61

صحت کی سہو لیات تک رسائی کا خواب !

صحت کی سہو لیات تک رسائی کا خواب !

ملک میںصحت ہر شہری کا بنیادی حق ہے، لیکن یہ حق عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور ہے، شہریوں کو صحت کی سہولتوں تک رسائی میں جو رکاوٹیں ہیں، وہ نہ صرف سماجی، بلکہ اقتصادی اور سیاسی عوامل کا نتیجہ ہیں، پاکستان میں صحت کا نظام ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے، جہاں ایک طرف سرکاری اسپتالوں کی حالت زار ہے، تو دوسری طرف نجی اسپتالوں میں علاج معالجہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیاور رہی سہی کسر ادویات کی بڑھتی قیمتوں نے پوری کردی ہے ،اگر ایک متوسط طبقے کے فرد کی بات کی جائے تو اسے صحت کی بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،سب سے پہلے سرکاری اسپتالوں کا حال دیکھ لیں، جہاں مریضوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہیتودوسری جانب ادویات بھی عام دمی کی دسترس سے دور ہوتی جارہی ہیں۔
اتحادی حکومت عوام سے مہنگائی کم کر نے اور اعلاج معالج کی سہو لیات دینے کے دعوئوں کے ساتھ آئی تھی ، مگرمہنگائی کے باعث ہر روز اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، ایک پین کلر کا جو پتا 20 روپے میں ملتا تھا ، اب بڑھ کر 80روپے تک پہنچ گیا ہے ، جبکہ جان بچانے والی ادوایات اول تو دستیاب نہیں ،اگر دستیاب ہیں تو اس قدر مہنگی ہو گئی ہیں کہ عام آدمی کی دسترس میں ہی نہیں رہی ہیں ،اس پرمیڈیکل اسٹور اونرز والوں کا کہنا ہے

کہ ادویہ ساز کمپنیاں ڈالر کی بڑھتی قیمتوں اور ٹیکسز میں اضافے کا جواز بتا کر قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہیں،جبکہ شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت مہنگائی کو روکنے اور قیمتوں میں استحکام پیدا کرنے کے ساتھ ادویات کی قیمتوں پر سبسڈی دینے کے اقدامات اٹھائے، تاکہ غریب آدمی کم سے کم پیسوں میں اپنا علاج کروا سکے،لیکن حکومت ادوایات کی قیمتوں میں کمی لانے کے بجائے قیمتیںبڑھائے جارہی ہے۔
اگرحکومت ادویات کی قیمتیں مختص کرنے کی ذمہ داری سے عہدبرآ ہونا چاہتی ہے تو اس کا مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ عوام کو میڈیسن کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے، شہریوں کو علاج معالجہ کی مناسب سہولتوں کی فراہمی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے‘ لہٰذا میڈیسن پرائس کی ڈی کنٹرول پالیسی کا ازسر نو جائزہ لے کر عوامی تحفظ کو بھی یقینی بنانا چاہیے،لیکن حکو مت عوام کے بجائے میڈیسن کمپنیوں کے تحفظ کا زیادہ خیال کررہی ہے

،اس لیے ہی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز کے چیئرمین نے انکشاف کیا ہے کہ ڈی ریگولیشن پالیسی کے بعد سے ملک میں عام استعمال کی 100سے زائد ادویات کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 32فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے‘ جبکہ بعض ادویات میں اضافہ 100فیصد تک جا پہنچا ہے۔
اس حکو مت کی جانب سے ڈی ریگولیشن پالیسی کا مقصد بظاہر مسابقت کو فروغ دینا‘ ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری لانا اور برآمدات بڑھانا بتایا گیا تھا‘ لیکن نتائج اسکے برعکس ہی نکل رہے ہیں، دوا ساز کمپنیوں نے قیمتوں میں کمی کے بجائے قیمتیں بے تحاشا بڑھا دیں ہیں‘ اس سے عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو تا چلاجارہا ہے، ملک میں پہلے ہی سرکاری سطح پر صحت کی سہولیات انتہائی محدود ہیں ،اس کے باعث عوام بڑی حد تک نجی شعبے پر انحصار کرتے ہیں،ایسے میں جب ادویات کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافہ ہو گا تو غریب اور متوسط طبقے کیلئے علاج ایک خواب بن کر ہی رہ جاتا ہے

،حکو مت مفت ا علاج اور مفت ادویات دینے کے اعلات کرتی رہتی ہے ، لیکن کتنے لوگوں کو ایسی سہولیات مل رہی ہیں ،اس پر بڑا سولیہ نشان ہے؟
اس صورتحال میںحکومت کو چاہیے کہ وہ ادویات کی قیمتوں میں بے جا اضافے کے تدارک کیلئے فوری اقدامات کرے اورجن کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ کیا‘ ان سے وضاحت طلب کی جائے ، اگر ملی بھگت یا کارٹیلائزیشن کے شواہد ملیں تو معاملہ مسابقتی کمیشن کے سپرد کیا جائے ، اس کے ساتھ حکومت کو ڈی ریگولیشن پالیسی پر بھی ازسرِنو غور کرنا چاہیے،یہ ادویات محض تجارتی شے نہیں، بلکہ انسانی زندگی سے جڑی بنیادی ضرورت ہیں، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ دوا ساز کمپنیوں کے مفاد سے زیادہ عوامی صحت کے تحفظ کو اپنی پالیسیوں کا محور بنائے،لیکن حکو مت چاہتے ہوئے بھی ایسا کچھ کر نہیں پارہی ہے ، کیو نکہ اس کیلئے دواساز حواریوں کا بھی خیال کر نا انتہائی ضروری ہے۔
حکو مت کی مجبوریاں اور مصلحتاپنی جگہ ، مگر ہمیںصحت کے شعبے میں بہتری کے لیے اپنے نظام کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے،حکو مت کو سب سے پہلے تو سرکاری اسپتالوں میں عملے کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیے، تاکہ مریضوں کو بروقت علاج مل سکے،جبکہ دیہی علاقوں میں صحت مراکز کا قیام اور ان میں ضروری سہولتوں کی فراہمی لازمی ہے، تاکہ دیہی عوام بھی معیاری علاج کی سہولت سے مستفید ہوسکیں، اس کے ساتھ ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،

حکومت کو چاہیے کہ وہ صحت انصاف کارڈ جیسے منصوبوں کو مزید بہتر بنائے اور عوام کو اس بارے میں آگاہی فراہم کرے ،تاکہ ہر شہری اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکے ،صحت کی سہولتوں کو عام کرنے کے لیے نجی شعبے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،حکومت اور نجی شعبے کے درمیان شراکت داری کے ذریعے صحت کے نظام میں نہ صرف بہتری لائی جا سکتی ہے ، بلکہ ہر شہری کا صحت کی سہو لیات تک رسائی کا خواب بھی پورا کیا جاسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں