تہذ یبوںکا عروج و زوال 67

معافی اور مافیا

معافی اور مافیا

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی

عام آدمی کا خیال ہے کہ پاکستان کی شوگر اندسٹری ایک خونخوار مافیا کا روپ دھاڑ چکی ہے جسے اپنے ہم وطنوں پر کوئی ترس نہیں آتا یہ مافیا جب چاہے مصنوعی قلت پیداکرکے چینی کی قیمتوںمیں اضافہ کردیتاہے انہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں اس وقت پاکستان میں کل 90 شوگر ملیں ہیں جن میںسے 82 شوگر ملیں فعال ہیں ہیں کچھ ذرائع کے مطابق موجودہ صدر آصف زرداری خاندان (اومنی گروپ) کے پاس 18 سے 21 شوگر ملیں ہیں، جو کہ کل ملوں کا تقریباً 22 سے 25 فیصد بنتا ہے۔ شریف خاندان کے بارے میں کہا جاتا ہے

کہ ان کے پاس 12 سے 16 شوگر ملیں ہیں، جو کہ کل ملوں کا تقریباً 15 سے 20 فیصد ہے۔ مجموعی طور پر، دونوں خاندانوں کی ملکیت میں تقریباً 37 سے 45 فیصد شوگر ملیں ہو سکتی ہیں۔تاہم، یہ اعداد و شمار ایکس پر پوسٹس،سوشل میڈیا اور کچھ ویب رپورٹس پر مبنی ہیں، جن کی صداقت کی مکمل تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ مثال کے طور پر، ایکس پر ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ زرداری خاندان کی 18 اور شریف خاندان کی 12 شوگر ملیں ہیں، جبکہ ایک اور پوسٹ نے ان دونوں خاندانوں کو 80 فیصد ملوں کا مالک قرار دیا، جو مبالغہ آمیز معلوم ہوتا ہے۔ ویب ذرائع میں بھی واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے

کہ جہانگیر ترین، چوہدری برادران اور دیگر گروپس بھی شوگر انڈسٹری میں بڑا حصہ رکھتے ہیں یعنی یہ سب مالکان جن میں زیادہ پاکستان کے سیاستدان شامل ہیں جو دن رات عوام کی محبت کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے لیکن حیرت ہے یہ سب کے سب عوام کو کوئی ریلیف دینے کے لئے تیار نہیں ان سیاسی افراد کا پاکستان میں چینی کی حکومتی پالیسیوں پر کتنا اثر و رسوخ ہے ا س بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہرسال حکومت شوگر انڈسٹری کو اربوں روپے سبسٹڈی بھی دیتی ہے لیکن اس کا فائدہ بھی عوام کو نہیں ملتا۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس تنظیم کے 48 ارکان ہیں۔ تاہم ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نامی سرکاری ادارے کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر 72 شو گر ملز کام کر رہی ہیں۔جبکہ پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق ان کی تعداد 85 ہے جن کی اکثریت یعنی 45 شوگر ملز پنجاب میں قائم ہیں

جبکہ سندھ میں ان کی تعداد 32 اور خیبر پختونخوا میں8 ہے۔چینی سے جڑے تنازعات پر اکثر شوگر ملز مالکان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حکومتی پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے منافع کی قیمت عام صارفین کو چکانی پڑتی ہے۔درحقیقت ملک میں قائم کئی شوگر ملز کاروباری افراد کے علاوہ بااثر سیاسی شخصیات اور خاندانوں کی ملکیت میں بھی ہیں۔ پاکستان کے سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ جب شوگر ملز کو سبسڈی چاہیے تو انھیں مل جاتی ہے، جب برآمد کرنے کی اجازت چاہیے وہ بھی مل جاتی ہے اور جب چینی در آمد کرنے کی اجازت چاہیے

تو وہ بھی مل جاتی ہے۔‘ اس کا مطلب ہے کہ شوگر ملز مالکان کا ’حکومتی پالیسیوں پر اثر و نفوذ ہے۔‘انھوں نے کہا کہ یہ پالیسیاں ’عوام کی نظر سے نہیں بلکہ شوگر ملز مالکان کے نکتہ نظر سے بنائی جاتی ہیں۔‘ سابق مشیر خزانہ نے کہا کہ ’یہ ایک قسم کا کارٹیل ہے اور ان کی ایسوسی ایشن بھی بہت طاقتور ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’چینی ایک ضروری آئٹم بن چکا ہے اور اس میں شوگر ملز کو کسی مقابلے کا سامنا نہیں ہے کیونکہ یہ اس کی پیداوار سے لے کر اس کی مارکیٹ میں فروخت تک، ہر چیز پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس شعبے میں حکومتی مداخلت بہت زیادہ ہے، اس لئے آئے دن شوگر سکینڈل سامنے آتے رہتے ہیں جب تک حکومتی مداخلت ختم نہیں ہوتی، یہ سکینڈل آتے رہیں گے۔‘ ان کی تجویز ہے کہ ’حکومتی مداخلت کے بجائے مارکیٹ فورسز چینی کی قیمت اور اس کی طلب و رسد کا تعین کریں۔‘ان کی تجویز ہے کہ گھریلو صارفین کے لئے چینی پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا جائے تو حکومت کے ریونیو پر کوئی فرق نہ پڑے والاکیونکہ زیادہ مقدار میں چینی انڈسٹری میں استعمال ہوتی ہے

۔ ’تاہم گھریلو صارفین کے لیے سیلز ٹیکس کے چینی پر خاتمے سے اس کی قیمت کو نیچے لایا جا سکتا ہے۔‘ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ چینی کی قیمتوںمیں استحکام لانے کیلئے ٹھوس پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل کرناناگزیرہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر سطح پر حکومتی مداخلت ختم کی جائے اور شوگر انڈسٹری کو دی جانے والی سبسٹڈی کا فائدہ عوام کو ملنا چاہیے شوگر انڈسٹری مالکان بھاری منافع پر چینی ایکسپورٹ کردیتے ہیں پھر اسی چینی کو زیادہ قیمت پر امپورٹ کرتے ہیں جس سے ملک کا قیمتی زرمبادلہ ضائع کیا جاتاہے شنیدہے کہ ملی بھگت سے کاغذوںمیں ہی ایکسپورٹ اور امپورٹ کی جاتی ہے اسے کہتے ہیں

آم کے آم گٹھلیوں کے دام کیونکہ یہ لوگ منافع کمانے کے 101گرجانتے ہیں حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ عوامی مفاد میں ایسے لوگوںکے خلاف سخت ایکشن لے جو محض اپنے مفادات کے لئے عام آدمی کو مہنگائی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں یقینا ان کا یہ مکروہ دھندا ناقابل ِ معافی جرم ہے جب تک حکومت کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرکے قانون کی حکمرانی قائم نہیں کرتی عوام کو کبھی ریلیف نہیں مل سکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں