46

جب اصول اور اقدار دم توڑنے لگیں تو ہمیں انسان ہوتے ہوئے بھی شرم ہوتی ہے۔

جب اصول اور اقدار دم توڑنے لگیں تو ہمیں انسان ہوتے ہوئے بھی شرم ہوتی ہے۔

نقاش نائطی
۔ +966562677707

کافی دیر دوڑتی ہرن کا پیچھا کرتی مشقت کے بعد، بھوکی مادہ شیر اینٹیلوپ یا ہرن کو پکڑنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، اور جب اس نے اسے چیر پھاڑ کھانے کی کوشش کی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا شکار تو حاملہ ہے، اس لئے پہلے تو اس نے جنین مردہ ہرن کے بچے کو بچانے کی کوشش میں ہرن کا پیٹ چیر پھاڑ دیا لیکن جب وہ جنین ہرن کے بچے کو بچانے میں ناکام ہوگئی تو اپنے شکار کے پاس زمین پر گر گئی۔
اس تمام واقعہ کے دوربین کیمرہ سے عکس بند کرتے ہوئے, جانوروں کی نقل و حرکت انکے اخلاق و اقدار پر ریسرچ کرنے والی ٹیم کا افریقن فوٹوگرافر گیری ونڈر والٹ, دور ہی سے, کافی دیر تک مادہ شیر کے موقع سے جانے کا انتظار کرتا رہا، پھر بعد میں اس کے پاس گیا تو پتہ چلا کہ مادہ شیر مر چکی ہے

ماہر حیوانات کہتے ہیں کہ عفریت کبھی بھی اپنے ظلم میں انسان کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہےجب کہ انسان اپنے ساتھی انسان کو مارنے، چیر پھاڑ کرنے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا ہے

یہ مادہ شیر اس لئے مر گئی کیونکہ وہ ایک مادہ ماں شیرنی تھیں اس نے حاملہ ہرن کا شکار کیا تھا۔ایک آنے والی زندگی کو ماں کے پیٹ میں مرنے کا سبب بن چکی تھی۔ اس نے بھی اپنے بچوں کو پیٹ میں رکھے تکلیف سہے انہیں جنما تھا, ایک ماہ کی ممتا اور اس کے کرب کا اسے احساس تھا۔اس لئے ایک شیرنی کی حیثیت وہ اپنے شکار ہرن کو ڈھیر کرنے کامیاب ہوچکی تھی لیکن ایک ماں کی ممتا کی حیثیت وہ اپنی وجہ سے ایک انجنمے ننھے ہرن کی موت کا سبب بن چکی تھی وہ یہ صدمہ برداشت نہ کرپائی اور خجالت سے خود دم توڑ دیتے ہوئے, اس مادہ شیر کے اپنے ہی شکار ہرن کے بچے کو ماں کے پیٹ میں مرنے مجبور کرنے کے لئے خود کو ذمہ دار مانتے ہوئے پچھتا چھاپ میں خود جان دے دیتی ہے اور ہم اشرف المخلوقات انسانوں کے لئے, ہمارا بھولا بسرا انسانیت کا پاٹھ چھوڑ گئی
کیا ہم بھارت کے مسلمان گجرات اقتدار حکومت پر براجمان سنگھی ٹولے کی سازشوں کا شکار شہید ہوتے ہزاروں گجراتی مرد و نساء نیر نوخیز کلیوں کی صورت مسلم بچوں کیانی انسان نما درندوں کے ہاتھوں جلتے تڑپتے دم توڑتی آہ و بکاء, بھول چکے ہیں؟ 28 فروری 2002، وہ تاریخ ہند کا ایک سیاہ دن تها,کہ اقتدار کے نشہ میں دهت، اپنے وقتی اقتدار کو حیات دوام بخشنے کے لئے, مسند اقتدار پر بیٹهے کچھ انسان نما درندوں نے, مسلمانان گجرات کا قتل عام کرنے کی ایک سازش رچی تهی. حکومتی زمینی دفاتر کے کارندوں کی خدمات طلب کئے، ایک ڈیٹا بیس اکهٹا کیا گیا تھا، کہ کس علاقہ میں کتنے کتنے مسلمان بستے ہیں،کون کون گھروں محلوں سوسائیٹیوں میں کون کون مسلمان رہائش پزیر ہیں

. کون مسلمان کس کس حیثیت کا ہے اس ڈیٹا بیس کی بنیاد پر ایک جنگی حکمت عملی تیار کی گئی تھی، اسی حساب سے قاتل جتھوں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی، لاٹھی نیزہ تلوار ترشول تیار کروائے گئے تھے ، سامان حرب تقسیم کیا گیاتھا، رضاکاروں کو ظلم و بربریت بپا کرنےکی تربیت اچهی طرح دی جاچکی تھی اور جب سب کچھ ترتیب دی ہوئی گهنؤنی سازش کے تحت, عمل کئے جانے کی یقین دہانی ہوگئی

تو سازش کے دوسرے اور تیسرے حصہ پر کام شروع ہوا تها.گودھرا سے ایک اسٹیشن پہلے والے اسٹیشن سے طہ شدہ پروگرام کےتحت, پہلے رام کاروسیوکوں کی حفاظت پر معمور اردھ سینک بل کے دستوں کو ڈیوٹی سے ہٹایا گیا تھا اور پھر گودھرا اسٹیشن پر دہشت گردانہ کاروائی پر عمل پیرا ہونے کا سامان, تیل کے کنسٹر و جلاکر مارے جانے والے مسلم کہ غیر مسلم مہروں کو کارسیوکوں کے لباس میں کارسیوکوں کو واپس لے آنے والی ریل گاڑی میں بٹها دیا گیا تھا

کچھ انجانے نوجوانوں کو طہ شدہ پروگرام کے تحت بهیس بدل کے گودھرا ریلوے اسٹیشن پر بهیجا گیا. اور گودھرا ریلوے اسٹیشن پر اسکرپٹ شد ڈرامہ کو عملی جامہ پہنایا جانے لگا. گودهرا اسٹیشن پر کارسیوکوں اور اسٹیشن پر موجود بهیس بدلے انہی کے کارندوں کے درمیان نوک جھونک تکرار گالی گلوچ مارا ماری درشائی گئی تهی. اور سازشی ڈرامہ کا اصل سین کچھ باہر سے مسلمانوں کے بهیس میں خود انہی کے لوگوں کا پهتراو ، تیل چھڑک کر ایک دو مخصوص ڈبوں کو نظر آتش کرنے کا منظر اور پهر ریل کے اندرڈبےمیں بیٹهے مخصوص لوگوں کو جلاکر مار دئیے جانے کا آخری سین درشایا گیا تھا

یہ سب ایک منظم سازش کے تحت کیا گیا اور پلاننگ کے حصہ کے طور اس پوری سازش کا الزام گودهرا کےانجانے مسلمانوں کے ناتواں کندھوں پر ڈالا گیا.

ابهی گودھرا کے مسلمان اس سازش کو سمجھ بهی نہ پائے تهے کی ریاستی حکومتی سازشی ذہن کے تیار کردہ، حکمت عملی ڈرامہ کے اگلے حصہ پر پورے گجرات میں عمل در آمد شروع ہوگیا.گودهرا ٹرین دہشت گردانہ کاروائی کو مسلمانوں کے سر تهوپتے ہوئے انہیں سبق سکھانے کے نام پر, پولیس محکمہ کو کچھ گنٹهوں کے لئے، جو کچھ ہونے جارہا ہے دیکهتے بوجهتے ہوئے بهی ان دیکها کرنے کی ہدایات نہ صرف جاری کی گئی، بلکہ ان دہشت گرد رضاکاروں کی مکمل مدد و نصرت کی ہدایات جاری کی گئیں. اور ان چند گنٹهوں میں سرزمین گجرات پر دہشت و قتل بربریت کا ایسا ننگا ناچ شروع ہوا ،

جس کی نظیر ہند کے تاریخ میں ملنا مشکل ہے. پہلے سے تیار کردہ ڈیٹا بیس کے تحت اور پہلے سے طہ شدہ حملہ آور ہندو شدت پسند رضاکاروں نے, انسانیت کو شرمسار کرنے والے ایسے ایسے کارنامہ انجام دئیے, جس کی نظیر ملنی مشکل ہے. ایسے مواقع پر قتل عام و عورتوں کی عزت سے کھلواڑ عام سی بات ہوتی ہے لیکن پورے نو ماہ کے حمل والی عورتوں کا ، اپنے ہونے والے بچہ کی دہائی دیئے، انہیں بخش دئیےجانے کی گوہاڑ باوجود، شرم و حیا کی اس دیوی کو سرعام ننگاکر، تلوار چاقو سے اسی کا پیٹ چاک کئے،

انجنمے زندہ نومولود کو نیزوں پر اچهال کر، قہقہوں سے دم توڑتی انسانیت کا مذاق اڑایا جانا، طہ شدہ سازش کے تحت جلائے گئے الاؤ میں,نیزے پر اٹھائے زندگی سےپہلے موت سے ہمکنار کئے, نومولود کو الاؤمیں پھینکتے ہوئے, مسلم ماؤں کی چھاتیوں سے ڈر اور خوف سے چمٹے ننهے معصوم بچوں تک کو رحم رحم کی بهیک مانگتی ناریوں سے چهین چهین کر، جلتے الاؤ میں پھینکنے کے دردناک مناظر ، جن گجرات کی مسلم ماں بہنوں نے براہ راست دیکهے ہیں ،کیا انہیں وہ کبهی بهول پائیں گے؟

گهر میں پکی ہر چهوٹی بڑی پکوان کو ایک دوسرے کو دے کر کهانے والے پڑوسیوں نے، تیوہاروں کے مواقع پر ایک دوسرے کو بدھائی دینے والے محلہ کے لوگوں نے ، اپنے ہاتهوں راکهی باندھنے والی مسلم بہنوں کے ساتھ ایسا گھناؤنا سلوک، کیا کوئی کریگا؟ اس کا کوئی اندازہ کر سکتا ہے؟ ہاں 2002 گجرات میں یہی کچھ ہوا تها. اور یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے

