مایوسی کے مہیب سائے!
ہمارا معاشرہ ا بدترین تقسیم میں الجھا ہوا ہے،اس کے باوجود کبھی کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کی حمایت نہ کرو، پیپلزپارٹی فائدہ اٹھائے گی ،کبھی کہا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حمایت نہ کرو مسلم لیگ فائدہ اٹھائے گی، پھر کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کی مخالفت نہ کرو مسلم لیگ فائدہ اٹھائے گی،اس الجھن سے ہم کب نکلیں گے؟ ہم سچ کی جانب کب لوٹیں گے اور کب سوال اُٹھائیں گے کہ اگر یہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے
تو پھر یہاں ہائبرڈ نظام کیوں ہے اور اس ہائبرڈ نظام کو کون لایا ہے؟یہ وہی لائے ہیں کہ جنہیں آزمائے سے چھٹکارہ دلانے کیلئے لایا گیا اور بعدازاں انہیں نکال کرایک بار پھرا ٓزمائے کو ہی لایا گیاہے،یہ کیسا کھیل ہے جو کہ بار بار کھیلا جارہا ہے، کیا اس کھیل میں ہم نے سات دہائیاں ضائع نہیں کردیں ہیں اور کیا ہم آئندہ بھی اپنا وقت اور مستقبل،اس پرانے کھیل میں ہی برباد کرتے چلے جائیں گے؟
یہ بہت اہم سوال ہے ،اس کا جواب کوئی دیے رہا ہے نہ ہی دینا چاہتا ہے، کیو نکہ فیصلہ سازوں کاماننا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں، بالکل ٹھیک کررہے ہیں، اس ضد و انا کے ساتھ لڑا جاسکتا ہے نہ ہی سمجھایا جاسکتا ہے ، بلکہ ہر بار کی طرح خاموشی سے چلا ہی جاسکتا ہے ،جو کہ چلا جارہا ہے ،اس کا فائدہ کسی دوسرے کو چاہیے نہ ہورہا ہو ،مگر اس نظام والوں کو ضرور ہورہا ہے ، اس لیے ہی ایک وزیر ہائبر نظام کو وقت کی ضرورت قرار دیے رہا ہے تو دوسرا وزیر عام عوام کو ہی مود الزام ٹہرا ئے جارہا ہے
کہ ساری دنیا ٹیکس دیے رہی ہے ،مگر اس ملک کے عوام ٹیکس نہیں دیے رہے ہیں ، جبکہ وہ جان بوجھ کر حقائق سے نظر یں چرا رہے ہیںکہ عوام عوام ہی اب تک ٹیکس دیے رہے ہیں،اشرافیہ نہ صرف ٹیکس چوری کررہے ہیں ، بلکہ قر قر ض پر قر ض لے کر سارا بوجھ عام عوام پرہی ڈالے جار ہے ہیں۔
ہر دور حکو مت میں عوام سے کہا جاتا رہا ہے کہ اس بار آئی اٰیم ایف کاا ٓخری قرض ہو گا، ہم کشکول توڑیں گے اور آئی ایم ایف سے نجات دلائیں گے ، اس بار بھی کہا جارہا ہے، بلکہ اس بارتو ہر بار قر ض لے کر پرانا بیا نیہ ہی دہرایا جارہا ہے کہ یہ آئی یم ایف سے آخری قرض ہو گا ، لیکن عوام کو بتایا نہیں جارہا ہے کہ ہر بار قرض کہا جاتا ہے اوربار بار قرض کیوں لیا جاتا ہے اور اس کا سارا بوجھ عام ٓدمی پر ہی کیوں ڈالا جاتا ہے؟ اس ملک کے حکمران خود عیش کررہے ہیں اور ملک و عوام کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہوا ہے
، عوام قرض پر قر ض اُتار رہیہیں اور اشرافیہ اور حکمران دوسرے ممالک میں نہ صرف اپنے جائیدادیں خرید رہے ہیں ،بلکہ اپنے کاروبار بھی بڑھا ئے جارہے ہیں ، اس ملک میں ہے کوئی ، جو کہاس ملک کی لوٹی دولت واپس لائے اور اس ملک کو قرض سے نجات دلائے ، عوام کو آئی ایم ایف کی گرفت سے چھڑائے اور عوام کی زندگی میں بھی کو ئی تبد یلی لائے ، یہاں عوام کا دردل رکھنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔
یہ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ عوام کے نام پر اقتدار میںا ٓنے والے ہی عوام کا استحصال کررہے ہیں، عوام کو غلامی کی زنجیروںمیں جکڑ رہے ہیں ، عوام کی زباں بند کررہے ہیں ،عوام کو ہی اپنے پیج سے نکال رہے ہیں ، عوام کے ہی فیصلے نہیں مان رہے ہیں تو عوام بھی ان سے مایوس ہوتے جارہے ہیں ،لیکن انہیں کوئی فکر ہی نہیں ہے،کیو نکہ عوام کے ووٹ سے نہیں ،چور دروازے سے آئے ہیں ، انہیں عوام کی حمایت کی نہیں ،طاقتور حلقوں کی اشیر باد چاہئے، انہیں کوئی سروکار نہیں ہے
کہ ہمارارا پڑھا لکھانوجوان اثاثہ تیزی سے ملک چھوڑ کر جارہا ہے اور جو ملک میں ہے ،وہ انتہائی مایوس ہورہا ہے، یہاں ہر کوئی پر یشان حا ل ہے ،ہر چہرا بے رونق اور بد حال ہو تا جارہا ہے ، ہر چوک ، چوراہے کو ئی خوش کوئی خوش حال نظر ہی نہیںا ٓتا ہے، ہر کوئی مایوس ،ناامید ہی دکھائی دیے رہا ہے۔
اس کا جائزہ لینا ہے کہ بطور مسلمان معاشرہ ہم کہاں جارہے ہیں اور ہمارا ملک کہاں جارہا ہے؟ کیا اس طرح ہی دست و گریبان رہیں گے اور آئی ایم ایف کے غلامی میں ہی رہیں گے! حکومت کتنی ا ٓسانی سے کہتی ہے کہ عوام کو سبسڈی نہیں دے سکتے کہ آئی ایم ایف نے روک رکھا ہے ،اس طرح ہی ماضی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کیا تھی اور کیا کرتی رہی ہے؟ اور آج کی آئی ایم ایف بھی وہی کچھ کررہی ہے ؟ ماضی میں یہاں انگریز راج رہا ہے ،کیآ اج ائی ایم ایف کا راج ہے اور کیا اس کے راج میںحکمران آزاد ہیں؟ ہمارے حکمران تو آزاد ہیں ،مگر انہوں نے عوام کو ہمیشہ کیلئے آئی ایم ایف کی غلامی میں دے دیا ہے !