اختلاف بھلا کر ایک ہو جائیں !
اس ملک کی سیاست عدم استحکام کا شکار ہے ،اس ملک کی سیاست اور جمہوریت کو قومی مفاہمت درکار ہے،کیونکہ اہل سیاست اور ان سے جڑے فریقین کی باہمی چپقلش نے ملک کو بند گلی میں دکھیل دیا ہے ،اس یاسی بداعتمادی کے کھیل میں کوئی بھی فریق ایک دوسرے کو قبول کرنے کے بجائے اپنی من مانی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتا ہے ،سیاست دان ہوں یا سیاسی جماعتیں ان کی باہمی محاذ آرائی نے ریاستی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ،یہ ہی وجہ ہے کہ ریاستی اداروں کے اپنے داخلی محاذ پر حالات کی سنگینی کا جہاں احساس ہے، وہیں وہ ان حالات کی بہتری یا درستگی میں خود بھی سوچ وبچار کررہے ہیں اوراُن کے زیر بحث ایک ہی نقطہ ہے کہ ہم کیسے موجودہ حالات سے باہر نکل سکتے ہیں؟
اس بحران سے نکلنے کا ایک ہی طر یقہ ہے کہ ساری سیاسی جماعتوں کو ایک ٹیبل پر بٹھایا جائے اوراس وقت تک اُٹھنے نہ دیا جائے کہ جب تک کو مشتر کہ فارمولہ تیار نہ کر لیں ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے سیاسی جماعتیں اپنے داخلی معاملات میں ہی اتنی مشغول ہیں کہ انہیں ملکی معاملات‘ عوامی مسائل اور عالمی پیش رفت سے کوئی سروکار ہی نہیں رہا ہے، اگر بڑی سیاسی جماعتوں کی ہی بات کی جائے تو اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف کی سیاست کا کوئی سر پیر ہی نظر نہیں آ رہا ہے، سردست پارٹی کی دھڑے بندی سے نمٹنا ہی کا بنیادی مسئلہ بنا ہواہے، اپوزیشن جماعت ہی کمزور ہو گی تو لامحالہ اس کی طاقت حکومت کے پلڑے میں چلی جاتی ہے اور یکطرفہ فیصلہ سازی کی راہ آسان ہو جاتی ہے ۔
اس وقت اپوزیشن کے ساتھ حکومت بھی اپنے ہی داخلی بحران میں اُلجھی ہوئی نظر آتی ہے ،حکومتی بینچوں کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی الزام تراشی کی سیاست میں مگن ہیں،دونوں ہی جماعتوں کے مابین تنائو،اس قدر شدید ہو ا کہ پیپلز پارٹی نے ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا کے اجلاسوں سے واک آئوٹ کیا اور پنجاب حکومت کی بیان بازی تھمنے تک کسی بھی قسم کی مفاہمت سے انکار کر دیا‘ تاہم گزشتہ روز صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات کر کے نہ جانے کونسی بات کی ہے کہ میاں شہباز شریف کا نہ صرف بلاول زرداری کو فون آگیا ، بلکہ دونوں جماعتوں کے درمیان رابطوں کو مزید مؤثر بنانے پر اتفاق بھی ہوگیا ہے۔
یہ امر اطمینان بخش ہے کہ دونوں ہی جماعتوں کی اعلیٰ سیاسی قیادت معاملے کو ہوا دینے کے حق میں نہیں ہیں اور پُراعتماد ہے کہ جلد باہمی معاملات نمٹ جائیں گے ،سیاسی لیڈروں سے ہمیشہ ایسے ہی اعلیٰ اخلاقی معیار کی توقع کی جاتی ہے، لیکن سیاسی تنائو اور گرما گرمی میں بعض ایسی باتیں بھی ہو جاتی ہیں، جو کہ معاملات میں مزید بگاڑ کا سبب بنتی ہیں،اگر کسی کو کسی سے کوئی شکایت ہے تو وسیع تر قومی مفاد کی خاطر اس سے درگزر کیا جانا چاہیے‘ تاکہ توجہ اہم قومی امور پر ہی مرکوز رہے،لیکن یہاں قومی کی بجائے ذاتی مفادات کو تر جیح دیا جاتا ہے اور اپنا ہی سیاسی فائدہ دکھا جاتا ہے ،
عوام کو ور غلایا اور بہلایا جاتا ہے اور ٹوپی ڈرامہ دکھاجاتا ہے ، جیسا کہ اس بار دکھایا گیا ہے ، یہ دونوں ہی اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں اور اس میں ہی دونوں کی بقا ہے ، اس لیے ساری گرما گر می محض دکھا وئے کے ساتھ اپنے مفادات کاحصول ہے ، جو کہ ایک دوسرے کو دینے پر ساری ناراضگی ایک دم سے ختم ہوجاتی ہے اور اس وقت تک قائم رہتی ہے ، جب تک لانے والے اور اکھٹا کر نے والے چاہتے رہیں گے۔
اہل سیاست کب تک اپنے اختیارات خود ہی گواتے رہیں گے اور دوسروں کے سہارے چلتے رہیں گے ، اہل ریاست کبھی نہیں چاہیں گے کہ اہل سیاست ان کی دست رست سے باہر نکلیں ، لیکن اہل سیاست کو اپنے اختیارات کی واپسی کو ممکن بناہی ہو گا اور اپنے اختلافات کو بھو لانا ہو گا ،اس کیلئے ایک میز پرا ٓنا ہو گا اور سیاسی کشیدگی کو کم کرنے ، آگے بڑھنے یا مفاہمت کی سیاست کو تقویت دینے کا رویہ اپنا نا ہو گا،لیکن اس پر سوال ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگا؟ اس لیے ایک ہی بات سمجھنا ہوگی کہ ہمیں مسئلہ کے حل کی طرف جانا ہے ، لیکن اس میں جو طبقات لوگوں کی ذہن سازی کرتے ہیں، وہ خود ہی تقسیم کو بڑھان ئے جا رہے ہیں۔
اس لیے سارے ہی فریقین حالات کی نزاکت کو سمجھیں،اس مسئلہ کے حل میں سب ہی فریقین کو ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنا ہوگا اور مل جل کر ایک ایسا حل تلاش کرنا ہو گا کہ جو سب کے لیے قابل قبول ہوجائے ، لیکن اس کے برعکس ہورہا ہے ، عوام کی آواز کو دبایا جارہا ہے ، عوام کی ہی منشا کے بر خلاف ہی کیا جارہا ہے ، کیا عوام اہل سیاست اور راہل ریاست سے امید رکھ سکتے ہیں کہ کوئی ایک متفقہ لائحہ عمل اپنائیں گے اور قوم کو بحرانوں کی زد سے سے بچائیں گے، لیکن اس کیلئے اپنے اختلافات بھلا کر قومی مفاد میں ایک ہونا ہو گا ، جو کہ مشکل ضرور ، مگر ناممکن نہیں ہے۔