آج سے اٹھتر سال قبل صدیوں سے ساتھ رہنے والے مسلم پریواروں کے ساتھ راجکوٹ جونا گڑھ سے پاکستان ہجرت کر جاتے وقت، سرحد پر رہنے والے برادران وطن نے کچھ ایسا ہی سلوک کیا تھا.اس وقت انہی گجراتی مسلم مرد نساء پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے آج کے آرایس ایس ورکر اورکل کے ہندو مہاسبھائی تھے اور2002 گجرات مسلم نرسنگہار کے وقت بھی یہی ھندو شدت پسند یاکہ دہشت گرد تھے۔ کل مستقبل میں اللہ نہ کرے کوئی اور ایسا موقع آئے تو پهر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کریں گے؟

اس کی کوئی ضمانت بهی نہیں ہے، کیونکہ آج سے چودہ سو سال قبل اللہ کے رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم نے الکفار لاعتبار کے کلمات کہہ کر، ہمیں پہلے ہی سے متنبہ کردیا تها. اس کا مطلب یہ نہیں تمام برادران وطن ایسے ہیں، لیکن چند مذہبی جنونیت والے لوگ مذہب کے نام پر، عام اذہان کو پراگندہ کر رہے ہیں.اب تو انہیں ریاستی و ملکی حکومتی پشت پناہی حاصل ہوچکی ہے. پروگرسیو انڈیا کا نعرہ دیکر اقتدار پر قبضہ کرنے والوں نے کهلم کهلا حکومتی وسائل کو نفرت پھیلانے پر معمور کردیا ہے.

سر زمین گجرات پر اپنے گھناؤنے جرائم کے لئے، آزاد اعلی عدلیہ سے سزا کے خوف سے، انہوں نے ایوان قانون سازی پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے. ایک طرف حکومتی عہدوں، عدلیہ کے اعلی مناصب و تحقیقاتی ایجنسیوں پر انکی کڑی گرفت، تو دوسری طرف، جہاں قانون عدلیہ اور ایجنسیوں کا ساتھ براہ راست ملنے کی امید نہ رہے، جس کی لاٹھی اسکی بهینس کے مصداق ان گنت قائم انہی کی شدت پسند تحریکوں کی پشت پناہی میں,لاکھوں کاجن سیلاب سڑکوں پر لاکر, لاء اینڈ آرڈر اداروں کو مجبور کرنے کے ہنر کے وہ ماہر، گویا چٹ بهی انکی تو پٹ بهی انکا. اگر کسی جائز مانگ کو لیکر مسلمان سڑکوں پر احتجاج کرنے نکلیں

تو حکومتی اہلکار اپنے کرایہ کے ایجنٹوں سے شرارت کروائیں اور لاٹهی چارچ فائرنگ کر, ہمارے حوصلہ پست کروانے میں انہیں کوئی تآمل اور جهجک محسوس نہ ہو. ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کیا اب بهی ہم اپنے اور اپنے بیوی بچوں کی فکر گلو میں لئے دنیا و مافیہا سے بے خبر جینے میں, اپنی عافیت تصور کر، بیٹهے رہیں گے؟
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم نے یا تو اللہ کی طرف سے غیبی مدد و نصرت کا انتظار کرنا جانا ہے یا کسی غیر مسلم این جی او یا کسی غیر مسلم سیکیولر بهائی کو, ہمارے لئے ہمارے حقوق حاصل کر دینے والا تصور کئے, انتظار کرنا جانا ہے.الحمد للہ ہم مسلمانوں کا ایک بااثر مسلم پرسنل لاء بورڈ، نہایت ہی قابل بهروسہ، علماء کرام اور مقتدر شخصیات کی سرپرستی میں، مسلمانوں کو اس سرزمین پر دستور الهند میں دئے گئے حقوق کے تحت، عزت و احترام سے جینے کی راہ سجهانے میں سرگرم عمل ہے.

ایسے میں ہمیں چاہئے کہ اپنے تمام اختلافات کو وقتی طور، پرے رکهکر,اپنے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ہلکے اشارہ پر, اپنی جان مال کے ساتھ انکی مدد کے لئے، اپنے آپ کو حاضر کرنے والے بنیں۔ انشاءاللہ ہم ایک جٹ ہوکر دستور الهند میں ہمیں دئے گئے اپنے حقوق کی باز یابی کی سعی پیہم جاری رکهیں گے تو انشاءاللہ اس سرزمین ہند پر تا قیامت عزت نفس اور جذبہ ایمانی کے ساتھ جینے سے کوئی بهی طاقت ہمیں باز رکھ نہ ہائے گی. اور بہت جلد 92 ممبئی بلاسٹ سازش کے تحت سزا پائے یوسف میمن کی طرح گجرات کے قاتل بهی دار ہر لٹکتے نظر آئیں گے. انشاءاللہ

اب بھی ہم 25 کروڑ مسلمان اپنے مسلکی اختلافات کی وجہ سے، حنفی سلفی مقلد غیر مقلد بریلوی دیوبندی اختلافات کے چلتے خاموش بیٹھے رہیں گے تو بازار کے مرغی دربے میں بند، آج مالک کے ہاتھوں کٹنے اور بکنے سے بچنے والی مرغیوں کی وقتی خوشی کی طرح، یکے بعد دیگرے ہم تمام مسلمان ان سنگھیوں کے نشانے پر آج نہیں تو کل آہی جائینگے۔ اس لئے ایک طرف جمیعت العماء ھند، جماعت اسلامی ھند، جمیعت اہل حدیث، جمیعت اہل سنہ و الجماعہ ودیگر مرکزی مسلم اداروں کی طرف سے مشترکہ طور دیش کے بڑے وکلاء کی خدمات حاصل کرتے ہوئے، عین یوپی انتخاب سے قبل اس اقسام کے ھندو مسلم منافرتی ایجنڈوں پر عمل درآمد روکنے کی دیش کی عدالت عالیہ میں، گوہاڑ لگائی جانی چاہئیے

تو دوسری طرف عدالت عالیہ وسنگھی مودی یوگی حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کے لئے، اپنے مذہبی اختلافات کو وقتی طور پرے رکھ کر, ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر احتجاج کرنے نکلیں گے اور جیل بھرو اندولن خود سے چلائیں گے تو آئیندہ کسی مسلمان پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے ان فرقہ پرستوں کو سو مرتبہ سوچنا پڑیگا
ایک سلسلہ تھا پشت تھی خنجر تھا وار تھا
حیرت زدہ ہے یار کہ اب تک کھڑا ہوں میں

ہے بے اثر یہ خون کے دھبے یہ شور و غل
میں ہوں ضمیر قوم ابھی سو رہا ہوں میں
اقبال اسلم بدر

اس لاسلکی دور میں بھی، جہاں آسمان کی بلندیوں پر ، ترقی پذیر ملکوں کے طاقتور تر، مصنوعی سیارے انسانی اپرگرہوں یا لیبارٹریوں کی شکل گردش نہیں کیا کرتے تھے۔ اور آسمان کی اسعتوں سے خطہ زمین پر نظریں گاڑھے، اپنے آقاؤں کو، دوست و دشمن ملک کی زمین پر ہونے والی سرگرمیوں کی، سچی جھوٹی خبریں،ان تک، یا ان کے دشمنوں تک پہنچاتے ہوئے، ان سے موٹی موٹی رقمیں اوصول کئے جانے کا کوئی بندوبست ان ایام نہیں تھا، اسباب و وسائل کے فقدان والے اس دور میں، نہ صرف توکل الہ اللہ تھا بلکہ اپنے وسائل کے دم پر، سراغ رسانی کے مادھیم سے، دشمن کی نقل و حرکت کی معلومات حاصل کی جاتی تھیں۔
کفار کے ظلم و ستم سے، اپنے آبائی گاؤں مکہ المکرمہ کو خیر باد کہہ، مدینہ منورہ ہجرت کر، وہاں بسے ابھی کچھ وقت بھی نہیں گزرا تھا کہ مکہ سے دشمن کے لشکر جرار کے، انہیں نیست و نابود کرنے، مدینہ پر چڑھائی کی نیت، نکلنے کی خبر سے، وہ وقتی طور پریشان تو ہوئے، لیکن ہمت ہار کر، نڈھال صورت مسجد کی قباؤں میں سجدہ ریز ہوکر، بارگاہ ایزدی میں رونے گڑگڑانے اور اپنی اور اسکے بھیجے دین اسلام کی بقاء کی دہائی دینے کے بجائے، اپنے درمیان موجود وسائل ہی کے سہارے، اپنے بازوئے دم ہی پر، کفار کے لشکر جرار سے ٹکرانے کی ہمت و نیت سے، مدینہ سے 150 کلومیٹر دور، مقام بدر تک، بچوں بوڑھوں

اور صحیح سالم اور ٹوٹی تلواروں پر مشتمل کسم و پرسی والی پیدل و سوار افواج کو لیکر، مقام حرب بدر تک وہ پہنچتے ہیں، پہاڑوں کے درمیان وادی بدر میں پہنچ کر ایک قابل سپہ سالار کی طرح، لمبے سفر سے تھکی پہنچی افواج کی تعیناتی کی جاتی ہے۔ اپنے پاس موجود تمام تر وسائل کا استعمال کر، اپنی افواج میں حرب جیتنے کے تمام تر ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے، ان میں جہادی جذبات اجاگر کرتے پیغام سے جوش و ولولہ سے بھرا جاتا ہے اور پھر میدان جنگ ہی کے اپنے خیمہ میں، سجدہ ریز ہوکر، بارگاہ ایزدی میں گڑگڑایا جاتا ہے اور پھر آسمانی مدد و نصرت کی گوہاڑ لگائی جاتی ہے۔ اور آسمانی مدد کے فقدان کی صورت، اسکے دین اسلام کے نام لیواؤں کے خاتمہ کی دہائی دی جاتی ہے،

تب پھر ان کی مدد کرنے، آسمانوں سے فرشتے اترتے ہیں۔ اور پھر، تمام تر آسائش حرب، ہتھیاروں سے لیس، ماہر حرب سپہ سالاروں والا لشکر جرار، ان کے مقابلہ ایک تہائی خستہ و مفلوک الحال، ناتجربہ کار مسلم افواج کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو جاتا ہے۔ گھوڑے پر سوار اہنی افواج کو دلیری سے لڑنے اکساتا ولولہ انگیز جملے کہتا دشمن افواج کا سالار بوجہل مصروف حرب ہے۔انصاری صحابہ کرام میں سے دو کم عمر نوجوان بھائی معاذ بن عمرو بن جموح اور معوذ بن عمرو بن جموح, دشمن افواج سپہ سالار بوجہل کے گھوڑے کے پاس بوجہل کا پتہ پوچھتے پہنچتے ہیں, ایک بھائی اپنی تلوار سے گھوڑے کی ٹانگ پر ایسا کاری وار کرتا ہے کہ گھوڑے سے بوجہل نیچے زمین پر گرجاتا ہے,

قبل اسکے کے بوجہل سنبھل پاتا, دوسرا نوجوان بھی اپنی تلوار سے بوجہل پر ایسا کاری وار کرتا ہے کہ, بوجہل کو اپنے مرنے کا احساس ہوتے ہوئےایک سرد آہ کے ساتھ وہ کہہ اٹھتا ہے “مجھے مرنے کا کوئی غم نہیں, لیکن قریش کے سردار کا یوں دو ننھے بچوں کے ہاتھوں قتل کئے جاتے, پشیمانی والی موت کا رنج و ملال رہے گا” حرب بدر کے میدان کارزار میں, ایک تہائی غیر تربیت یافتہ مسلم افواج کا, اپنے سے تین گنہ زیادہ, تجربہ کار تربیت یافتہ جنگجو افواج کو شکشت فاش دینے کے پیچھے, کمزور مگر مسلم افواج کا اپنی اموات فکر سے ماورا, مارو یا مرو والے جذبات سے لڑنا بھی تھا۔یقینا” سالار مسلم افواج آپ ﷺ کی دعاؤں کے اثرات بھی تھے لیکن اپنی طرف سے دفاعی جنگ پورے جہادی جذبات سے لڑنے کے بعد ہی خدائی مدد آیا کرتی ہے
کیا اس وقت نبی آخر الزمان، سرور کونین حضرت محمد مصطفی ﷺ نے، کفار سے مقابلہ کے لئے، مسلمانوں کے جذبات کو ابھارنے والی دھواں دار تقریر، مسجد نبوی کے ممبر سے کرتے ہوئے، دشمن افواج سے دو دو ہاتھ لینے، صرف مسلم افواج کو محاذ پر بھیجنے پر، کیا اکتفا کیا تھا؟ یا بذات خود جہادی جذبہ کے ساتھ محاذ جنگ پر تشریف لے گئے تھے؟ کیا اس وقت اللہ کے رسولﷺ نے، مسلم افواج کو محاذ بدر بھیج کر،خود مدینے میں محفوظ رہتے ہوئے، رب دو جہاں کے حضور سجدہ ریز دعا گو رہتے دعا مانگی ہوتی،

تو کیا محاذ بدر پر، مسلم افواج کی مدد و نصرت کے لئے، اللہ رب العزت فرشتوں کو آسمانوں سے اتارتے ہوئے، اپنے دین اسلام کی حفاظت کیا نہیں کرتے تھے؟ بے شک اس صورت میں بھی اللہ کی مدد ضرور آتی۔آسمان سے فرشتے ضرور اترتے اور یقینا” مفلوک الحال مسلم افواج دشمن کے لشکر جرار پر فاتح ہوجاتی۔ لیکن رسول کونیں خاتمہ الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ نے، دنیوی طور، حرب کے تقاضوں پر اپنی بساط بھر انتظام و اہتمام کرتے ہوئے، رب سے مدد کی گوہاڑ لگا،تا قیامت تک کے ہم مسلمانوں کو، ایسے ناگفتہ حالات میں بھی، اپنے درمیاں موجود, تمام تر وسائل کا استعمال کرتے ہوئے، اپنے میں موجزن جذبہ جہاد کو زندہ و تابندہ رکھتے ہوئے، دشمنوں سے دو دو ہاتھ لینے کے لئے, ہمہ وقت تیار رہتے ہوئے،

مسجد کی قباؤں کی بنسبت میدان کارزار کے چٹیل چٹانوں پر سجدہ ریز، رب دو جہاں سے مدد کی گوہاڑ لگانے کی سنت کو، تا قیامت ہم مسلمانوں میں زندہ جاوید رکھنا، سرور کونین محمد مصطفی ﷺ نے پسند کیا تھا۔ ہم مسلمانوں کو تاقیامت تک، دشمنان اسلام سے نبرد آزما رہنے کے سبق و سنت کو یاد رکھ، صرف مسلمان ہی نہیں، مومن کی طرح، دین اسلام پر عمل پیرا، زندہ رکھنا چاہتے تھے لیکن ہم مسلمانوں نے، قرون اولی کے اہل سلف و صالحین مسلمین کے طرز پر مومن بن کر، عالم پر شان سے حکمرانی کرتے جینے کے بجائے،

دین ہی کے نام سے، دین ہی میں، اپنی مرضی و سہولت مطابق بگاڑ پیدا کرتے ہوئے، اصل دین اسلام سے پرے، مختلف طرز ہائے زندگی ہی کو، دین اسلام ہی کے نام سے، اپنی عملی زندگانی کاحصہ بناتے ہوئے، شافعی، حنفی، مالکی حنبلی,سلفی, اہل حدیث، اہل سنہ، بریلوی، دیوبندی، ندوی، تبلیغی، جماعت اسلامی، مقلد و غیر مقلد مسلمان تو ہم باقی رہے لیکن الا ماشاءاللہ ہر مکتبہ فکر میں موجود، چند فیصد کو چھوڑ کر، ہم میں کوئی بھی مومن باقی نہیں رہا، زبانی اعتبار سے تو ہم رب دو جہاں کے، خالق مالک رزاق ہونے کے دعوے کرتے پائے جاتے ہیں،

لیکن وقت پڑنے پر غوث پاک، خواجہ غریب نواز ،نظام الدین اولیاء یا علی یا حیدر کرار جیسے، ایسے انیک مرحوم بزرگان دین کے ساتھ ہی ساتھ، خلیفہ المسلمین حضرت علی کرم اللہ کو مدد کے لئے پکارتے جہاں ہم پائے جاتے ہیں، وہیں پر، مسلمین قرون اولی، اہل اسلام کے مطعون، مشرکیں کے عقیدے,جتنے کنکر اتنے شنکر اور ہر شئی میں بھگوان کے دکھنے محسوس ہونےیا پرکھٹ ہونے کے عقیدہ کفار کے بمثل، عقیدہ وحدة الوجود، کو ماننے والے علماء کرام کی اکثریت کے تربیت یافتہ ہم مسلمین، قبر پرستی میں ملوث پائے جائیں تو، ہم مومنین کجا مسلمین بھی باقی رہتے ہیں یا نہیں؟ کیا اس کی ہمیں فکر ہے؟ ہمیں وقت وقت سے اپنا محاسبہ اور قرون اولی کے مومنین سے تقابل کرتے دیکھتے رہنا پڑیگا۔

کیا ہم اپنےپڑوسی ملک، زیادہ تر عصری تعلیم کے اعتبار سے ان پڑھ، ہمہ وقت جنگجو نظریات کے حامل، افغانوں کے حرب روس و امریکہ کو بھول گئے ہیں؟یہ دونوں عالمی ایٹمی طاقتیں تھیں۔پوری دنیا آن دو طاقتوں کے بیچ بٹی، ایک کی دوست تو دوسرے کی حریف بنی ہمہ وقت میدان کار زار میں ڈٹی نظر آتی تھیں۔ اس وقت کی عالمی طاقت اولی یا ثانیہ نے اپنے منھ زوری کے بل پر، چھوٹی سے ریاست افغانستان کو نگلنا چاہا تھا، تو بے سرو سامان نہتے افغانوں نے اپنی پگڑیوں کو روسی ٹینکوں کے متحرک سرکتے چین نما پہیوں میں پھنسا کر، انہیں تباہ کرتے ہوئے، عالمی طاقت روس کے غرور کو چکنا چور کیا نہیں کیا تھا؟

روسی طیاروں کی تباہ کن بمباری کے باوجود، نہتے افغانیوں کے، عالمی طاقت روس کو پسپا کرنے کے پیچھے، فرشتوں کے آسمان سے اترتے اللہ کی مدد کو دنیا نے کیا نہیں دیکھا تھا؟افغانستان پر قبضہ کے لئے روس تو اکیلا آیا تھا عالم کی اکلوتی حربی طاقت صاحب امریکہ نے کیا خود ساختہ نائن ایلیون دہشت گردانہ حملہ کے بعد، خود اپنے بازوئے دم پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے، اقوام متحدہ کے مادھیم سے پورے عالم کی حربی طاقت کو ساتھ لئے، یہود و نصاری عالمی حربی اتحاد, طالبانی اسلامی افغانی حکومت پر یلغار کرنے کے باوجود، انتہائی غریب اور پس ماندہ ملک افغانستان کے مسلم مجاہدین نے،صرف اپنے جذبہ جہاد اور اللہ کی مدد کے سہارے عالمی سوپر پاور، صاحب امریکہ کو، کیا

شکست قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا؟ دنیا کی سوپر پاور، صاحب امریکہ کو ،تمام عالمی طاقتوں کے حربی ساتھ کے باوجود، شکست فاش دینا، بغیر اللہ کے حکم سے، مجایدین کی مدد کے لئے آسمانوں سے فرشتوں کے اترے بغیر، مفلوک الحال افغانیوں کے لئے جنگ جیتنا کیاممکن تھا؟ نہیں بالکل نہیں، جب بندہ کسی بھی قسم کی بڑی سے بڑی مصیبت کا شکار ہوجانے پر بھی ، دنیوی اعتبار سے اپنے وسائل کا پورا پورا استعمال کر، اپنے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے پورے ایمانی، جہادی جذبہ کے ساتھ دشمن سے دو دو ہاتھ لڑنے تیار ہوجاتا ہے تو یقینا ان کی مدد کے لئے، بارگاہ ایزدی کے حکم سے آسمانوں سے، ان دیکھے فرشتے اترا کرتے ہیں۔
آج ہندستانی مسلمانوں کی اکثریت، قرآن و حدیث کے فرمان الہی کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے، اپنے بزرگان دین کی طریقت کے بہانے سے، شیعیت رافضیت اور وحدت الوجود کے گمراہ کن عقیدے پر عمل پیرا، شرک وبدعات پر مبنی، دین مشرکین کے مماثل، مختلف ادیان طریقت پر عمل پیرا پائے جاتے ہیں تو پھر، انہیں تنبیہ خداوندی کے عین مطابق، ظالم و جابر حکمرانوں کے ظلم و جبر، سہنے تیار رہنا کیا نہیں پڑیگا؟ کیا

اس کا ادراک و خوف ہم ہندستانی مسلمانوں کونہیں ہے؟ قاتل انسانیت، قاتل گجرات، اپنے وقت کی حکومت اور عدلیہ کی مددسے، اپنوں کے درمیان عزت واحترام سے رہنے دینے لائق نہ سمجھتے ہوئے، ریاست گجرات سے تڑی پار کئے گئے، وقت کے مجرم کو آج تیس کروڑمسلمانوں سمیت، 140 کروڑ سیکیولر بھارت واسیوں پر, فرعون ثانی بمثل طاقتور تر، خودسر حکمران، آخر کس نے بنایا ہے؟ اور کیوں کر بنایاہے؟ آخر ہزاروں گجراتی مسلمانوں کے قاتلوں کو, انکے کئے گناہوں کی سزا, ان بائیس تئیس سالوں سے ملنےکے بجائے, ان پروقتی انعام و اکرام کی مزید بارش کئے جاتے ہوئے

, ہم مسلم امہ ھند پر گزرتے وقت کے ساتھ آزمائش و امتحانات کے لمحات کیوں کر طویل تر ہوتے جارہے ہیں؟ اس پر تدبر و تفکر کرنا ہندستانی عام مسلم کجا، قائدین ملت اسلامیہ ھند کا، فریضہ کیا نہیں ہے؟ کیا اب بھی ہم اپنی کمیوں خامیوں کا محاسبہ کرتے ہوئے، اپنی لغزشوں سے توبہ و استغفار کرتے ہوئے، احکام قرآن کریم و احادیث صحیحہ پر عمل پیرا ہونے کہ سعی پیہم کرتے نہیں پائے جائیں گے؟ یقینا ہمارا خدا، ہمارے اعمال نماز روزے کا محتاج نہیں ہے لیکن ہم تک، کیا اس کے نبی آخرالزماں سرور کونین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تنبیہ مکرر، لاتشرک باللہ، نہیں پہنچی ہے؟ایک غزوہ سے لوٹتے وقت مسلمانوں کا لشکر جب وقتی آرام کرنے کے لئے خیمہ زن ہوتا ہے۔ خاتم الانبیاء ایک پیڑ سے ٹیک لگائے بیٹھے سستارہے ہیں۔اسوقت ایک صحابی رسولﷺ حاضر ہوتے ہیں،سلام کے بعد سوال کرتے ہیں

یا رسول اللہ ﷺ کوئی آسان تدبیر یا نسخہ تجویز کیجئے کہ جس پر عمل کرتے ہوئے میں سیدھا جنت میں چلا جاؤں؟ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں دین توآسان ہے، اس پر عمل کرتے رہو سیدھا جنت پاؤگے۔وہ صحابی رسول ﷺ دوبارہ پوچھتے ہیں۔ہاں رسول اللہ یقینا دین آسان اور قابل عمل ہے اور میں اس پر عمل پیرا بھی ہوں، پھر بھی میں اپنے جنت میں جانے کی فکر ہی سے کچھ اور آسان عمل کا متقاضی ہوں، جس پر پابندی عمل سے,جنت اپنے لئے یقینی بناسکوں۔ اس وقت بھی اللہ کے رسولﷺ نے، یہی کہا تھا کہ دین آسان ہے اس پر عمل پیرا رہو، جنت تمہاری ہی ہے۔ جب اس صحابی نے تیسری دفعہ جنت کے وجوب کے لئے کسی خاص عمل کا تقاضہ کیا تب، پھر آپ ﷺ نے اس وقت فرمایا تھا کہ “لا تشرک باللہ” اللہ کی ذات میں کسی کو شریک مت بناؤ۔اس کا کیا مطلب تھا؟اللہ کے رسولﷺ سے مخاطب، کیا

بالی ووڈ کے سوپر ہیرو سلمان خان کے والد سیلم خان جیسے نعوذ باللہ کیا صحابہ تھے؟ جو کچھ وقت کی نماز یا جمعہ کی نماز ادا کرنے مسجد بھی جاتے ہوں اور وقت وقت سے معاشی زندگی کے کامیابی طلب کرنے، گنیش جی کی مورتی، پوجا کے لئے گھر ہی میں سجا رکھی ہو، کہ نعوذ باللہ،اللہ کے رسول ﷺ نے ان سے لاتشرک باللہ کہا ہو! نہیں بالکل نہیں، آج کل کی معاشرت کا عام سقم، ہر مکتبہ فکر کے مسلمانوں کے اپنے اپنے مدد کی خاطر پکارے جانے والے، خدا نما بزرگ، جن کی قبروں پر عام مسلمانوں کا جم غفیر طواف کرتا، بوسے دیتا اور سجدے کرتا، یا مشکل کشا کی گوہاڑ لگاتا پایا جاتاہے،

تو اہل علم کی کثیر تعداد، اپنے وقت کے اجماع علماءکے گمراہ قرار دئیے گئے، ابن عربی کے عقیدہ وحدت الوجود کو،اپنے طریقت کے اوصول پر صحیح تصور کرنے والے علماء کا، کیا فقدان ہے ہندستانی اہل علم معاشرے میں؟ آگر آج بھی ہم ہندستانی مسلمان، اپنے اپنے متوفی بزرگان دین کی طریقت پر عمل کرتے، شیعیت رافضیت و شرکیہ اعمال و بدعات سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے، اللہ کے کلام آسمانی، قرآن مجید کے احکامات و احادیث صحیح پر، عمل پیرا پائے جائیں تو،ان سنگھی حکمرانوں کی کیا

مجال کہ ہم مسلمین کی طرف ترچھی نظر سے بھی دیکھیں۔اور یقینا اس وقت آج کے اس پر فتن دور میں بھی، وقت پڑنے پر، آسمانوں سے ہماری مدد کے لئے فرشتوں کو اترتا ہم انشاءاللہ پائیں گے۔ اللہ ہی سے دعا ہے کہ ہم مسلمین ھند و عالم کو خاتم الانبیاء کے عمل کر بتائے دین حنیف ہی پر عمل پیرا رہنے کی توفیق دے اور اس وقت ان اسلام دشمن سنگھی حکمرانوں کی بتدریج ھندو راج کی طرف بڑھتے قدم اور اس سے ہمارے توحیدی نظریات پر پڑنے والی ان دیکھی ضرب سنگھی سے، آمان میں رکھے اور مرتے دم تک دین حنیف پر عمل پیرا رہتے، اپنے خالق و مالک دو جہاں کی رضا حاصل کرنے والوں میں سے ہمیں بنائے۔وما علینا الا البلاغ
.
اب فرشتوں کا لشکرنہیں آئےگا

وَلوَلہ، حوصلہ،عزم و ہمت دِکھا

اب فرشتوں کا لشکر نہیں آئے گا
اے مسلماں! نکل! جاں کی بازی لگا
اب فرشتوں کا لشکر نہیں آئےگا

جاں ہتھیلی پہ لے،گھر سے باہرنکل
سربکف ہوکےمیدان میں اب تو چل
ہاتھ پر ہاتھ رکھ کرنہ جنت میں جاپائیگا!

اب فرشتوں کا لشکر نہیں آئے گا

زورِ خالد دکھا ، عزمِ طارق بتا
ابن قاسم کا جذبہ عمل میں تو لا
اپنی طاقت سے دشمن کی دھجی اُڑا

اب فرشتوں کا لشکر نہیں آئے گا

دیکھ! اَسلاف کا اپنے کردار تو
اُن کی نسبت کا کر بڑھ کے اظہار تو
ہوکے پُر جوش یلغار کر برملا

اب فرشتوں کا لشکر نہیں آئے گا

بدر و خیبر حُنین و اُحد کا مزہ
دَورِ حاضر کےبوجہل کو عقل و فہم چَکھا
بَن کےحمزہ ، عبیدہ ، کی تصویر، آ

اب فرشتوں کا لشکر نہیں آئے گا

کوئی فرعون ہے کوئی نمرود ہے
اب تری خامُشی ساری بےسود ہے
سن ! بَراہیمی اور موسوی رنگ، لا

اب فرشتوں کا لشکر نہیں آئے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں