بھارت ایک عرصے سے پاکستان کے خلاف بلوچستان میں دہشت گردی
بھارت ایک عرصے سے پاکستان کے خلاف بلوچستان میں دہشت گردی کر رہا ہے اور دوسری جانب آزاد کشمیر پر اپنا دعویٰ بھی جتا رہا ہے، حالانکہ اصل مسئلہ مقبوضہ کشمیر کا ہے ،پاکستان کی خواہش ہے کہ مذاکرات میں مسئلہ کشمیرکو حل کیا جائے اور بھارت کو سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور پاکستان کا پانی روکنے سے منع کیا جائے ، کیو نکہ یہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ، اس پر ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے ،پاک بھارت جنگ بندی کے بعد کہا جارہا ہے
کہ مذاکرات جدہ میں ہوں گے اور شہزادہ سلمان دونوں ٹیموں کی میزبانی کریں گے، جب کہ امریکی صدر ان مذاکرات میں ثالث کی حیثیت سے معاون ہوں گے ،تاہم اس مذاکراتی عمل سے پہلے ہی دونوں ملک اپنا واضح مؤقف دیے چکے ہیں‘ اس میں کوئی کوئی نقطہ ٔ اتصال ہی نہیں ہے تو پھر یہ مذاکرات کیسے ہوں گے اور کیوں کر کا میاب ہوں گے؟
اگر دیکھا جائے توپاکستان سارے ہی مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بار ہا پیشکش کر چکا ہے، مگر جنگی جنون میں مبتلا بھارتی قیادت امن اور مذاکرات کی بات سننے کو ہی تیار نہیں رہی ہے، گزشتہ روز بھی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب میں جو لب و لہجہ ا ختیار کیا، اس سے مستقبل میں کشیدگی کم ہونے کی توقعات پر اوس پڑنے لگی ہے ،نریندر مودی کا کہنا ہے کہ ’’ٹیرر اور ٹاک ایک ساتھ نہیں چل سکتے، ٹیرر اور ٹریڈ ایک ساتھ نہیں چل سکتے، لیکن اگر ٹاک کا سلسلہ چلتا رہے
تو ٹیرر سمیت تمام مسائل کے حل کی راہ نکل ہی آتی ہے، اگر بات چیت کا سلسلہ ہی مفقود کر دیا جائے تو مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں؟ اگر دس مئی کو پاک بھارت ڈی جی ایم اوز میں رابطہ نہ ہوتا تو جنگ بندی کیسے عمل میں آتی اور پھر یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمتا؟امر یکی صدر نے بھی تجویز دی ہے کہ دونوں ممالک جنگ کے بجائے تجارت کر یں اور اپنے ملک و عوام کو خوش حال بنائیں ، اس تجویز پر کتنا عمل ہو گا ،اس کا اندازہ مذاکرات میں بھارتی رویئے سے بخوبی ہو جائے گا۔
اس جنگ میں منہ کی کھانے کے بعد مودی سر کار دائو پر لگی ہے ، اس صورتحال میں مودی کی پوری کوشش ہو گی کہ مزاکرات ناکام بنائے جائیں اور ایک بار پھرجنگ چھیڑی جائے ، جبکہ دنیائے عالم جان چکی ہے کہ پا کستا ن کی افواج نہ صرف طاقت ور ہیں ،بلکہ بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بھی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں ، اس لیے ہی مودی سر کار کو سمجھایا جارہا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں لگ بھگ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی مقیم ہے، مگر اس خطے کی جی ڈی پی دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے، کیو نکہ اس خطے کی قیادت کے غلط فیصلوں کی قیمت خطے کے عوام کو چکانا پڑ رہی ہے ،یہ خطہء بھر پور وسائل کے باوجود غربت‘ پسماندگی اور بھوک جیسے مسائل کا مقابلہ نہیں کر پا رہا ہے
،اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اب تک اس خطے میں امن‘ بقائے باہمی اور ترقی کی راہ پر ایک ساتھ آگے بڑھنے کی سوچ پنپ نہیں سکی ہے ،اگر باہمی مسائل کا پُرامن حل نکال لیا جائے تو یہ خطہ دنیا میں تیز رفتار ترقی کی مثال قائم کر سکتا ہے۔
اس خطے کے عوام کی بھی خواہش ہے کہ جنگ کو چھوڑ کر امن کی راہ اپنائی جائے، امریکہ جنگ بندی کے بعد سے پاک بھارت کو تجارت میں مدد دینے کی پیشکش کر رہا ہے‘ اس جنگ بندی کے بعد کاروباری ہفتے کے پہلے روز دونوں ملکوں سمیت پورے خطے کی سٹاک مارکیٹ میں مثبت رجحان دیکھنے کو ملا ہے ، گزشتہ روز ہی کے ای 100انڈکس میں دس ہزار پوائنٹس سے زائد کا اضافہ دیکھا گیا ،جو کہ ایک دن میں سب سے بڑا اضافہ ہے ،پاک بھارت جنگ بندی کی اہم پیشرفت سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی کا بڑا محرک ہے
،اس کیساتھ کچھ اور مثبت عوامل بھی جڑ گئے ہیں، جیسا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کیلئے قرض اجرا کی منظوری‘ امریکی صدر کی جانب سے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کا عندیہ‘ امریکہ اور چین میں ٹیرف پر مذاکرات میں مثبت پیشرفت ،یہ سبھی عوامل خطے میں صورتحال کی مجموعی بہتری کی جانب اشارہ کررہے ہیں،اس کو عوامی اور کاروباری حلقوں کی امن پسندی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی جنگ یا غیر معمولی صورتحال کا خواہاں نہیں ہے ، اس لیے اب ضروری ہے کہ طاقت اور جارحیت کے بجائے امن اور مذاکرات کی راہ اپنائی جائے، بھارتی قیادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سات دہائیوں سے جو مسائل طاقت کے استعمال سے حل نہیں ہو سکے ہیں‘ وہ مزید طاقت کے استعمال سے زیادہ بگاڑ کی طرف ہی جائیں گے،تاریخ بتاتی ہے کہ ہر جنگ کے بعد بالآخر مذاکرات ہی ہوتے ہیںاور مذاکرات سے ہی سارے معاملات حل ہوتے ہیں۔