81

کتنی وحشت درکار تھی، کتنی سفاکیت باقی ہے

کتنی وحشت درکار تھی، کتنی سفاکیت باقی ہے

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی

غزہ میں جو کچھ ہورہاہے ، جوکچھ ہوا یا جو کچھ ہونے والاہے انتہائی خوفناک اور ہولناک ہے غزہ میں صیہونی مظالم کی انتہا ، روزانہ درجنوں لاشیں، ہزاروںمعصوم بچوںکا وحشیانہ قتل، بھوک سے بلکتے پیاس سے سسکتے بوڑھوں ، خواتین ،بچوں پرفائرنگ،ہسپتالوں میں آئے زخمیوں پر بمباری ،خوراک کے متلاشی فلسطینیوںپرگولیاں برسنا یہ سب کچھ دیکھ کرہر ذی شعور سوچتاہے
’’ وحشی درندو کتنی وحشت درکار تھی تمہیں
’’ کتنی سفاکیت ابھی باقی ہے
’’ظالمو کتنی قتل و عارت گری کرو گے؟
دیکھنے و الوں۔۔ سننے والو ۔۔اے دنیا کے منصفو بولتے کیوں نہیں اس ظلم کو روک کیوں نہیں رہے؟ کیا اندھے ، گونگے اور بہرے ہوگئے ہو کیا اس وقت تمہارا ضمیر جاگے گا جب خلقت مٹ جائے گی ۔ ؟؟؟
کیا تم نہیں دیکھ رہے خوراک کی کمی، علاج نہ ہونے کے سبب فلسطینی بچے اور نوجواں ہڈیوں کے ڈھانچوں میں تبدیل ہوگئے ہیں جیسے وہ گوشت پوست کے انسان نہ ہوںمحض ڈھانچے ہوں۔۔
اے دنیا کے منصفوکیا تم نے یہ بھی نہیں دیکھاجو بچے صرف پانی لینے جمع ہوئے تھے صرف ایک گھونٹ پانی کے متلاشی تھے مگر اسرائیل ،ذلیل کی سفاکیت نے بچوں کی قطار پر میزائل دے مارا، وہ ننھے ننھے ہاتھ جو روٹی لینے درازتھے، خود ٹکڑوں میں بکھر گئے۔ وہ ننھے جسم جو ہمارا مستقبل تھے جن میں زندگی کی دھڑکن تھی ۔۔ دیکھ لو اب زمین پر آڑے ترچھے پڑے تھے اپنے ہی خون میں ڈوبے ہوئے ، بے گورو کفن ، بے صدا۔۔۔
کیا یہ سفاکیت ہی آپ کا انصاف ہے؟؟؟ گونگے کیوں بن گئے ہو اس ظلم کو روکتے کیوں نہیں تم تو اپنے آپ کو انسانی حقوق کے علمبردار کہلواتے ہو
یہ تمہاری کیسی مہذب دنیا ہے؟؟؟
تمہارے سینے میں دل نہیں کیا؟کیا تمہارے بچے نہیں ہیں؟ اگر کوئی ان کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھیتو تمہارا رد ِ عمل کیا ہوگا؟
یہ تمہاری کیسی خودساختہ انسانیت ہے جس میں بھوک اور پیاس پر سزا موت ہے ؟؟؟
صیہونی درندو تمہیں مارنے کو کوئی فوج نہیں ملی تو تم نے روٹی اور چند گھونٹ پانی لینے آئے بچوں کو نشانہ بناتے ہو۔ کیسے بے غیرت اور سفاک ہو تم لوگ۔۔۔اپنی ٹکر کے لوگوں سے پنگا لو تمہیں بھاگنے کا راستہ نہیں ملے گا جنہیں تم دہشتگرد کہتے ہو، وہ تو معصوم سے فرشتے تھے ابھی اسکول کی کتابوںمیں رنگ بھرنے والے تھے۔ جنہیں تم نشانہ بناتے ہورو بستے اٹھاتے پھرتے تھے ، وہ تو ماں، پانی، روٹی ، دودھ دو کہہ کر نکلے تھے

