ڈرگ مافیا اور دہشت گردوں کا گٹھ جوڑ !
افغانستان میں خانہ جنگی کے بھیانک اثرات پاکستان کے سماج اور معیشت کیلئے انتہائی خوفناک ثابت ہورہے ہیں، ایک طرف ملک میں آتشیں اسلحے کی ریل پیل سے جرائم اور مار دھاڑ کے واقعات بہت بڑھتے جارہے ہیںتو دوسری جانب منشیات کی آسان دستیابی کینسر کی طرح پاکستان میں پھیلتی چلی جارہی ہے،اس کی گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں نشاندہی کی ہے کہ یہاں ہزاروں ایکڑ پوست نہ صرف کاشت ہو رہی ہے ، بلکہ منشیات کی سمگلنگ کے دھندے کی پشت پناہی بھی کی جارہی ہے اور یہ پشت پناہی کر نیوالیکوئی دوسرے نہیں ، اپنے ہی سیاسی اور طاقتور لوگ ہیں؟
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ عوام کے نمائندے ہی عوام کومنشیات زدہ بنارہے ہیں اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے،اس خطر ے کا پاکستان کی نوجوان نسل خاص طور پرہدف ہے، تعلیمی اداروں میں منشیات کی لت میں تیزی سے اضافہ سنگین صورت اختیار کر تاجارہاہے،ملکی آبادی میں نوجوان ہی سب سے بڑا طبقہ ہیںور یہ ہی قوم کی امید‘ مستقبل اور مضبوط ترقی یافتہ پاکستان کی ضمانت ہیں،اس منشیات سے نہ صرف نوجوانوں کی صحت برباد ہورہی ہے، بلکہ اس سے طویل مدتی سطح پر ملکی ترقی کے امکانات بھی متاثر ہورہے ہیں؛
اس لیے ضروری ہے کہ منشیات کی پیداوار کی بیخ کنی کیلئے بلا تاخیر نہ صرف سخت اقدامات کیے جائیں، بلکہ منشیات سمگلر اور منشیات فروشوں کے خلاف بھی سخت کاروائی کی جائے اور انہیں نشان عبرت بنا جائے ، لیکن یہ کون کرے گا ، یہ ہی سب سے بڑا سوال ہے اور اس کا تسلی بخش جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
اس سوال کاجواب کسی کے پاس ہے یا کوئی نہیں دینا چاہتا ہے ،اس سے قطع نظر بات بہت آگے نکل گئی ہے ،افغانستان سے خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر منشیات اسمگلنگ اور منشیات کی کاشت کے انکشاف نے سب کو ہی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، افغانستان میں موجود ڈرگ مافیا اور خوارج ایک منظم نیٹ ورک کے تحت منشیات کی کاشت، نقل و حمل اور فروخت کے ذریعے خطے میں دہشتگردی کو مالی سہارا فراہم کر رہے ہیں،ایک باوسوخ ذرائع کے مطابق وادی تیراہ اور خیبر کے علاقوں میں تقریباً 12 ہزار ایکڑ زمین پر منشیات کی کاشت کی جارہی ہے اوراس سے سالانہ 18 سے 25 لاکھ روپے فی ایکڑ منافع حاصل کیا جاتا ہے،
اس کمائی کا ایک بڑا حصہ خوارج کو دیا جاتا ہے، جو کہ اسے غیر قانونی دھندے کو تحفظ دینے اور دہشتگردی کی کارروائیوں میں استعمال کرتے ہیں،ذرائع کا کہنا ہے کہ منشیات کے کاروبار میں شامل افراد کو سیاسی سرپرستی بھی حاصل ہے،اس لیے ہی خوارج کے خلاف ایکشن پر اعتراض کیا جاتا ہے اور جرگہ یا مذکرات سے معاملات حل کر نے کا مشوراہ دیا جاتا ہے، جبکہ ان دونوں طر یقوں سے اب تک معالات حل نہیں ہوپارہے ہیں۔
اس بات میں کتنی صداقت ہے ،اس کا اندازہ آئی ایس پی آر کی نشاندہی سے ہو جاتا ہے ،اس کے بعد سیاسی بیا نیہ بنانا کہ پی ٹی آئی کو نشانہ بنانے کیلئے اور خیبر پختون خواہ حکو مت کو مود الزام ٹہرانے کیلئے ایسا کچھ کیا جارہا ہے ، اس میں کوئی صداقت نہیں ہے ، کیو نکہ یہ بات چھپی نہیں رہی ہے کہ منشیات کی تیاری جو پہلے افغانستان میں عام تھی، اب پاکستانی سرحدوں کے اندر بھی ایسا ناجائز دھندا زور پکڑرہاہے ،یہ ایک کھلا راز ہے کہ منشیات کی تیاری اور فروخت کا سلسلہ غیر قانونی اور جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں میں ہوتا ہے ، یہ عناصر سب سے بڑے بینی فشری ہوتے ہیں اور یہ ہی ذریعہ ان عناصر کیلئے نہ صرف آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بنتا ہے ، بلکہ ملک میں دہشت گردی
اور منظم جراکیلئے منشیات ئم کو بڑھاوا بھی دیتا ہے،اس منشیات مافیا کی سر پر ستی سیاسی مافیا کرتا ہے،اس لیے انسدادِ دہشتگردی کے مؤثر اقدامات کی پیداوار‘ سمگلنگ اور فروخت کے سلسلے پر جہاں کاری ضرب لگانا ہو گی، وہیں بلا امتیازسیاسی مافیا کی گردن بھی دبوچنا ہو گی ۔
اگرا ٓج بھی مصلحت سے کام لیا جائے گا اور ایک دوسرے کے مفاد کو دیکھا جائے گا تو معاملات نہ صرف جوں کے توں رہیں گے
، بلکہ مزید کنٹرول سے باہر ہوتے جائیں گے،اس لیے بلاامتیاز ہر ایک شریک کار کے خلاف سخت کاروائی وقت کا نہ صرف اہم تقاضا ہے ،بلکہ دہشت گرد عناصر کی مالی امداد کے ذرائع کو مسدود کرنے اور ملک میں منشیات کی لعنت ختم کرنے کاایک بہتر ذریعہ ہو گا، یہ سب کچھ کر نا، اکیلے سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری نہیں‘ بلکہ اس کار خیر میںسیاسی قوتوں اور سماجی حلقوں کو بھی شریک ہونا ہوگا ،سیکورٹی فورسز کے ساتھ جب تک سارے مل کر منشیات سمگلروں اور خوارج کا سد باب نہیں کر یں گے ، اس ناسور سے جان چھڑا پائیں گے نہ ہی خطے میں قیام امن لاپائیں گے۔