معدنی وسائل کامعیشت کو سہارا !
پاکستان معدنی دولت سے مالہ مال ہے ،اس ملک میں کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر ہیں، یہ معدنی وسائل کے استعمال سے نہ صرف آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ سکتے ہیں، بلکہ ترقی و خوش حالی کی راہ پرگامزن بھی ہو سکتے ہیں ، اس کیلئے بیرونی سرمایہ کار کو متوجہ کر نا ہو گااور انہیں بتانا ہو گا کہ یہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے فائدے مندہے، وہ پاکستان سے معدنیات نکالیں اور خام مال حاصل کریں
،اس پر وزیر اعظم شہباز شر یف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دنیا کا عظیم ملک بنائیں گے، اور دنیائے ممالک سے طے پانے والی مفاہمتی یاد داشتوں کو معاہدوں میں تبدیل کریں گے۔اس وقت پاکستان کا معدنی شعبہ بڑھتی ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کررہا ہے اور عالمی کمپنیاں ملک کے غیر استعمال شدہ معدنی ذخائر میں دلچسپی لے رہی ہیں، کیونکہ پاکستان قدرتی وسائل کے ذخائر سے نہ صرف خود کفیل ہے ،
بلکہ اقتصادی اور صنعتی ترقی کے لیے بے پناہ صلاحیت بھی رکھتا ہے، پاکستان کے قابل ذکر معدنی ذخائر میں دنیا کے دوسرے بڑے نمک کے ذخائر، پانچویں بڑے تانبا اور سونے کے ذخائر اور نمایاں کوئلے کے ذخائر شامل ہیں، مزید برآں جپسم، اور قیمتی پتھروں جیسے یاقوت، پکھراج، اور زمرد کے وافر ذخائر موجود ہیں، جو برآمدات کے لحاظ سے نمایاں صلاحیت رکھتے ہیں۔اس حقیقت کوبرطانوی جریدہ اکانومسٹ کی تازہ رپورٹ نے ایک بار پھر ُاجاگر کیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین صرف جغرافیائی لحاظ سے نہیں ،بلکہ قدرتی وسائل کے اعتبار سے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔
،اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس تقریباً 150 ارب ڈالر مالیت کے غیر دریافت شدہ معدنی ذخائر موجود ہیں،اس میںبلوچستان کا ریکو ڈیک منصوبہ سب سے نمایاں ہے، جب کہ شمالی علاقوں میں موجود لیتھیم، تانبے اور دیگر کرٹیکل منرلز کے ذخائر جدید ٹیکنالوجی، برقی گاڑیوں اور توانائی کے نئے نظاموں کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، یہ ذخائر دراصل پاکستان کے لیے ایک غیر معمولی موقع ہیں کہ وہ جنوبی ایشیا میں ’’کرٹیکل منرلز ہب‘‘ کے طور پر ابھرے، مگر افسوس کہ بدعنوانی، انتظامی کمزوری، سیاسی عدم استحکام اور سیکورٹی خدشات اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ماضی میں ایسے کئی مواقع ضائع کیے گئے کہ قومی وسائل کو امانت سمجھنے کے بجائے ذاتی مفادات کا ذریعہ بنایا گیاہے، اگر اب بھی ایسی ہی روش جاری رکھی گئی تو ریکو ڈیک جیسے منصوبے بھی محض عالمی سرمایہ کاروں کے منافع تک ہی محدود رہ جائیں گے اور عوام کے حصے میں صرف وعدے اور قرضوں کا بوجھ ہی آئے گا،اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ایک جامع اور شفاف معدنی پالیسی تشکیل دے،
اس میں صوبوں کا کردار واضح ہو، غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کی تفصیلات عوامی کی جائیں، اور مقامی ماہرین و افرادی قوت کو ترجیح دی جائے،اگر ان معدنی ذخائر سے حاصل ہونے والی آمدنی کو دیانتداری سے قومی ترقی، تعلیم، صحت اور توانائی کے منصوبوں میں لگایا جائے تو یہ شعبہ واقعی پاکستان کی معیشت کا ’’گیم چینجر‘‘ ثابت ہو سکتا ہے۔
ہر دور حکو مت میں ایسے ہی وعدے اور دعوئے کیے جاتے رہے ہیں ، جیسا کہ آجکل کیے جارہے ہیں،لیکن وہ وعدے اور دعوئے ہی کیا ،جوکہ پورے ہو جائیں ،اس رویئے میں تبدیلی ہی وقت کی اہم ضرورت ہے ،ہمیں قدرت نے بے بہا خزانہ توعطا کر دیا ہے، لیکن یہ قوم کے حکمرانوں اور اداروں پر ہے کہ وہ اسے امانت سمجھ کر قوم کی تقدیر بدلنے کا ذریعہ بناتے ہیںیا ماضی کی طرح اسے بھی سیاسی بداعتمادی اور بدانتظامی کی نذر کر دیتے ہیں،
اگر اس باراپنی کوہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے یقینی بنانا ہے کہ معدنی دولت ترقی کے لیے ایک نعمت کے طور پر کام کرے تو اسے اپنے ادارہ جاتی اور قانونی فریم ورک کو مضبوط بنانا ہوگا، تاکہ وسائل کی دولت کے انتظام کے لیے جامع حفاظتی اقدامات کیے جاسکیں، ملک کو مستقبل کے معدنی محصولات کے خلاف مستقل طور پر قرض لینے سے بچنے اور اپنے غیر مستحکم قرضوں
کے بوجھ میں کمی کو ترجیح دینے کے لیے طریقہ کار پر عمل درآمد بھی کرنا ہو گا۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک کی جی ڈی پی میں معدنیات کا شعبہ صرف 3.2فیصد کا حصہ ڈالتا ہے، اگراس جانب حکومتوں نے توجہ دی ہوتی تو آج ہم عالمی مالیاتی اداروں کے دست نگر نہ ہوتے، دیر آید درست آید کے مصداق،اس بار ہماری عسکری و سیاسی قیادت نے مل کر بیڑہ اٹھایا ہے کہ ملک میں موجود ان پوشیدہ خزانوں کو معاشی ترقی و خوشحالی کیلئے بروئے کار لایا جائے گا، اگر غیرملکی تعاون سے معدنیات نکالنے کے عمل کو تیز کر لیا جائے
تو کوئی وجہ نہیں کہ چند ماہ میں پاکستان ملکی و غیر ملکی قرضوں سے نجات نہ حاصل کر لے اور غذائی خود کفالت کی منزل نہ پا لے اور جی ڈی پی اور فی کس آمدنی میں واضح اضافوں کے ساتھ ترقی پذیر کی کیٹگری سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہ ہو جائے، باقی سارے عوامل اور مظہر تو موجود ہیں‘ اگر کوئی کمی ہے تو صرف صادق جذبوں کی ہے ،اگر موجودہ حکومت صادق جذبوں کی یقین دہانی کرا دے تو باقی ساری رکاوٹیں خود بخود دور ہوتی جائیں گی۔