کہ تمہاری سفاکیت کی بھینٹ چڑھ گئے۔
عالمی طاقتو یادرکھو یہ جنگ نہیں یہ فلسطینیوںکی نسل کشی ہے۔ یہ صرف ظلم نہیں ،یہ شیطانیت کی انتہا ہے۔ اور یاد رکھو، جب بچے قتل ہوں، جب مائیں بے اولاد ہوں، جب خون بھوک کی قطاروں سے بہنے لگے، تو وہ قومیں مٹی میں دفن نہیں ہوتیں وہ تاریخ میں اْبھرتی ہیں، انتقام بن کر۔ اس مجرمانہ خاموشی پر تمہیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔۔
2ارب سے زائد مسلمان یہ سمجھنے سے قاصرہیں کہ آج اقوامِ متحدہ کی زبان کیوں گنگ ہے؟ ۔۔ یہ بھی معلوم نہیںاو آئی سی تمہارا ایمان کس کونے میں دفن ہے؟ مغربی طاقتیں تمہارے انسانی حقوق کے پرچم کہاں لٹکائے گئے ہیں؟؟؟ کیا یہ سب ڈھونگ، فریب اور دکھاوا ہے ؟ کی یاد رکھو فلسطینیوں پر ظلم، جبر اور غارت گری نہ رکی تو تم بھی اسرائیل کے ساتھ برابر کے مجرم ہو ہزاروں معصوم بچوں اور لاکھوں فلسطینیوںکا خون تمہاری گردن پر ہے کیا تم صرف تب جاگتے ہو جب کوئی کتا مر جائے، یا کوئی کارٹون بن جائے؟
جب بچوں کے کٹے پھٹے جسم، بارود آلود لاشے خون اور مٹی میں لت پت آسمان کی طرف منہ کھولے پڑے تھے تم کہاں تھے؟ تب تم بیان بازی سے آگے نہیں بڑھے ؟؟؟ گونگے شیطان کا کردار بننے والوں یاد رکھو یہ صرف فلسطینی بچوں کا قتل نہیں ہے یہ ایک تہذیب کاقتل ہے یہ تاریخ کا قتل ہے وہ تاریخ جس میں بھوک سے بلبلاتی انسانیت کا چہرہ نوچ دیا گیا ہے۔۔۔’’ وحشی درندو کتنی وحشت درکار تھی تمہیں
’’ کتنی سفاکیت ابھی باقی ہے
صیہونی مظالم کی انتہا دیکھ کر کروڑوں مسلمانوں کے سینے فگار، آنکھیں پر نم ہیں اے مسلم حکمرانوں تم کیوں خواب ِ غفلت میں سوئے ہوئے ہو کیا نمہیں فلسطینی بچوںکی چیخیں اور مائوں کے بین سنائی نہیں دے رہے اگر تم سب کے سب اگلے سانحے کا انتظار کر رہے ہو تو تم بھی شریکِ جرم ہو۔دنیا کی ہر جنگ صرف میزائلوں سے نہیں لڑی جا سکتی جنگ غیرت، مزاحمت اور کردار سے بھی لڑی جاتی ہے اور فلسطین کی سرزمین آج تمہیں آواز دے رہی ہے میری خاک پر گرے لاشے اٹھاؤ یا میرے بچوں کا انتقام لو۔ اب تو غزہ میں گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل کرنے کے لئے فلسطینیوںکو مکمل طورپر بے دخل کرنے کی منصوبہ بندی کی جاچکی ہے کیا قبلہ ٔ اول صیہونیوںکے رحم وکرم پر چھوڑدیا جائے گا ؟

۔۔ غزہ میں یہ جو60000 بچے مارے گئے، یہ جو ہزاروں عورتیں بیوہ ہوئیں، یہ وہ شہید جن کی لاشیں بھی پہچانی نہیں جا سکیں ، وہ نوجوان جن کے جسم کوئلہ بن گئے کیا ان کا خون رائیگاں جائے گا یہ کاش تم سمجھ سکتے ایک مسلمان کے لئے اخوت کیا ہوتی ہے اے مسلم حکمرانوں تاریخ آج نوحہ کناں ہے کاش تم نے پہچانا ہوتا کہ بمباری کے نتیجہ میں لوتھڑوں میں تبدیل ہونے والے فلسطینی تمہارے مسلمان بہن بھائی تھے صرف ان کے جسموںاور چیٹھروں میں نہیں اڑے بلکہ انسانیت کا جنازہ نکل گیا بلکہ اس کو امت کا جنازہ کہا جائے تو بہتر ہوگا یقینا غزہ کے درودیوار نوحہ کناں ہیں وہ سہم سہم کر پوچھ رہے ہیں
’’ وحشی درندو کتنی وحشت درکار تھی تمہیں
’’ کتنی سفاکیت ابھی باقی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں