110

عذاب اور سیلاب

عذاب اور سیلاب

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

پاکستان میں جب بھی سیلاب آتاہے یوں لگتاہے جیسے عذاب آگیاہو اس مرتبہ تو پانی کے ساتھ ساتھ پتھروںکی بارش نے سینکڑوں افرادکو ہلاک کرڈالا اتنی تباہی ہوئی کہ تفصیلات میں جائیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جہاں بے تحاشہ انسانی جانوں، مال مویشی کا نقصان ہوا وہاں ہزاروں غریب عمر بھر کی پونجی سے محروم ہوگئے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ حکمرانوںکی کوئی پلاننگ ہے نہ حکمت ِ عملی ہرسال بارشیں،سیلاب قحط سالی ایک عذاب بن جاتی ہے ہم وقتی طورپر آہ و فغاں کرتے ہیںپھر بھول جاتے ہیں کہ ماضی میں ہم پرکیا بیت چکاہے اور غریب پھر سے بے یارو مددگار اللہ کے آسرے پر محنت مشقت کرکے منہدم گھروںکو رہنے کے قابل کرتے ہیں کہ پھر بارشیں آجاتیں ہیں یا سیلاب سب کچھ ملیا میٹ کرکے چلے جاتے ہیں عمریں بیت جاتی ہیں لیکن متاثرین کی ایکسرسائز ختم نہیں ہوتی ان کے لئے یہی زندگی اور یہی موت کا سامان۔۔ لیکن اس ساری صورت ِ حال میں حکومت اور حکمران کیا کرتے

پھرتے ہیں کچھ یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا ایک سوال یہ ذہنوںمیں ہمیشہ کلبلاتا رہتاہے کہ کیا قدرتی آفات، معمول سے زیادہ بارشیں اور سیلاب صرف پاکستان میں ہی آتے ہیں یقینا اس کا جواب نفی میں آئے گا چلو مان لیا ہمارے کچھ مسائل میں اضافہ بھارت کی آبی جارحیت کے باعث بھی ہوتاہے لیکن کیا ہم آنکھیں بند کرکے 25کروڑ عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں حکمرانوںکے لئے ایسا سوچنابھی گناہ ہے پھر ہم دنیا کے تجربات سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ہر وقت کا رونا مقدر کیوں بنا لیاہے ہمارے سامنے سیلاب سے بچاؤ کے لئے دنیا کے کامیاب ماڈلز بھی موجود ہیں اس سے استفادہ کیا جاسکتاہے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سیلاب ایک قدرتی عمل ہے اس سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں لیکن ہم بہتر حکمت ِ عملی اورمربوط منصوبہ بندی سے اس سے بچ سکتے ہیں یا زیادہ نقصان سے بچاجاسکتاہے

کیونکہ دنیا کے کئی ممالک نے کامیابی سے قدرتی آفات، معمول سے زیادہ بارشوں اور سیلاب کو تباہی کے بجائے ایک منظم طریقے سے کنٹرول کیا ہے۔ پاکستان بھی اگر سنجیدہ اقدامات کرے تو نقصان کو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ چین ہمارا پڑوسی دوست ملک ہے دنیا کا آبادی اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ایک بہت بڑا ملک ہے اس نے بڑے بڑے ڈیم اور واٹر ریزروائر بناکر اربوں،کھربوں مالیت کا پانی ضائع ہونے سے بچالیا۔ اضافی پانی محفوظ کرکے زرعی زمینوں کو سیراب کرنے اور بجلی پیدا کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے وہاں دریاؤں کے قدرتی راستے بند نہیں کئے جاتے بلکہ مضبوط پشتے بنا کر ان کو محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ اب آئیے ہالینڈ (نیدرلینڈز) کی طرف حیرت سے کہناپڑتاہے

یہ دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جو آدھا ملک سمندر کی سطح سے نیچے ہے لیکن انہوں نے جدید ڈائکس (dikes) اور فلڈ گیٹس بنا کر اپنے شہروں کو انتہائی محفوظ بنارکھا ہے۔ پانی کے راستے کھلے رکھے جاتے ہیں اور شہری منصوبہ بندی میں پانی کے بہاؤ کو اول ترجیح دی جاتی ہے وہاں سمندر یا سیلاب یا پھر بارشیں ہالینڈ کو نقصان پہچانے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ پون صدی پیشتر بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا وہاں آئے روز بارشیں اور سیلاب آنا معمول کی بات ہے بنگلہ دیش میں فلڈ وارننگ سسٹم اور ایمرجنسی پلان کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو بروقت محفوظ مقامات پر منتقل کردیا جاتا ہے۔

چھوٹے چھوٹے اسٹوریج تالاب اور نہری نظام پانی کے دباؤ کو کم کرتے ہیں۔ بھارت بھی ہمارا پڑوسی ملک ہے اس نے پانی کو محفوظ کرنے اور کنٹرول کرنے کے لئے سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈیم، آبی ذخائر،تالابنا بنارکھے ہیں جس پر پاورپلانٹ لگاکر نہ صرف بجلی پیداکی جاتی ہے بلکہ پانی وافر طورپر ذخیرہ بھی کیا جاتاہے پاکستان بھی اس طریقے سے قدرتی آفات، معمول سے زیادہ بارشوں اور سیلاب کو کنٹرول کرسکتاہے ۔دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور امریکہ میں (Mississippi River System) کے لئے باقاعدہ فلڈ زونز مختص ہیں جہاں کسی کو کاشت یا رہائش کی اجازت نہیں ہے اس کی سالانہ بنیاد پر دریاؤں کے کناروں کی مرمت اور مضبوطی کی جاتی ہے لیکن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اشرافیہ ہے جس کے لئے ہرقانون ہر ضابطہ موم کی ناک کے مترادف ہے اس لئے یہاں قانون کی حکمرانی کا کوئی تصور نہیں حالیہ بارشوں اور دریائوں میں سیلاب ک یشدت اس لئے زیادہ محسوس ہوئی

کہ بااثرشخصیات نے دریائوںکی قدرتی گزر گاہوں کو ہائوسنگ سوسائٹیاں بناکر کھربوں روپے کمالئے جس سے مسائل درمسائل نے متاثرین کی عمربھر کی کمائی کو دریا برد کرکے رکھ دیا اس تباہی سے بچنے کے لئے پاکستان کے لئے ممکنہ اقدامات کرنا ناگزیرہے 1. دریاؤں کے قدرتی راستوں کو کھولا جائے اور اس سلسلہ میں ہررکاوٹ دور کرنے کے لئے بے رحمانہ ایکشن لینے سے دریغ نہ کیا جائے۔ 2. دریائوں کے بند پتھروں کے بنائے جائیں اور ان ڈیمز اور اسٹوریج سسٹم کو سالانہ بنیاد پر اپڈیٹ اور مرمت کیا جائے۔ 3. دریا ئوںکے قریب ہرقسم کی کاشت اور رہائشی سکیموں پر سخت پابندی لگائی جائے

کم از کم ان کے ارد گرد ایک ایک کلو میٹرہرقسم کی تجاوزات کا خامہ کیا جائے۔ 4. جدید وارننگ سسٹم، ایمرجنسی پلان اور مقامی سطح پر چھوٹے تالاب یا ڈیم بنائے جائیں۔ 5. پانی کو ضائع کرنے کے بجائے زرعی اور توانائی کے استعمال میں لایا جائے۔ اگر ہم دنیا کے کامیاب ماڈلز کو دیکھ کر سنجیدہ منصوبہ بندی کریں تو جلالپورپیر والا، علی پور اورKPK کے علاوہ سندھ دیگر دریائی علاقوں کے لاکھوں لوگ محفوظ رہ سکتے ہیں۔ بہرحال آبی ماہرین نے کئی بار حکمرانوںپر زوردیاہے کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکرطویل المدتی منصوبے تیار کریں تاکہ کو مون سون کی بارشوں یا سیلاب کے دنوںمیں وطن ِ عزیزکو تباہی سے بچایا جاسکے اس کے لئے ایک ماسٹر پلان کے ذریعے متاثرہ علاقوںمیں تالاب، نہریں اور چھوٹے آبی ذخائر بنائے جائیں اور ان کا رخ ان علاقوںکی طرف موڑدیا جائے

جہاں پانی کی شدید قلت ہے اس طرح تھرپارکر، چولستان، سندھ،بلوچستان کے بنجردیہاتوں اور نورپورتھل کے وسیع علاقوںکو زرخیزبنانے میں مدد ملے گی جو ملکی ترقی کا ایک پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے یہ طرز ِ عمل پاکستان میں پانی کی کمی کا واحد حل ہے کیونکہ آبی ذخائرنہ ہونے کی وجہ سے روزانہ ہزاروں کیوسک پانی ضائع ہورہاہے لیکن حکمرانوںکو احساس تک نہیں کہ پانی ہی زندگی ہے اس کا ضیاع نہ صرف گناہ بلکہ بنجرزمینوںکو ایک نئی زندگی سے ہمکناربھی کرتاہے اس لئے پورے پاکستان، پنجاب ،بلوچستان اور سندھ کے لئے ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں جس سے پانی کی کمی دورکی جاسکے حکمرانوںکو حالات کی سنگینی کاادراک کرناہوگا اسی میں پاکستان کی بقاء ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں