68

بزدل قوموں کے بہادر لیڈروں کا انجام

بزدل قوموں کے بہادر لیڈروں کا انجام

جمہور کی آواز

ایم سرور صدیقی

تاریخ بتاتی ہے کہ ’’بزدل قوموں کے بہادر لیڈروں کا انجام اچھا نہیں ہوتا سامراجی طاقتیں انہیں عبرت کا نشان بنادیتی ہیں اور بزدل قومیں احتجاج تک نہیں کرتیں اس سے بڑھ کر اور کیا ستم ظریفی ہوگی کہ بے حسی نے قومی ہیروز کو زیرو بناڈالا اہو ہمیں اس کا مطلق احساس تک نہیں 1920ء میں دمشق پر قبضہ کرنے کے بعد فرانسیسی جنرل نے بڑے غرور سے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے مزار پر قبر کو ٹھوکر ماری اور دھاڑا
’’اٹھو صلاح الدین! ہم دوبارہ آ گئے ہیں‘‘ یہ وہ الفاظ تھے جس نے ہر ذی شعور کو جنجھوڑ کررکھ دیا لیکن مسلم حکمرانوں پھر بھی ہوش نہیں آء اس لمحے اس مرد مجاہدکی صرف ایک قبر نہیں روندی گئی پوری امت ِ مسلمہ کو زور دار طمانچہ ماراگیا تھا جس کی گونج آج تک سنائی دے رہی ہے اے صلاح الدین! دیکھ ہم واپس آ گئے ہیں کے الفاظ میں ایک پیغام دیا گیا تھا کہ “ہم پھر آئے ہیں، اور تم سوئے ہو!”۔۔ تم کیا

جانو سلطان صلاح الدین ایوبی کون تھا؟،یہ ایک تاریخ تھی، ایک غیرت تھی،یہ محض ایک قبر نہ تھی امت کا وقار تھا صلیبی قوت کو نیست و نابود کرنے والا وہ کردار تھا جس سے دشمن آج بھی خوفزدہ ہیں۔ صلاح الدین ایوبی ؒ امت کی عزت کا نشان تھا جس کے مزار کو ٹھوکرمارنے کے باوجود مسلم حکمرانوںکا ضمیرنہ جاگا اب سوال یہ اٹھتاہے کہ
امتِ مسلمہ کیا فرانسیسی جنرل کی مکروہ آواز تمہارے دل میں گونجی؟ کیا تم نے اس گستاخی کی کسک کومحسوس کیا؟۔۔ کیا یہ برا لگاہاتھ سے، کردار سے یا زبان سے اس گستاخی کا جواب دیا کیا تمہیں یہ بھی یاد نہیں سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے قبلہ ٔ اول بیت المقدس کو آزاد کرایا تھا؟ ۔۔ کیا بزدل قوموں کے بہادر لیڈر آپ کے اسی سلوک کے حقدار ہیں کہ ان کی قربانیوںکو فراموش کردیا جائے اور اپنی سنہری تاریخ کو بھلا دیا جائے آج کا دور، مسلمانوںکی حالت اور حالات دیکھ کر غیرت مند قومیں یقینا ایسا ہی کرتی ہیں یادرکھیں تاریخ بزدلوںکو یادبھی نہیں رکھتی۔
٭4 اپریل 1979ء پاکستان کی تاریخ کا وہ تاریک دن تھا جب ذوالفقارعلی بھٹو کو گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں کڑے پہرے میں دفن کر دیا گیا۔جب ان کی قبر سے پہرہ ختم ہوا تو پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین فاتحہ خوانی کے لئے گئے، ان میں بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار بھی تھے جب گائوں پہنچے تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور پوچھنے لگے آپ تو ہمارے لیڈر کے سب سے زیادہقریب تھے. آخری وقت تک انہوں نے کوئی پیغام دیا یا کچھ کہا تو بتائیے۔ یہ سن کر یحییٰ بختیار کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے اور بولے
بھٹو صاحب نے آخری ملاقات میں مجھ سے کہا ’’بزدل قوموں کے بہادر لیڈروں کا یہی انجام ہوتا ہے‘‘
٭کہا جاتا ہے کہ معروف حریت پسند رہنما چی گویرا کو اس کے خفیہ ٹھکانے سے گرفتارکیا گیا تو اس کی جاسوسی ایک چرواہے نے کی تھی، جو ایک غریب طبقے سے تعلق رکھتا تھا جن کے حقوق کے لئے چی گویرا کئی دہائیوں سے لڑ رہا تھا۔ جب اس بات کا پتہ ایک فوجی کو ہوا تو اس نے حیرت سے اس چرواہے سے پوچھا
“تم اس شخص کے ساتھ غداری کیسے کر سکتے ہو جس نے اپنی پوری زندگی تمہارے اور تمہارے حقوق کے دفاع میں گزاردی؟!”
چرواہے نے سکون سے جواب دیا: “اس کی جدوجہد کے دوران ہونے والی لڑائیوں میں چلنے والی گولیاں میری بکریوں کو ڈراتی تھیں جس سے وہ تتر بتر ہوجاتی تھیں جنہیں اکھٹا کرنے میں مجھے بہت مشکل کا سامنا کرناپڑتا تھا اب میں سکون میں ہوں
چی گویرا بھی ایک بزدل قوم کا بڑا رہنما تھاجو اپنی ہی جدوجہد کے دوران اپنوں کے ہاتھوں انجام کو پہنچا۔
٭ برسوں پہلے مصر میں ایک عظیم حریت پسندکمانڈر محمد کریم نے نپولین کی فرانسیسی سامراجی مہم کے خلاف مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کی جب اسے گرفتارکیاگیا تو عدالت نے اسے سزائے موت سنا دی لیکن نپولین بوناپارٹ نے اسے بلاکر کہا
“مجھے انتہائی افسوس ہوگا کہ میں ایک ایسے شخص کو قتل کر دوں جس نے اپنے ملک کابڑی جرأت و بہادری سے دفاع کیا لیکن میں نہیں چاہتا کہ تاریخ مجھے ہیروز کے قاتل کے طور پر یاد رکھے۔ اگر تم میری فوج کے نقصانات کے بدلے 10 ہزار سونے کے سکے ادا کردو، تو میں تمہیں معاف کر دوں گا۔”
یہ سن کر حریت رہنمامحمد کریم ہنس پڑا اس نے جواباً کہا
اس وقت میرے پاس اتنا پیسہ نہیں جو میںاداکرسکوںلیکن تاجروں پر میرا ایک لاکھ سے زائد سونے کے سکوں کا قرض ہے۔” اگر مجھے ان تک رسائی دی جائے تو میں آپ کی مطلوبہ رقم کی ادائیگی کر سکتا ہوں نپولین نے اسے مہلت دیدی حریت رہنمامحمد کریم زنجیروں میں جکڑا ہوا اور فوجیوں کی حفاظت میں بازار چلا گیا اسے یقین تھا کہ جن لوگوںکے لئے اس نے قربانی دی وہ اس کی ضرور مدد کریں گے۔ لیکن خلاف توقع کسی تاجر نے رسپانس نہیں دیا۔ اس کے برعکس انہوں نے اس پر الزام لگا دیا کہ وہ اسکندریہ کی تباہی اور ان کے کاروباری بحران کا ذمہ دار ہے۔ اسے واپس نپولین بوناپارٹ کے پاس لایاگیا

اپنے ہم وطنوںکے سرد روئیے سے حریت رہنمامحمد کریم اندر سے روحانی طور پر ٹوٹ چکا تھا۔ تب نپولین نے اس سے کہا – “میں تمہیں اس لیے نہیں ماروں گا کہ تم نے ہمارے خلاف جنگ لڑی، بلکہ اس لئے کہ تم نے ایک بزدل قوم کے لئے اپنی جان قربان کردی، جو آزادی سے زیادہ تجارت سے محبت کرتی ہے یعنی اس کا صاف صاف مطلب ہے “جو رہنما اپنی جاہل قوم کے حقوق کے لئے کھڑا ہوتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو اندھوں کے لئے راستہ روشن کرنے کی خاطر اپنے جسم کو آگ لگادیتا ہے لیکن جاہلوں کے ضمیر سوئے رہتے ہیں یہ کہاوت پاکستانیوںپر صادق آتی ہے جن کی بزدلی اور جہالت نے کتنے ہی قومی رہنمائوں اور ہیروز کوبے حسی کی بھینٹ چڑھادیا قائد ِاعظمؒ، لیاقت علی خان، بے نظیربھٹو، ڈاکٹرقدیرخان کی مثالیں سب کے سامنے ہیں سچ ہے ’’بزدل قوموں کے بہادر لیڈروں کا یہی انجام ہوتا ہے‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں