اردو میڈیا ہاؤسز قیام کے ببانگ دہل اعلان کرنے والے، ہم مسلمان چھوٹے موٹے اردو روزنامے چلانے کس قدر پریشان ہیں؟
۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707
مسلم معاشرے سے ناپید ہوتی اردو زبان کو زندہ و تابندہ رکھنے کی ذمہ داری کیا صرف نیم پاگل سمجھے جانے اردو روزنامہ ناشران و مالکان ہی کی ہے؟ یا انہیں جلا بخشنے کی ہماری اپنی ذمہ داری بھی ہے؟
اس سائینسی ترقی پزیر جدت پسند دنیا میں، نت نئے ایجادات اشیاء، جہاں انسانیت کو مختلف آسانیاں پیدا کئے دے رہی ہیں،تو وہیں، پہلے سے انسانیت کی خدمات میں مصروف عمل، کئی ایک اشیاء استعمال کو، غیر مقبول یا غیر مستعمل بنائے، اسے ناکارہ بناتے ہوئے معاشرے میں سے محلول و غائب بھی کررہی ہیں۔ اپنے زمانے کے مقبول و سرتاج ٹیپ ریکارڈر، ریڈیو، واک مین اور ویڈیو پلائر تو فی زمانہ ناپید ہوچکے ہیں ہی، ابھی لگتا ہے ایک حد تک آج بھی معاشرے میں مقبول ٹارچ بیٹری، الارم، رسٹ واچز بھی کچھ دنوں بعد غیر مقبول و انسانی معاشرے سے غائب یا ناپید ہوتے ہم پاسکتے ہیں
یہی کچھ حال فی زمانہ نوجوان نسل میں معروف ہوتا، دیوناگری اسٹائل ہی اپنی آراء پیش کرتا سائبر میڈیا چلن، عالمی سطح بھارت کی شان سمجھے جانے والے مختلف لسانی پہنچان زبانوں کو وقت سے پہلے ہی بےموت مرنے یا معاشرے سے غائب کئے جانے کے اشارے دے دیتا ہے۔ اسی بے موت مارے جانے والی زبانوں میں سر فہرست ہم مسلمانان ھند سے منسوب کی جانے اردو زبان بھی ہے۔ گو یہ اردو زبان انگریز راج مختلف زبان بولنے والی افواج، مختلف اقدار لوگوں کی مشترکہ بولی جانے والی نوزائیدہ زبان اردو تھی لیکن بعد آزادی ھند دشمن ھند، پڑوسی ملک پاکستان کے اردو زبان کو حکومتی سطح اپنانے کی وجہ سے، بھارتیہ سنگھی ذہنیت لوگوں کو، زبان اردو مسلمانوں کی بتا اور جتا،اس سے دوری بنائے رکھنے،
انہیں آمادہ کیا تھا۔الغرض فی زمانہ ہم اعلی تعلیم یافتہ معاشرے میں، انگرئزی میڈیم حصول تعلیم ہوڑ نے، ہم مسلمانوں کو، اردو زبان لکھنے پڑھنے سے نابلد، اردو کو فخریہ ہی صحیح، اپنی مادری زبان کہتے کہلوانے کی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ ہاسپیٹل کے آئی سی یو وارڈ میں، آکسیجن نالیوں و مختلف تاروں سے جکڑے مریض، ویسے تو زندہ و تابندہ ہوتے ہیں لیکن انہیں دوبارہ زندگی کے کچھ لمحات جینے مجبور کروائے جاتی کوششوں کے بیج، اس حقیقت سے انکار کی گنجائش کم ہی باقی رہتی ہے کہ وہ مریض رشتہ داروں کی طرف سے کروڑہا کروڑ صرفہ باوجود، تل تل مرتے، دم توڑتے ہی، پائے جانے والوں میں سے زیادہ ہوتے ہیں۔
یہی کچھ اب زبان اردو کے ساتھ ھند میں ہورہا ہے۔ چند اعلی تعلیم یافتگان، دوسرے ذرائع آمدنی اپنی گاڑھی کمائی کے، ایک بڑے حصے کو، یا کچھ اپنے میں موجود تعلیمی صلاحیتوں سے حصول دنیا میں، مقام ممتازئیت رکھنے کےباوجود، ہندوستانی معاشرے میں، اردو روزنامے، رسالے و جرائد نکلوائے، اردو زبان کو زندہ و تابندہ رکھنے کی جستجو میں مصروف عمل پائے جاتے ہیں،وہ کس قدر اپنے حصول متعین مقصد کامیاب ہیں کتنے ناکام، کوئی انکے قریب گئے دیکھے، مشاہدہ کرے تو پتہ چلتا ہے؟ کیا ایسے پس منظر میں، اپنی ذاتی کمائی حصہ میں سے، یا کمآئی صلاحیت حصہ وقت کثیر کو قربان کئے، معاشرے میں، اردو ادب کو زندہ و تابندہ رکھنے کی سعی پیہم میں، ایک حد تک سرگرداں، ان دیوانان اردو ادب کو، انکی مالی اعانت کئے، انکے اردو ادب کو جلا بخشنے والے خواب کو، وقت سے پہلے دم توڑنے سے بچاتے ہوئے، انکا ساتھ دینے کی ہماری ذمہ داری کیا نہیں بنتی ہے؟
فی زمانہ، میدان معشیت کے تازہ دم گھڑ سوار جو، صالح معاشرے میں، لہو لعب سمجھے جانے والے اور نوجوان نسل کو، اپنی تعلیمی سرگرمیوں سے دور و مانع رکھنے والے، کھیل کود، کثیر البجٹ، کبڈی کرکٹ ٹارنامنٹ انعقاد پر، اپنی گاڑھی کمائی لگائے، اپنے دلی تسکین و معاشرے میں نیک نامی کے متلاشی پائے جاتے ہیں ، کیا انکی اگلی پیڑھیوں تک اردو ادب بقاء کے لئے، ایسے اردو ادب جلا بخشنے والے اردو اخبار نویسوں کی مالی اعانت، انکی اپنی ذمہ داری نہیں ہونی چاہئیے؟ اپنی بعد الموت اخروی زندگی تابناکی کے لئے، تونگر تاجران زرداران و شرفاء کی طرف سے، مساجد و مدارس کی تعمیر پر من و سلوی کہ اتنی بارش ہوتے ہم پاتے ہیں کہ شہری اعلی اقدار تعمیر تو چھوڑئے، چھوٹے گاؤں محلوں میں، فی زمانہ تعمیر ہورہے مدارس و مساجد کی عالیشان تعمیرات اور ان عمارتوں کے اونچے تعمیر ابواب، شاہی مغلیہ محلات کی یاد تازہ دم کئے کروائے، حلال و مشتبہ کمائی بنا تفاوت دینی تعمیرات برستی برسات من وسلوی کو درشانے کافی لگتے ہیں۔
اہل علم و ارباب عقل وفہم وادراک کے ساتھ، ارباب تجار شرفاء زرداران معاشرہ کی مستقل اعانت کے ساتھ، ندی کے دو کناروں کے سماں متوازی لیجاتے ہوئے، صالح معاشرے کے قیام میں اپنی کما حقہ ذمہ داری نبھائیں گے۔انشاءاللہ وماالتوفیق الا باللہ