نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 177

اپوزیشن کے ارمانوں پر اوس

اپوزیشن کے ارمانوں پر اوس

تحریر :شاہد ندیم احمد
سینیٹ انتخابات سیاسی جوڑ توڑ کے ساتھ ہو رہے ہیں، انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں ، ان نتائج کے اثرات اپوزیشن اورحکومت پربرابر ہی پڑیں گے۔ اس سینیٹ انتخابات میں سب سے اہم نشست اسلام آباد کی ہے، جس پر حکومتی امیدوار حفیظ شیخ، اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے مد مقابل ہیں۔ اس نشست کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس انتخاب کے لئے ووٹ ارکان قومی اسمبلی دیں گے، اگر یوسف رضا گیلانی نشست جیت جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ اپوزیشن کے تمام اراکین قومی اسمبلی کے علاوہ تحریک انصاف اور بعض اتحادی جماعتوں کے اراکین قومی اسمبلی نے بھی اپوزیشن امیدوار کوووٹ دیے ہیں،اس سے اخلاقی طور پر یہ تاثر لیا جا سکتا ہے

کہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے لئے مطلوبہ ووٹوں میں کمی آ گئی ہے، ایسی صورت میں وزیر اعظم کو خود پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینا ہو گا،بصورت دیگر اپوزیشن ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر سکتی ہے،تاہم اگر حکومت ایوان بالا میں اکثریت لینے میں کا میاب ہو جاتی ہے تو پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک اپنی موت آپ مر جائے گی۔اس میں شک نہیں کہ سینیٹ انتخابات ارکان پارلیمنٹ کے ہیں ،تاہم اس انتخاب میں سیاسی قیادت کی جانب سے عوام میں دلچسپی نہ قابل فہم ہے،ایسالگتا ہے

کہ ارکان پارلیمنٹ کی بجائے عوام ووٹ ڈال رہے ہیں ،سیاست میں عوام کی حددرجہ شمولیت شعور کی بیداری کی علامت ہے ،تاہم حکومت اور اپوزیشن عوامی مفاد کی بجائے اپنے مقصد کے حصول کیلئے سر دھڑ کی بازی لگارہے ہیں،ایک طرف پنجاب میں سینیٹ الیکشن میں امیدواروں کی بلا مقابلہ کامیابی حکومت اور اپوزیشن کے ہاتھ ملانے کا نتیجہ ہے،جبکہ دوسری جانب وفاق سمیت دیگر صوبوں میںسیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے، ارکان ایوان اور عوام کی نظریں زیادہ تر یوسف رضا گیلانی اور حفیظ شیخ کی سیٹ پر لگی ہیں، اگر یوسف رضا گیلانی جیت جاتے ہیں تو پی ڈی ایم اپنے طے شدہ منصوبے کے تحت تحریک عدم اعتماد پیش کرے گی، علاوہ ازیں چیئرمین سینیٹ کے لئے بھی اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار ہوں گے اور اگر حفیظ شیخ جیت جاتے ہیں تو اپوزیشن اپنے پلان کے مطابق لانگ مارچ کرے گی اور اسلام آباد میں دھرنا دے گی۔
اس تنا ظر میںمریم نواز کا کہنا ہے کہ اگر پی ڈی ایم کا مشترکہ امید وار جیت گئے تو شائد لانگ مارچ اور دھرنے کی بھی ضرورت نہ رہے ،پی ڈی ایم سیاسی تحریک کی کا میابی سینیٹ انتخاب میں یوسف رضا گیلانی کی کا میابی سے مشروط ہو گئی ہے،سینیٹ الیکشن میں قومی اسمبلی کے 342 اراکین قومی اسمبلی اپنا حق رائے دہی استعمال کررہے ہیں، جبکہ حکومت کے پاس اتحادیوں سمیت 180 ووٹ ہیں.اور اپوزیشن اتحاد کے پاس 160 ووٹ ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کو حفیظ شیخ سے جیتنے کیلئے گیارہ ووٹو ں کی برتری درکار ہے۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ جی ڈی اے کے تین ووٹ، دو آزاد ارکان، جمہوری وطن پارٹی سمیت حکومت کے بارہ ارکان کے ووٹ حا صل کرلے ،تاکہ یوسف رضا گیلانی کی جیت ممکن ہو سکے

اور وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی راہ ہموار ہو سکے،حکومتی امیدوار حفیظ شیخ ، اسد عمر، حماد اظہر کی نا کامی کے بعد عالمی مالیاتی اداروں سے پاکستان کیلئے قرضے منظور کراچکے ہیں اور یہ قرضے ہی ملکی معیشت اور پی ٹی آئی کی بقا کے ضامن ہیں، عمران خان نے ایسے مضبوط امیدوار کواپنی پالیسیوں کے تسلسل اور معیشت کے استحکام کیلئے ایک چیلنج کی صورت میں کامیاب کروانا ہے ، یہ امیدوار جس طاقتور حمایت کے ساتھ مشیر خزانہ بنایا گیا تھا،اگر اس پس پردہ حمایت
کو مد نظر رکھا جائے

تو اپوزیشن کی چال چائے کی پیالی میں طوفان کے سوا کچھ نہیں ہے۔اپوزیشن کی چائے کی پیالی کا طوفان سینٹ انتخاب کے نتائج کے ساتھ ہی بیٹھ جائے گا،اس کے بعد پی ڈی ایم کی اگلی سیاست شروع ہو گی،اگر حکومت سینٹ میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے ،جس کے امکانات بہت زیادہ ہیںتو اپوزیشن اتحاد کیلئے اپنا وجود بر قرار رکھنا اور حکومت مخالف تحریک جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا،تاہم پی ڈی ایم اپنا وجود بر قرا رکھنے کے ساتھ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کیلئے ہاتھ پائو ں ضرور مارتی رہے گی،ظاہر ہے کہ اپوزیشن اتحاد کی کوشش ہو گی

کہ حکومت کے خلاف دھاندلی اور جوڑ توڑ کا شور مچاکراپنی تحریک میں دوبارہ جان ڈالی جائے، جبکہ حکومت کو ایسی حکمتِ عملی بنانی ہے کہ ایک تو اپنی مدت پوری کرے دوسرا آئندہ الیکشن کے لئے اپنے مہرے اور اپنی گیم تیار کرے،حکومت کو سینٹ میں جیت کے بعد بھی سیاسی دھچکے ضرورلگتے رہیںگے، مگربازی پلٹے گی نہ قلابازیاںلگیں گی،البتہ اپوزیشن کے ارمانوں پر اوس ضرور پڑے گی،کیو نکہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے ساتھ مزید مضبوط اور اپوزیشن تحریک کمزورہوتی نظر آرہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں