37

سانحہ سوات کا ذمہ دار کون !

سانحہ سوات کا ذمہ دار کون !

خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں آج کل موسلادھار بارشیں ہو رہی ہیں، اس کے باعث مختلف اطلاعات کے مطابق دریائے سوات میں سات مقامات پر ڈوبنے کے واقعات پیش آئے ہیں،اس میںسوات بائی پاس پر بچوں، خواتین اور مردوں سمیت 19 افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے،ان میں ڈسکہ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 11 افراد بھی شامل ہیں کہ جن میں سے صرف تین کو بچایا جاسکا، یہ خاندان دریا کی بپھری موجوں میں کافی دیرتک گھرا رہا اور مدد کا انتظار کرتا رہا،لیکن سرکاری اداروں کو اطلاعات پہنچائی جانے کے باوجود بروقت امداد کیلئے کوئی نہ پہنچ سکا، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے غفلت برتنے پردواسسٹنٹ کمشنرز سمیت چارافسران کو معطل کردیا، لیکن خود اپنی کوتاہی مانی نہ ہی استعفیٰ دیا ،

سارے ہی صدر سے لے کر وزیر اعظم اور گورنر سے لے کر وزیراعلی تک افسوس کاہی اظہار کررہے ہیں ، لیکن عوام کو تحفظ فراہم کر پارہے ہیں ہی اپنی سیٹ چھوڑرہے ہیں ، عوام کو ہی مہنگائی کی چکی میں پیسے جارہے ہیں ، عوام کو ہی دریا برد کیے جارہے ہیں۔اس ملک میں عوام کا کوئی پر سان حال ہے نہ ہی عوام کو اپنی تر جیحات میں شامل کررہا ہے ، عوام کو ہی بار بار آزمایا جارہا ہے ،عوام پر ہی سارا بوجھ ڈالا جارہا ہے ، اس کے بعد کہا جارہا ہے کہ اس کے خلاف آواز بھی نہ اُٹھائیں، اگر کوئی آواز اُٹھائے گا تو دبادیا جائے گا ،

دیوار سے لگادیا جائے گا اور اگر بچ گیا تو کہیں دریا کے پانی میں بے یارومدد گار ڈبودیا جائے گا ، جیساکہ سوات کے طوفانی ریلوں میں ڈبویا جارہا ہے اور اس پر شر مندہ ہونے اور اپنی نااہلی پر استعفیٰ دینے کے بجائے چند افسران کو قربانی کا بکرا بنایاجارہا ہے ،انہیں اب معطل کیا جارہا ہے، اس کے کچھ عرصہ بعد بحال کر دیا جائے گا،جیسا کہ اس سے قبل کیا جاتا رہا ہے۔ساوتھ کوریا میں ایک کشتی ڈوبنے پر وزیر اعظم نے استعفٰی دیے دیا تھا ، یہاں پر اظہار افسوس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے،

یہ صرف ایک حادثہ نہیں ،بلکہ متعلقہ اداروںکے ساتھ خاص طور پر ریسکیو سروسزکی انتظامی کوتاہیوں کامنہ بولتا ثبوت ہے، اس سانحے میں زندہ بچ جانے والے کے مطابق ریسکیو حکام اول تو تاخیر سے پہنچے اور موقع پر پہنچ کر بھی سیلابی ریلے میں پھنسے افراد کی کوئی مدد نہ کر سکے‘ اس کی مین وجہ وسائل کی کمی بتائی گئی ، اگر این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے بارشوں اور سیلاب کا پیشگی الرٹ جاری کر چکے تھے

تو ریسکیو‘ ضلعی انتظامیہ اور دیگر متعلقہ اداروں نے پیشگی انتظامات مکمل کیوں نہیں کیے تھے؟ سیلاب کی پیشگوئی کے باوجود دریا کے کنارے موجود سیاحتی مقامات پر ایمرجنسی نفری اور آلات کی موجودگی کیوں یقینی نہیں بنائی گئی تھی؟ہر دور حکو مت میں سیاحت کو فروغ دینے کی باتیں بہت کی جاتی رہی ہیں ،مگر ہروراقتدار میں سیاحت کے فروغ کے بجائے سانحات کو ہی فروغ دیاجاتا رہا ہے،سوات خیبرپختونخوا کا ایک مشہور سیاحتی مقام ہے‘ اگر وہاں بھی مکمل وسائل سے لیس ریسکیو ٹیم موجود نہیں تو باقی علاقوں کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ،احکام بلاء کو چاہیے کہ ہر سانحہ کے بعد زبانی کلامی باتیں کریں نہ اظہار افسوس کر یں ،عملی اقدامات کریں، ریسکیو نظام نہ صرف ازسرِ نو جائزہ لیں،

بلکہ ایسے تمام حساس مقامات پر مستقل بنیادوں پر تربیت یافتہ عملہ‘ جدیدآلات‘ ریسکیو کشتیاں‘ وارننگ سسٹمز اور فوری ردِعمل کیلئے وسائل مہیا کیے جائیں، تاکہ ہنگامی صورتحال میں بروقت کارروائی کر کے جانیں بچائی جا سکیں، اس طرح ہی پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے جیسے اداروں کو صوبائی حکومتوں اور ریسکیو سروسز کے ساتھ موثر ہم آہنگی اور رابطہ کاری کا ڈھانچہ مرتب کرنا چاہیے،تا کہ ایسے سانحات سے بچا جاسکے ، لیکن ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔
یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے

کہ پاکستان میں حکومتوں نے کبھی بنیادی انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر توجہ دی ہے نہ ہی حکام اعلی کے ساتھ اداروں کے اہلکاروں اور افسروں کی جوابدہی کا کوئی میکنزم بنایا ہے ،اس سانحہ سوات کی وڈیو کلپس دیکھ کر احساس زیادہ گہرا ہو جاتا ہے کہ اس بدقسمت خاندان کو بآسانی بچایا جاسکتا تھا،اگر وہاں تربیت یافتہ عملہ ہوتا اور ان کے پاس ریسکیو کا سامان اور آلات ہوتے تو ٹیلے پر موجود لوگوں کو بچانا کوئی مشکل کام نہیں تھا،

لیکن ایسا کچھ ہو پایا ہے نہ ہی آئندہ کچھ ہوتادکھائی دیتا ہے ، کیو نکہ اس ملک میں ایک کے بعد ایک سانحات اتنے بڑھتے جارہے ہیں کہ اس کا حکومت کوئی زیادہ اثر لیتی ہے نہ ہی عوام زیادہ دیرتک یاد رکھتے ہیں ، بلکہ کسی نئے سا نحہ تک بھول ہی جاتے ہیں، کیو نکہ یہاں کوئی پو چھنے والا ہے نہ ہی بتا نے والا ہے کہ ا س سانحہ کا اصل ذمہ دار کون ہے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں