68

معاشی استحکام کے اشارے !

معاشی استحکام کے اشارے !

ملکی معیشت کا مستحکم ہو نا انتہائی ضروری ہے ، حکو مت دعوئیدار ہے کہ ملکی معیشت مستحکم ہورہی ہے ،اس کی گواہی گورنر اسٹیٹ بینک بھی دیے رہے ہیں کہ معاشی استحکام کے نہ صرف اشارے مل رہے ہیں ، بلکہ معیشت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے، اس پر تو یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا،کیو نکہ عام آدمی کو کہیں معیشت مستحکم دکھائی نہیں دیے رہی ہے ،اگر معیشت واقعی مستحکم ہوتی تو عام آدمی کبھی غیر مستحکم نہ ہوتا ، لیکن گورنر اسٹیٹ بنک بضد ہیں کہ مالی سال 2026ء میں ترقی کی شرح 3.25 سے 4.25 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے اور ان کے مطابق ملکی معیشت مستحکم بنیادوں پر ہی کھڑی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو عام عوام بھی ایساہی کچھ چاہتے ہیں کہ اس معاشی استحکام کو برقرار رکھا جائے، زرمبادلہ کے ذخائر مضبوط کیے جائیں اور مہنگائی کو 5 سے 7 فیصد کے ہدف کے دائرے میں ہی رکھا جائے ،لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی بھی چیزچاہے پانی ہی کیوں نہ ہو،اگر مسلسل ایک جگہ کھڑی رہے تو اپنا وجود، رنگ و ڈھنگ اور حسن کھونے لگتی ہے، خواہ بجلی کا کھمبا ہی کیوں نہ ہو، اس کا کام کھڑا رہنا ہے،

مگر وہ بھی وقت کے ساتھ زنگ آلود اور بوسیدہ ہو جاتا ہے، اس لیے معیشت کو بھی کھڑا رکھنے کے بجائے رواں رکھنا زیادہ ضروری ہے،معیشت رواں دواں رہے گی تو ہی معیشت مستحکم بھی رہے گی ،اس معیشت کی مضبوطی یا کمزوری جانچنے کے دو پیمانے ہیں،ایک پیمانہ عام آدمی کے پاس ہے اوردوسرا حکومت کے پاس ہے ،حکومت کی نظرمیں تو ہر شے ہی سبز دکھائی دیتی ہے، لیکن عام آدمی کی عینک سے وہی نظر آتا ہے ،جو کہ زمین پر موجود ہوتا ہے۔اس وقت جو کچھ کہا جارہا ہے ،

وہ زمینی حقائق کے بر عکس کہا جارہا ہے ،گورنر اسٹیٹ بینک براہِ راست حکومت کے وزیر یا مشیر تو نہیں ، مگر ریاست کے ملازم ضرور ہیں، وہ جب بھی حکومتی بیانیہ دہرانے لگتے ہیںتو یوں لگتا ہے کہ جیسے ترازو کا پلڑا صرف امارت کے حق میں جھکا ہوا ہے، امارت کا پلڑا زمین سے اٹھتا ہی نہیں، جبکہ غربت کا پلڑا بھاپ کی طرح ہلکا ہو کر اوپر کو ہی اٹھتا چلا جاتا ہے ،حکومت کے بقول معیشت ٹیک آف پوزیشن میں ہے، عام آدمی کی خواہش بھی ایسی ہی رہی ہے کہ معیشت مضبوط ہو اور آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچے ،لیکن عوام کی خو اہشات پوری نہیں ہورہی ہیں،اس کے باوجودحکمران ایسے بیانات دیتے ہیں تو عوام نہ چاہتے ہوئے بھی سنتے ہیں ،مگر جب مہنگائی عوام کو دھنتی ہے تو وہ چیخ اٹھتے ہیں کہ ان کیلئے معیشت زبوں حال ہے، جبکہ اشرافیہ کے لیے مالا مال، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بڑوں کی تنخواہیں دو لاکھ سے بڑھا کر چھے لاکھ اور اس سے ہت بڑوںکی ڈھائی لاکھ سے اکیس لاکھ کر دی گئی ہیں،کیا یہ معیشت کے مستحکم ہونے کی دلیل ہے

یا صرف خواص کے لیے خوش حالی کی علامت ہے؟اس ملک میں اشرافیہ کا ہی خیال کیا جارہا ہے اور اشرافیہ کو ہی نوازا جارہا ہے ، عام آدمی کوبہلایا جارہا ہے ،ور غلایا جارہا ہے ،اگرعام آدمی کی زندگی کی زبوں حالی کی بات کی جائے تو معیشت کی مضبوطی کے سارے ہی دعوے حقیقت کے برعکس دکھائی دیتے ہیں، عام لوگ نحیف اور کمزور معیشت کے دکھڑے سناتے ہیں، جبکہ ایوانِ اقتدار میں بیٹھے لوگ ترقی و خوش حالی کے ترانے گاتے ہیں،کاش گورنرسٹیٹ بنک کبھی بینک کی بلٹ پروف عمارتوں سے نکل کر سبزی منڈی، پبلک ٹرانسپورٹ یا بجلی کے بل جمع کرنے والی قطار میں کھڑے ہو جائیںاور پھر ان سے پوچھا جائے

کہ معیشت واقعی مستحکم کھڑی ہے یا لڑ کھڑائے جارہی ہے، اس کے بعد شاید ان کے بیان میں بھی وہی افسردگی اُتر آئے، جوکہ آج عام آدمی کی جیب اور چہرے پر لکھی صاف نظر آتی ہے، اس کی جیب خالی اور دووقت کی روٹی پوری کر نے کے لالے پڑے ہیں ، جبکہ حکو مت کے معیشت مستحکم ہونے اور عوام کی زندگی میں تبد یلی لانے کے دعوئے ہی ختم نہیں ہورہے ہیں۔یہ بات کسی حد تک ماننا ہی پڑے گی کہ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آ نے کے بعد سے ان عوامل پر بڑی حد تک قابو پانے کی کوشش ضرور کی ہے

کہ جن کے باعث معاشی عدم استحکام بڑھتا ہی جارہا تھا ،اگرمعیشت پوری طرح سنبھل نہیں پائی ہے تو کم از کم بہتری کی جانب گامزن ضرور ہورہی ہے، لیکن ابھی مزید معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے، تاکہ ملکی معیشت مضبوط بنیادوں پر نہ صرف کھڑی ہو سکے، بلکہ اس کے اس کا استحکام رواں دواں بھی رہے ، اس کی راہ میں ابھی بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں،تاہم یہ ایسی بھی نہیں ہیں کہ جنھیں ہٹایا نہ جا سکے اور ان پر قابو نہ پایا جاسکے ، یہ معاشی استحکام کے اشارے ہی ملک و عوام کی زند گی میں تبدیلی لانے کا باعث بنیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں