15

بھارت کی ترقیات میں ہر کسی شہری کی حصہ داری ضروری

بھارت کی ترقیات میں ہر کسی شہری کی حصہ داری ضروری

نقاش نائطی
۔ ×966562677707

“آبادی ھند میں جتنی جس کی شرح آبادی، اس کی اتنی ہی اقتدار میں حصہ داری” بہوجن سماج کے آنجہانی لیڈر کاشی رام کا دل چھوتا اعلان

نام نہاد سیکیولر پارٹیوں میں رہنے والے مسلم لیڈران، علماء کرام کیا واقعتا” ان نام نہاد سیکیولر پارٹیوں میں رہتے ہوئے، آپنی مسلم جمعیت کی مناسب نمائندگی کرپاتے ہیں؟ یا انہیں صرف نام نہاد سیکیولر پارٹیوں کا ماؤتھ پیس بن کر، سیکیولر دیش میں، ان متعلقہ نام نہاد سیکیولر پارٹیوں کو نیک نام کرتے، رکھتے ہوئے جینا پڑتا ہے۔ اس لئے بھارت میں، ہم مسلمانوں کو اپنی حق خود داری کے ساتھ زندہ رہنے کے لئے، ضروری ہے کہ ہم مسلمان ایک قوم ایک جمیعیت ایک آواز کی شکل اختیار کرتے ہوئے،

اپنے لئے، “آبادی ھند میں جتنی جس کی شرح آبادی، اس کی اتنی ہی اقتدار میں حصہ داری” والے، آل انڈیا بہوجن سماج سیاسی پارٹی کے آنجہانی لیڈر شری کانشی رام کے اسی کے دہے میں علی الاعلان دیئے ہوئے اور اپنی دلت قوم کو،ایک حد تک بھارتیہ سیاسی پس منظر میں ترقی پزیری کے مدارج طہ کروانے والے مشہور و معروف نعرے، “آبادی ھند میں جتنی جس کی شرح آبادی، اس کی اتنی ہی اقتدار میں حصہ داری” کے بل بوتے پر، حق نمائندگی کا مطالبہ کرنا چاہئیے۔

بھارتیہ قانون میں بہت سے طبقات ذات برادریوں کو،سیاست سمیت رندگی کے ہر شعبہ میں ریزرویشن ملا ہوا ہے، جس سے وہ ذات برادریاں پسماندہ طبقات ایک حد تک موجودہ منافرتی ماحول میں بھی، سیاسی معاشرتی معشیتی تعلیمی ترقی پزیری حاصل کرچکے ہیں لیکن ہم مسلمان ہی وہ واحد مذہبی طبقہ ہے جسے ہزار حیلے بہانوں سے، ریاستی و ملکی حکومتی و غیر حکومتی ریزرویشن سے محروم رکھے جاتے، سیاسی معشیتی تعلیمی معاشرتی ترقی پزیری سے محروم و ونچت رکھا گیا ہے۔ سنگھی ذہنیت آر ایس ایس اور بی جے پی تو ہم مائینروریٹیزمسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں ہی، لیکن آل انڈیا کانگریس،

جنتا پارٹی، راشٹریہ جنتا پارٹی(آڑے ڈی) لوک دل، جن شکتی پارٹی سماج وادی پارٹی اور بہویں سماج پارٹی سمیت ہر نام ذات برادری والی، خود کو سیکیولر کہنے کہلوانے اور درشانے درشوانے والی سیکیولر سیاسی پارٹیاں، مسلم ترقیات کے خلاف تفکرا” و عملا” عمل پیرا پائی جاتی ہیں ۔ایسے پس منظر میں ہم بھارتیہ مسلمانوں کو، اپنے لئے یا اپنی برادری کی ترقی پزیری کے لئے، کیا کچھ کرنا چاہئیے یہ ایک بہت بڑا اہم نقطہ تفکر ہے جس پر ہم مسلم امہ، جتنا تدبر و تفکر کرینگے انشاءاللہ ایک حد تک ہم اپنے عظیم مقصد حصول میں کامیاب ہوتے پائے جائیگے۔انشاءاللہ

“آبادی ھند میں جتنی جس کی شرح آبادی، اس کی اتنی ہی اقتدار میں حصہ داری” اس نقطہ نظر سے زندگی کے ہر شعبہ ہائے ترقیات میں ہر ذات برادری کے لئے،مکمل ریزرویشن دینے کا مطلب، صد فیصد کوٹا سسٹم لاگو کرنا ہوگا جو ناممکن نہ صحیح مشکل تر ضرور ہے۔ بعد آزادی ھند، آل انڈیا کانگریس پارٹی سمیت مختلف سیاسی پارٹیوں نے، مختلف پس ماندہ طبقات ذات برادری کو کوٹا سسٹم ریزرویشن دئیے تمام ذات برادریوں کو مناسب ترقی پزیری دلوانے کی کوششیں کی ہے اس میں سچر کمیٹی کی رہورٹ کو گر سنجیدگی سے دیکھیں اور تدبر و تفکر کریں تو صرف اور صرف بھارت پر سابقہ آٹھ نو سو سال تک ہزاروں سالہ بھارتیہ مختلف المذہبی گنگا جمنی سیکیولر اثاث امن چین آشتی کے ساتھ حکومت کرنے والے، اور اب آزادی ھند میں کل آبادی کی بیس فیصد شرح آبادی والی قوم مسلم ہی کو سازشا” نظر انداز کئے جاتے ہوئے،

آزآد ہندوستان کی سب سے پچھڑی غیر ترقی یافتہ قوم کی حیثیت پچھڑا ہی چھوڑا گیا ہے۔سب کا ساتھ سب کا وکاس، اس خوش کن اور دل لبھاونے نعرے کے ساتھ بھارت کو عالم کے انیک دیشوں کے درمیان ترقی پزیری کے مدارج طہ کرواتے ہوئے، بھارت کو وشؤگرو والے مقام متمیز پر براجمان کروانے کے لئے،کیا ضروری نہیں ہےکہ آزاد ھند میں سابقہ دانستہ دہرائی گئی لغزش، ازالہ کے لئے، کچھ وقفہ عرصہ ہی کے لئے، مسلم قوم کو کل آبادی میں انکی شرح حصہ داری کے عین مطابق انہیں کوٹا سسٹم ریزرویشن دئیے جاتے، ملکی ترقی میں انہیں خوب ترقی کئے، کروائے،پورے بھارت کو ترقی پذیری دلوائے، بھارت کو عالمی تناظر میں وشؤگرو بنانے کے خواب کو پورا کیا جائے؟
کسی بھی ملک کو عالمی سطح ترقی پزیری دلوانے کے لئے، اسکے اپنے تمام باشندگان کو قومی دھارے میں سموئے،ترقی پزیری کے مدارج طہ کرواتے ہوئے، اجتماعی ترقی پزیری ٹارگیٹ حصول ممکن ہوسکتا ہے

۔لیکن چونکہ پہلے سے بھارتیہ قانونی سسٹم میں مختلف ذات برادریوں کو پچاس فیصد کوٹا سسٹم ریزرویشن دیا جاچکا پے اور ملکی عدلیہ نے پچاس فیصد سے اوپر کوٹا سسٹم ریزرویشن پر امتناع قانون لگوایا ہوا ہے اس لئے احقر کی آراء میں، بھارت کے تمام شہریوں کو،بھارت کی کل آبادی میں، انکی شرح آبادی کے نصف شرح ہی سے، ہر ریاستی و ملکی حکومتی غیر حکومتی سطح ریزرویشن دیا جائے اس سے بھارت کے تمام شہریوں کو کم از کم انکے شرح آبادی نصف شرح، انہیں ریزرویشن دئیے جاتے یوئے بھی، کل ریزرویشن کوٹا 50 فیصد سے اوپر تجاوز نہیں کرپائے گا اور کم از کم پچاس فیصد تمام ذات برادریوں کو حکومتی کوٹا سسٹم ریزرویشن ملتے،ملکی سطح انکے ترقی پزیری متعین ممکن ہوجائے گی

کم از کم 50فئصد آبادی تناسب ہر ذات برادری کو کوٹا سسٹم ریزرویشن متعین ہوتے، ہر کوئی بھارت کی ترقی پزیری کا شریک بھی ہوگا اور بقیہ پچاس فیصد بغیر کسی کوٹا سسٹم ریزرویشن کے، تقابلی مقابلوں کےذریعہ،بھارت کی ترقیات کا حصہ دار بھی بن پائے گا۔ اس سے نہ کسی کو شکایت باقی رہے گی اور نہ کوئی پچھڑا باقی بچے گا ۔
اب ظاہر ہے اس دیش کی اقلیت ہم مسلمان، اپنی ترقی پزیری کے لئے، کچھ مانگ حکومت سے کریں اور حکومت ہماری مانگوں کو طشتریوں میں سجا ہمیں آسانی سے نوازے۔ یہ ممکن نہیں اور یہ بھی ممکن نہیں، بن مانگے ہمیں یہ سب کچھ آسانی سے مل بھی جائے؟ اس کے لئے ہم مسلمانوں کو اپنے حقوق بازیابی کے لئے طویل مدتی جدوجہد کرنی پڑیگی۔ ہم آج کوشش کریں گے تو یقینا” ہماری نئی نسل مستقبل میں فیض یاب ہوتی ہم پاسکتےہیں۔ انشاءاللہ

رپی بات موجودہ گندی سیاست میں بھی ہم مسلمانوں کی شراکت داری، اس پر پڑوسی دشمن ملک کے سابق وزیر اعظم عمران خان کا یہ تفکر اچھا اور صحیح لگتا ہے کہ مخلوق خداکی خلقت پائے تمام جاندار ایک حد تک ناصرف اپنے لئے، جیتے ہیں بالکہ اپنی آل اولاد کو اس دنیا میں جینے لائق ٹریینڈ کرتے وقت تک، اپنی اولاد کا مکمل خیال رکھتے پائے جاتے ہیں اس اعتبار اس نفسا نفسی والے تونگرانہ نظام معشیت میں، صرف اپنے اور اپنی آل اولاد کے لئے تگ و دو کرتے پائےجانت والے لوگ، ان جانوروں سے بدتر ہیں

جو ایک حد تک اپنے علاوہ اپنے برادری کے جانوروں کی فکر رکھتے پائے جاتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے لئے آگے تپتی آگ جیسا صحرا اور پیچھے کھائی صدا پائی جاتی ہے۔ ہمت ہار بیٹھنے سے اچھا ہے اپنی قوم کو تپتے صحراء پار لگوانے، جہد میں جی توڑ کوشش کرتے پائے جائیں اور ہر زمانے میں دہرائے جانے والی تاریخ جیسے، کیا پتا ہمیں بھی دریاء نیل سے رستہ نکلتا ملے اور ہم بھی سرخرو پائے جائیں۔ ایسے پس منظر میں، جہاں جہاں جس جس علاقے میں ہم پندرہ بیس فیصد سے زیادہ ووٹ طاقت میں پائے جائیں اپنے صد فی صد ووٹ کو باہم مشورے سے، بغیر فائدہ نقصان دیکھے، ایک ہی کم سے کم۔نقصان دہ، متفقہ امیدوار کے حق میں ڈالتے ہوئے پائے جائیں ۔ہوسکتا ہے اس سے ہمیں وقتی فائیدے کے نقصان ہی ملتا دکھائی دے

لیکن ہمارے ایک ہی پالے میں پڑے یکمشت ووٹ کی قیمت، ہمیں اپنے ووٹوں کی قدر و قیمت دلاتے، ہم ضرور پائیں گے۔ہمارے مخالف موجود فریقین میں کوئی ہمارا ہمدرد یا دوست کم، چھوٹے یا بڑے دشمن کے طور ہم انہیں پاسکتے ہیں ، اور حذب مخالف کو ہمیں دشمن تصور کرتے ہوئے بھی، ہمارے متحدہ ووٹ قوت سے استفادہ، انکی مجبوری،اس نقطہ نظر سے، آج نہیں تو کل ہمارے متحدہ ووٹ کی قیمت کے طور، ہم مخالف پارٹیوں سے،بھی مول بھاؤ کئے، اپنے متحدہ ووٹ کی قیمت کے طور، کچھ حکومتی مراعات بدلے میں ہم پاسکتے ہیں اور اعانت ہمیں بھیک میں نہیں ملنے والی بالکہ ہمارے اتحاد کی قیمت کے طور ہمیں مل رہی ہوتی ہے

اس لئے صدا یاد رکھا جائے انتخاب کے مواقع پر، کسی بھی حیلے بہانے سے، ہمارے ووٹ کا بکھراؤ نہ ہونے دیں اوراپنے اتفاق و یگانت کی مناسب قیمت حسب اختلاف سے بھاؤتول کئے عزت سے مراعات حاصل کرنا سیکھیں۔ یاد رکھیں پچاس سے ساٹھ فیصد مسلم ووٹ اکثریت والے اسمبلی و پارلیمنٹ حلقوں میں اسلام و مسلمان دشمن سنگھی سازش کناں نے، ہم مسلمانوں کے درمیان صدا پائے جانے والے میر صادق و میر جعفر کی ناجایز اولادیں، ہزار حیلے بہانوں سے، ہم مسلمانوں کو آپس میں لڑوا ، ہمیں ایک دوسرے کے خلاف امیدوار کھڑے کروا، ہمارے ووٹوں کے بکھراؤسے، مسلم اکثریت والے نام نہاد مسلم دارالخلافہ جیسے دیوبند علاقوں میں بھی سنگھی اسلام و مسلم دشمن، آپنی جیت درج کروا ہم مسلمانوں کے 56 انچ چھاتیوں پر،اپنی نفرت کے مونگ دل رہے ہوتے ہیں اس کے لئے ہمیں آپنے دشمنوں کو بیکار کوسنے کے بجائے، اپنے درمیان پائے جانے والے میر جعفر نیرصادق کا کردار ادا کرنے والوں کو وقت رہتے پہنچاننا پڑیگا۔

سابقہ لغزشوں کے لئے سانپ نکل جانے کے بعد زمین پر رہ جانے والے نشان پر لاٹھیاں برساتے ، آپنا غم و غصہ و ضیاع وقت، سانپ نکل جانے والےنشان پر نکالنے کے بجائے، اپنی غلطیوں لغزشوں کا محاسبہ کئے،تدبر و تفکر کئے، ان غلطیوں لغزشوں کا اعادہ نہ ہو اور ہمارے ووٹ بکھر نہ پائے اسکی فکریں ہونی چاہئیے۔ انشاءاللہ ہم مسلمان اخلاص کے ساتھ امت مسلمہ اتحاد کے لئے سنجیدگی کے ساتھ فکر کرتے پائے جائیں

تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ رب العزت ہماری مدد ونصرت نہ کرے اور ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی، ہمارے ووٹوں کا بکھراؤ ہو اور دشمن اسلام اغیار کے سامنے شکست خوردہ سراسیمہ شرمسار ہم پائے جائیں ۔اللہ ہی ہمارا نگہبان و حامی ہے صرف شرط اخلاص کے ساتھ ہمارے محبت اخوت بھائی چارگی اتفاق و یگانگت کی ہماری مخلصانہ کوششیں کاوشیں ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں