قوم فو ج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ! 88

غزہ کے شہید بچوں کی چیخیں

غزہ کے شہید بچوں کی چیخیں

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی

اسرائیلی وزیراعظم گولڈا مئیر اکثرکہا کرتی تھیں کہ ان کی زندگی کا سب سے برا اور سب سے خوشگوار دن وہ تھا جب انہوں نے مسجد اقصی کو آگ میں جلتے دیکھا۔ اس کی وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگیں “جس روز ہم نے مسجد اقصیٰ کو پہلی بار آگ لگائی میں ساری رات اس خوف سے سو نہ سکی کہ کہیں عالم اسلام ہم پر حملہ آور نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اسرائیل کا وجود مٹ جائے گا۔ ساری رات آنکھوں میں گزر گئی ، جب اگلے روز سورج چڑھا اور مسلمانوں کے رد عمل کو دیکھا تو میں مطمئن تھی

کہ اب اسرائیل حدود عرب میں محفوظ ہے اور اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں اس تناظرمیں مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور فلسطینی مسلمانوں کی بے بسی نے مسلم امہ کا خون ارزاںکردیاہے آج حالات وواقعات شہادت دے رہے ہیں کہ غزہ میں یہودیوں کی وحشیانہ انداز میں شہریوںپر حملے، دہشت گردی، جنگی جہازوںکی بمباری سے ہزاروں معصوم بچوںکی شہادت تاریخ کا سب سے بڑا المیہ جنم لے چکاہے یہ ایک ایسی کالک ہے صیہونی جتنا اپنا چہرہ صاف کرنے کی کوشش کررہے ہیں اتنا ہی بھیانک ہوتاجارہاہے

مظلوم فلسطینی کے ناصر اسپتال میں خدمات انجام دینے والی برطانوی سرجن وکٹوریا روز کا کہنا ہے کہ ہسپتالوںمیں طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے غزہ میں ہم ان بچوں کو کھو رہے ہیں اگر یہ واقعہ برطانیہ میں ہوتا تو قیامت آجاتی اور لوگ سڑکوںپر آجاتے کیونکہ وہاں میرے پاس بنیادی ٹیسٹ جیسے مکمل خون کے تجزئیے (Full Blood Count) اور گردوں کی فعالیت (Renal Function) کا ٹیسٹ کرنے کی سہولت موجود ہوتی لیکن یہاں غزہ میں میرے پاس ان میں سے کچھ بھی نہیں، یہاں ہمارا بلڈ بینک مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ برطانوی سرجن وکٹوریا روز نے کہا تباہ حال فلسطینی شہریوں کا علاج ممکن ہے اگر ہمارے پاس تمام تر سہولیات موجود ہوں، ہمیں امداد کی ضرورت ہے،

قطع نظر اس کے کہ غزہ میں سیاسی طور پر کیا ہو رہا ہے، علاج معالجہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور ہمیں ان لوگوں کو خوراک اور طبی امداد فراہم کرنی چاہیے اس کے لئے ٹھوس اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غزہ میونسپل آفس نے جو اعدادو شمار جاری کئے ہیں ان میں کہا گیاہے کہ اسرائیلی فوجی حملوں سے 810 کلومیٹر سڑکیں ، ایک لاکھ 75 ہزار میٹر لمبی سیوریج لائنیں اور 8 سیوریج پمپنگ اسٹیشن 63 کنویں تباہ ہوئے جبکہ علاقے میں نظام زندگی مفلوج اور 2 لاکھ 60 ہزار ٹن کچرا جمع ہوگیا۔ سرائیلی بمباری کے نتیجہ میں 63 ہزار درخت، 8 پارکس، 134 گاڑیاں اور 22 میونسپل دفاتر بھی تباہ ہوئے۔

ایک درجن بازار، 5 ثقافتی مراکز اور 165 تاریخی عمارتیں تباہ ہوگئیں۔ غزہ میں فاقہ کشی پر مجبور فلسطینی بچوں، سکولوں اور اسپتالوں کی تباہی، انسانی امداد کی بندش اور بے گھر خاندانوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ غزہ میں اسپتالوں اور اہم انفرا اسٹرکچر کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا اسرائیلی اقدامات عالمی قوانین اور انسانی اصولوں کی خلاف ورزی ہے ، غزہ میں اسرائیلی زمینی کارروائیاں خطے میں امن و استحکام کی کوششوں کیلئے خطرہ ہیں اس لئے عالمی برادری فلسطینیوں کی نسل کشی کی اسرائیلی مہم کو فوری ختم کرنے کیلئے بلاتاخیر اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اورفلسطینیوں کو بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں ان حالات کا ادراک کرتے ہوئے برطانیہ کے وزیراعظم سر کئیر اسٹارمر اور دیگر نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل فوری طور پر انسانی امداد کو غزہ میں داخل ہونے دے

کیونکہ غزہ میں ہر 5 میں سے ایک شخص کو بھوک کا سامنا ہے یہاں کی پوری آبادی کو غذائی عدم تحفظ اور قحط جیسے خطرے کا سامنا ہے برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے اسرائیل کی طرف سے امداد کی اجازت کو ناکافی قرار دیا اور کہا کہ غزہ میں مصائب کی صورتحال ناقابل برداشت کی سطح تک پہنچ چکی ہے تینوں ملکوں نے کہا کہ مستقل جبری نقل مکانی بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے جنگ بندی کے ساتھ دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا دوسری جانب غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیاں اور بڑھتے انسانی المیے پر اسرائیل کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں،

سابق اعلیٰ فوجی افسر اور اپوزیشن جماعت دی ڈیموکریٹس کے رہنما یائر گولان نے اسرائیلی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے نیتن یاہو کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ غزہ میں بچوں کو مارنا ہمارا مشغلہ بن چکا ہے اسرائیلی رکنِ پارلیمنٹ نے کہا کہ ایک ہوش مند ملک نہ تو شہریوں کے خلاف جنگ لڑتا ہے، نہ ہی بچوں کو مارنا اپنا مشغلہ بناتا ہے اور نہ ہی کسی قوم کو زبردستی بیدخل کرنے کو اپنا مقصد بناتا ہے گولان نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے اپنی روش نہ بدلی تو وہ ایک الگ تھلگ ریاست بن جائے گا،

جیسا کہ ماضی میں جنوبی افریقہ تھا۔ جبکہ اقوام متحدہ نے موجودہ صورت حال فلسطینی آبادی کیلئے تباہ کن نقصان قراد دیتے ہوئے انتباہ کیاہے کہ غزہ میں جلد امداد نہ پہنچی تو 14 ہزار بچوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے موجودہ حکومت انتقام پسند، اخلاقیات سے عاری اور بحران میں ملک چلانے کی صلاحیت سے محروم افراد پر مشتمل ہے، جو ریاست کے وجود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں اضافے پر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اظہارِ تشویش کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے بیان میں غزہ میں فلسطینیوں کی صورتِ حال کو بیان سے باہر اور غیر انسانی قرار دے دیا۔

انہوں نے کہا ہے کہ محاصرے اور فاقہ کشی کی پالیسی بین الاقوامی قانون کا تمسخر اڑاتی ہے، امداد کی ناکہ بندی فوری ختم کی جائے۔سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ نے غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں اضافے پر بھی اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ بین الاقوامی قانون، انسانی اصولوں کی پاسداری، غیر جانب داری اور انسانیت کے خلاف کسی منصوبے میں شامل نہیں غزہ کے لوگوں کی بار بار جبری نقل مکانی اور غزہ سے باہر بے دخلی کو مسترد کرتا ہوں ۔ اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جاسکتا کہ عالم ِ اسلام کے اتحاد و اتفاق اور زبردست عسکری قوت کے بغیر صیہونیوںکے ریشہ دوانیوں اور ظلم وبربریت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا قوم کو قبلہ ٔ اول کی آزادی کے لئے کسی عمرؓ بن خطاب یا سلطان صلاح ؒالدین ایوبی کاانتظارہے۔غزہ میں جب بھی کوئی بم پھٹتاہے ،کو ئی حملہ ہوتاہے

،کسی مسلمان لہولہان کردیا جاتاہے،کوئی خاتون ،نوجوان یا بچہ شہید ہوتا تویا یہودی ظلم وبربریت کی نئی داستانیں رقم کرتے ہیں میں تصورکی آنکھ سے دیکھتاہوں غزہ کے مسلمانوںکے گھر دھواں دھواں ہیں، یہودی ٹینکوں سمیت شہری آبادی میں گھس آئے ہیںمیزائل داغے جارہے ہیں، جگہ جگہ بم دھماکوںکا شورہے اور جدید اسلحہ سے گولیاںبرسائی جارہی ہے ماحول میں آہیں،چیخیں،سسکیاں حاوی ہو جاتی ہیں الغرض چاروں سمت وحشت ناچ رہی ہوتی ہے، اور مسلمانوں کی پرنم آنکھیں،دل زخمی اور سینے فگار ہیں

وادی ٔکشمیر،افغانستان،میانمار،عراق،شام،لبنان اور کئی مسلمان ممالک میں ہونے والے مسلم کش حالات کیا کم تھے کہ غزہ میں یہودی مظالم ختم ہونے میں نہیں آرہے مسلمانوں کی آنکھیں اپنے حکمرانوں کی بے حسی اورخاموش تماشائی بنے دیکھ کر کرب سے اپنی چیخیں، آہیں اور سسکیاں سینے میں ہی دفن کرلیتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں کو غزہ کے شہید اور زخمی ہونے والے بچوںکی حیخیں بھی سنائی نہیں دیتیں اور دل کے ہر گوشے سے دعا نکلتی ہے الہی ہم مظلوم ، بے بس مسلمانوںپررحم فرما آمین کہ ہم اس دعا کے علاوہ کربھی کیا سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں