی حیرانگی سے دریافت کیاشکایت ہے
بوڑھے نے متانت سے کہا،میں اپنے بیٹے سے اس کی استطاعت کے مطابق ماہانہ خرچہ لینا چاہتاہوں۔
قاضی نے کہا یہ توآپ کابیٹے پر ایساحق ہے کہ جس کے دلائل سننے کی ضرورت ہی نہیں ہے لیکن میں دیکھ رہاہوں آپ تو خود صاحب ِ نصا ب لگ رہے ہیں۔
بوڑھے نے کہا قاضی صاحب! اس میں کوئی شک نہیں کہ میں انتہائی مالدارہوں ا اور مجھے روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں لیکن اس کے باوجود ،لیکن میں چاہتاہوں کہ اپنے بیٹے سے ہرما ہ خرچہ وصول کرتارہوں۔
قاضی حیرت میں پڑگیااوراس سے بوڑھے شخص کے بیٹے کو عدالت میں پیش ہونے کاحکم جاری کیا
بیٹاعدالت میں حاضرہواتوقاضی نے اس سے سوال کیا کیا آپ انہیں جانے ہیں؟
نوجوان نے اپبات میں سر ہلاتے ہوئے بڑے ادب سے جواب دیا جی ہاں یہ میرے والد ِ محترم ہیں۔
قاضی نے کہا آ پ کے والد نے آپ کیخلاف مقدمہ دائرکیاہے کہ آپ ان کوماہانہ خرچہ اداکریں ۔
بیٹے نے حیرت سے اپنے والدکی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا آپ مجھ سے خرچہ کیوں مانگ رہے ہیں جبکہ آپ خودبہت امیر،کبیر ہیںہیں اور میں یہ بھی جانتاہوں کہ آپ کو میری مددکی ہرگزضرورت ہی نہیں ہے۔
قاضی نے کہایہ آپ کے والد محترم کاتقاضاہے اوروہ اپنے تقاضے میں آزاد اورحق بجانب ہیں آپ کو خرچہ تو دینا ہی پڑے گا ورنہ آپ کو جیل بھی ہو سکتی ہے۔
نوجوان نے کہا میں اپنے والدکو خرچہ دینے کیلئے تیارہوں۔
قاضی نے پوچھا جناب اپ کتنے خرچے کا کلیم کرتے ہیں۔
بوڑھے نے کہا قاضی صاحب!اگرآپ اس کوصرف ایک دینارماہانہ اداکرنیکاحکم دیں اور اسے پابندکریں کہ یہ مجھے بالمشافہ خرچہ اداکریں تومیں خوش ہوجائوں گا۔
قاضی نے کہابالکل ایساہی ہوگایہ آپ کاحق ہے پھرقاضی نے حکم جاری کیا کہ “فلان ابن فلان اپنے والدکوتاحیات ہرماہ ایک دیناربلاتاخیر خود جاکر ادا کرنے کا پابند ہوگا ۔ جب بوڑھا شخص کمرہ عدالت چھوڑ کر جانے لگا تو قاضی صاحب نے پوچھ ہی لیا جناب مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی اگرآپ برانہ مانیں تومجھے بتائیں کہ آپ نے یہ مقدمہ دائرکیوں کیاتھا،جبکہ آپ مالدارہیں اورآپ نے اپنے بیٹے سے بہت ہی معمولی رقم کامطالبہ کیا؟
بوڑھے شخص کی آنکھوںمیں آنسو آگئے اس نے جواب دیا قاضی محترم! میرا بیٹا اپنے کاموںمیں اس قدر مشغول ہے کہ میں اس کو دیکھنے کو بھی ترس گیا تھا جبکہ میں اپنے بیٹے سے شدید محبت رکھتاہوں اہلیہ کی وفات کے بعد میرا سب کچھ میرا بیٹاہی ہے لیکن اسے میری کوئی پرواہ نہیںتھی اوریہ اتنا مصروف تھا کہ مجھ سے بات تک نہیں کرتاحتیٰ کہ ٹیلیفون پربھی مجھ سے کبھی بات کرتا کبھی نہیں اس لئے میں نے سوچا یہ مجھ سے کسی بہانے ملنے کے لئے تو آجائے *یہ سن کرقاضی صاحب کی آنکھوںمیں آنسو آگئے ۔