63

مسلم دنیا خاموش نہیں رہے گی !

مسلم دنیا خاموش نہیں رہے گی !

اسرائیل کے ایران ،شام، لیبااور غزہ پر جاری حملوں کے بعد سے جاریحانہ عزائم کم ہو نے کے بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں ، اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں عین اس مقام پر جہاں قطر کی میزبانی میں حماس کے اہم رہنما جنگ بندی کی امریکی تجاویز پر مشاورت کررہے تھے، ایک خطرناک میزائل حملہ واضح ثبوت ہے کہ صہیونی حکمراں امن چاہتے ہی نہیں ہیں،وہ جنگ کے دائرے کو پھیلا کر’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے منصوبے کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں کہ جس کا اعلان انہوں نے اپنی ناجائز ریاست کے قیام کے پہلے دن سے ان الفاظ میں کر رکھا ہے کہ ائے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں تو کیا اس پرمسلم دنیا خاموش تماشائی ہی بنی رہے گی ؟
اگر دیکھا جائے تو اسرائیل کا قطر پرحملہ محض ایک عسکری کارروائی نہیں، بلکہ اپنے منصوبے کا سیاسی اور جغرافیائی اعلان ہے کہ جس کے مضمرات پورے مشرقِ وسطیٰ اور عالمی سیاست پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، اس جارحیت کی پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ، متحدہ عرب امارات، ایران اور اقوام متحدہ نے سخت مذمت کی ہے، لیکن اب بات مذمتی بیانات سے آگے جاچکی ہے ، لیکن اس سے قبل دیکھنا ہو گا کہ اسرائیل اس اقدام سے دراصل کیا چاہتا ہے اور اس کے ذریعے خطے کو کس سمت دھکیل رہا ہے،قطر کی حیثیت برسوں سے ایک ثالث کی رہی ہے، ایک ایسا ملک جو ایک جانب امریکہ جیسی سپر پاور سے قریبی تعلق رکھتا ہے

تو دوسری طرف ایران جیسی مخالف ریاست سے بھی رابطے میں ہے ،اس غیر معمولی پوزیشن کے باعث قطر کو وہ مقام حاصل ہے کہ جہاں متضاد فریقین مذاکرات کی میز پر اکٹھے ہو سکتے ہیں،اس کے باعث ہی غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے جاری بات چیت میں قطر ایک مرکزی کردار ادا کر رہا تھا، ایسے میں اسرائیلی حملہ محض حماس کو نشانہ بنانے کی کوشش نہیں بلکہ قطر کے ثالثی کردار کو سبوتاژ کرنے کی ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔
یہ دراصل اس بات کا اظہار ہے

کہ اسرائیل اب نہ صرف فلسطینی علاقوں، بلکہ آزاد اور خودمختار ریاستوں کو بھی اپنی کارروائیوں کا میدان بنا سکتا ہے، خواہ وہ ریاستیں امریکہ کی قریبی اتحادی ہی کیوں نہ ہوں، اس پر امر یکہ بھی دوغلی پا لیسی اپنا رہا ہے ،اس حملے کے کئی پہلو ہیں کہ جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، ایک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ فلسطینی رہنما کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں ، اس حملے کے ذریعے اسرائیل خوف اور دبائوکی فضا بھی قائم رکھنا چاہتا ہے، جو کہ اس کی پالیسی کا حصہ رہی ہے، دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ ثالثی کے عمل کو ہی غیر مؤثر بنا دینا چاہتا ہے، کیونکہ جنگ بندی یا قیدیوں کے تبادلے کی کوئی بھی پیش رفت فلسطینی عوام کے لیے وقتی اطمینان کا باعث بن سکتی ہے اور اسرائیل ایسے کسی امکان کو پنپنے نہیں دینا چاہتا ہے، اس کارروائی کا ایک تیسرا اور زیادہ تشویشناک رخ یہ ہے کہ اسرائیل خطے کو ایک بڑے مسلح تصادم کی طرف دھکیلنے کی راہ پر گامزن ہے۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ اسرائیل نے ایک ایسے ملک پر حملہ کیا ہے کہ جہاں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ قائم ہے، اس کے باوجود اس کی سرزمین پر بمباری کر کے اسرائیل نے تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور اس پر امر یکہ بھی کچھ نہیں کر سکتا ہے ،بلکہ اس کی اشیر باد شامل رہے گی ، اس صورتِ حال میں نہ صرف مشرقِ وسطیٰ، بلکہ عالمی طاقتیں بھی براہِ راست ایک ایسے تنازع میں الجھ سکتی ہیں، جو کہ رفتہ رفتہ ایک عالمی جنگ کی صورت اختیار کر لے ، اسرائیل کی لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ جھڑپیں، شام میں فضائی کارروائیاں، ایران کے ساتھ کشیدگی اور اب قطر میں حملہ،یہ سب اشارہ دے رہے ہیں کہ اسرائیل ایک وسیع تر آتش فشاں کو بھڑکانے کے قریب پہنچ چکا ہے، اس پس منظر میں سوال اُٹھتاہے کہ اس پرمسلم دنیا کا رویہ کیا ہونا چاہیے اور وہ کیا دکھا رہا ہے ؟
یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے جواب میں مسلم ممالک کی طرف سے زیادہ تر بیانات اور مذمتی قراردادیں ہی سا منے آتی رہی ہیں اور اس بار بھی ویسا ہی کچھ ہورہا ہے ،سارے ہی مسلم ممالک کے حکمران زبانی کلامی مذمتی بیانات ہی دیے رہے ہیں، یہ مسلم ممالک کی کمزوریاںہی اسرائیل کو مزید بے خوف بناتی ہے، اب سرائیل کی جانب سے قطر جیسی ریاست کو بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے تو محض الفاظ کے ہتھیار کافی نہیں رہیںگے ، بلکہ ایک مشترکہ جوابی عسکری کاروائی بھی کر کے دکھانا ہو گی ،

یہ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم دنیا اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، سفارتی اور سیاسی سطح پر ایک مشترکہ آواز بلند کریں اور دنیا کو باور کرائیں کہ اسرائیل کی جاریحانہ روش نہ صرف فلسطین، بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے،اس کے ساتھ عالمی عدالتوں اور عالمی اداروں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اجتماعی اقدام کیا جانا چاہئے اور ایسے ٹھوس فیصلے کیے جانے چائیں کہ جن سے اسرائیل کو پیغام ملے کہ اب مسلم دنیا خاموش تماشائی بنی نہیں رہے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں