52

بھارت دراصل کس کا ہے؟

بھارت دراصل کس کا ہے؟

نقاش نائطی
۔ +966562677707

(ماقبل آزادی ھند انگرئزوں کے تلوے چاٹنے والے مہاسبھائی آرایس ایس والوں کی آج کی اولاد یہ سنگھی لیڈران، جو بھارت پر آٹھ سو سال چین و شانتی والی کامیاب حکمرانی کرنے والے ہم مسلمانوں کو، بات بات پر دشمں پڑوسی ملک پاکستان جانے کے طعنے دیتے نہیں تھکتے، ڈنکے کی چوٹ پر انکے سامنے ہم مسلمانوں کو مندرجہ ذیل یہ کچھ سوالات پوچھنے کی جرآت ہم میں ہمیں پیدا کرنی ہوگی)
کیا چاند ستاروں کی موجودگی کا بھی ثبوت مانگا جائیگا؟ بھارت کے مسلمانوں کو غدار دیش دروھ اور پاکستان چلےجاؤ کہنے والو، ذرا اپنے بھارت کی تاریخ ہی کو اچھی طرح پڑھ اور سمجھ لو۔ اس چمنستان بھارت پر تم سنگھی ھندوؤں سے زیادہ، ہم مسلمانوں کا زیادہ حق ہے ۔
کیا تم بھول گئے سینٹرل لیجسلیٹیو اسمبلی پر بم دھماکے کے الزام میں دیش کی آزادی کے سب سے بڑے نیتا سمجھے جانے والے، ویر بھگت سنگھ کو جب عدلیہ میں انگریز جج کے سامنے پیش کیا گیا تھا تو انگریز جج کے یہ پوچھنے پر کہ مسلمان مغلوں نے تم بھارتیہ ھندوؤں پر 800 سالہ لمبے عرصے تک حکومت کی تو تم یا تم جیسے کسی ھندو نے،ان مغل حکمرانوں کےخلاف کبھی آواز نہیں اٹھائی؟

آج جب ہم صرف 150 سال سے تم بھارتیوں پر حکومت کررہے ہیں تو تم ہمارے خلاف صف بستہ ہم سے نجات حاصل کرنے، ہم پر بم حملہ کرتے ہوئے، انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کے مرتکب ہورہے ہو؟ اس کے جواب میں ویر بھگت سنگھ نے کیا خوبصورت جواب دیا تھا؟ اسے آپ ہی کے ھندو کی لکھی ہسٹری کی کتاب گرور اینڈ گرور میں لکھے بھگت سنگھ کے جواب کو ہم یہاں نوٹ کئے دیتے ہیں۔
“بھگت سنگھ کا پیارا سا جواب تھا ۔ مغلوں نے، بے شک ہم پر 800 سال حکومت کی، لیکن وہ حکومت صرف چمنستان بھارت کی سر زمین پر نہ تھی، بلکہ کروڑوں بھارتیوں کے دلوں پر بھی مغلوں نے حکمرانی کی تھی” زمانہ قدیم سے مختلف راجے، مہاراجے،نواب، اور سلطان ،کنیا کماری سے دہلی کلکتہ کشمیر تک، اس چمنستان بھارت کو بندر بانٹ کی طرح مختلف ٹکڑوں میں بانٹے ہوئے،اس پر نہ صرف راج کر رہے تھے، بلکہ اپنی اپنی سلطنتوں کی توسیع و وسعت کے لالچ میں،اس دیش کی ھندو مسلم جنتا کو زبردستی اپنی اپنی افواج کا حصہ بنائے، ایک دوسرے پرحملہ کرتےہوئے، معصوم بھارتیوں کا ناحق خون بہائے جارہے تھے، فاتح راجپوت راجہ، اپنے ہی جیسے کسی اور ھندو راجپوت راجہ پر حملہ کر، اسے شکست فاش دیتے ہوئے، اس راجیہ میں نہ صرف لوٹ مار کیا کرتے تھے،

بلکہ اس راجیہ کی اپنی ھندو راجپوت ماؤں بہنوں کی عزتوں کو سر عام پامال کرنا،اپنا بہادری درشانے جیسا عمل سمجھتے تھے۔ چند برہمن راجپوت راجاؤں کے، بڑے سے بڑا راجہ بننے کی،نہ مٹنے والی بھوک کے چلتے، ہزاروں لاکھوں بھارتیہ ھندوؤں کی جانیں نہ صرف ان آپسی جنگوں میں قربان کی جاتی تھیں، بلکہ ہزاروں ھندو راجپوت عورتوں کو اپنی عزت آبرو کھوئے ہوئے، خود کشی کر مرنا پڑتا تھا یا فاتح ھندو راجپوتوں کی ھندو افواج کےہاتھوں ہمیشہ لٹتے، بے عزتی کی زندگی جینا پڑتا تھا۔ راجپوت ھندوؤں کے ویر سمراٹ رانا سانگھا نے، اپنے دشمن راجپوت راجا کو شکست فاش دینے ہی کے لئے،پہلے افغانستان سے مسلم حکمرانوں کو، اس آسمانی ویدوں والی سر زمین بھارت پر بلوایا تھا۔

یہ مسلمان حکمران راجپوت ویر رانا سانگھا کے بلاوے پر بھارت آکر بس بھی گئے اور یہاں بھارت کی لوٹ مار قتل و غارت گری دیکھ کر، نہ صرف یہیں کے ہوکر رہ گئے، بلکہ کنیا کماری سے دہلی کشمیر کلکتہ تک مختلف راجے مہاراجہ نوابوں سے لڑتے ہوئے، یا تو انہیں شکست فاش دیتے ہوئے، یا انہیں اپنی تابع داری میں لیتے ہوئے، نہ صرف ایک وشال اکھنڈ بھارت کی تعمیر کی تھی۔ بلکہ یہاں کی دولت لوٹ کر اپنے ملک افغانستان یا ایران لے جانے کے بجائے، اسے یہیں بھارت میں، عظیم الشان عمارتیں، پارک باغات اسکول و ہاسپیٹل و سڑکین شاہرائیں تعمیر کرتے ہوئے، بڑے بڑے مندروں مسجدوں درگاہوں کی تعمیر و اس کہ دیکھ ریکھ پر، اس دیش کی دولت کو خرچ کرتے ہوئے، مختلف راجوں مہاراجوں نوابوں سلطانوں کی ہوس و بھوک کے ہاتھوں، صدا لٹتے رہے بھارت کو، ترقی پزیری کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے

، اتنی ترقی دی تھی کہ اس وقت کا سب سے بڑا وشال بھارت، اپنی 27فیصد جی ڈی پی کے ساتھ، پورے عالم میں سونے کی چڑیا ایسا مشہور ہوا تھا کہ آج ہم بھارتیوں کے یورپ و امریکہ و کھاڑی کے عرب دیشوں میں ملازمت کے لئے گئے جیسا، یورپ و وسط ایشیا کے گورے بھارت روزی روٹی کمانے آتے تھے۔ اس وقت سونے کی چڑیا بھارت کی ایسی چمک دمک تھی کہ آدھے عالم پر حکمرانی کرتی ملکہ انگلستان نے، تاجروں کے بھیس میں اپنے ایجنٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کو، بھارت بھیجا تھا۔

اور آپ لوگ مغل حکمرانوں کی اجازت سے تجارت کے بہانے یہاں بھارت آکر، بھارت کے مختلف راجوں مہاراجوں نوابوں کو،مغل حکمرانوں کے خلاف صف بستہ ہونے، حربی مدد کرتے ہوئے اور مغلوں کے ہاتھوں ہزیمت زدہ، نظام حیدر آباد، شیواجی مہاراج جیسے راجوں نوابوں کو، مغلوں کے خلاف لڑاتے ہوئے، چمنستان بھارت میں ھندو مسلم منافرت کا بیچ بوتے ہوئے، مغلوں کو کمزور کرتے ہوئے، بھارت پر انگریز حکمرانی کی راہ ہموار کی تھی۔ اس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ بھگت سنگھ نے دو ٹوک اس انگریز جج سے کہا تھا کہ “مغلوں نے جس بھارت کو سونے کی چڑیا مشہور کیا تھا آپ نے گنگا کنارے کھڑے انگریز جہازوں پر، ایک اسپنج کی طرح بھارت کی دولت کو چوس چوس (لوٹ لوٹ) کر، انگلستان ویلزندی کنارے اسے نچوڑتے ہوئے، بھارت کی لوٹی ہوئی دولت سے مالامال کرتے ہوئے انگلستان کو آباد کیا تھا

آپ تو بھارت کی دولت لوٹ لوٹ عالم کے مالدار ترین ملک بن گئے تھے لیکن مغلوں نے یہاں آکر اس وقت کے سو سے زیادہ مختلف راجوں ریاستوں میں بٹے، بھارت کو نہ صرف ایک عظیم وشال اکھنڈ بھارت میں بدل کے رکھدیا تھا بلکہ ھندو مسلمانوں کو محبت چین و آشتی کے ساتھ رہنا سکھاتے ہوئے، ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس کے آج کے فقیر منش لٹیرے،مسٹر پھینکو کے نعرے کو دو ڈھائی سو سال قبل ہی عملا” پورا کرتے ہوئے، ھندو مسلمان، سب کا ساتھ لیتے ہوئے، عالم کا نہ صرف اس وقت کا، بلکہ اب تک کے عالم کا سب سے زیادہ 27فیصد جی ڈی پی والا، سونے کی چڑیا ملک بھارت بنادیا تھا

مغل حکمرانوں نے، اپنے ملک ایران عراق و دیگر کھاڑی کے عرب ملکوں کے اعلی تعلیم یافتہ کاریگروں کو بھارت لاکر، دہلی کا لال قلعہ، قطب مینار اور ہمایوں کا مقبرہ، اور آگرہ کا تاج محل نیز فتح پور سیکری کے عجیب و غریب شاہ کار عمارتیں تعمیر کرتے ہوئے، نہ صرف اس وقت کے، بلکہ مغل راج ختم ہوئے آج پونے تین سو سال بعد بھی، یہ عالیشان عمارتیں، نہ صرف بھارت کی شان سمجھی جاتی ہیں، بلکہ دنیا بھر کر سیاحوں کو بھارت کھینچ لاتے ہوئے، لاکھوں کروڑ کا زرمبادلہ بھارت کی جھولی میں ڈالتے ہوئے، بھارت کی معشیت کو اب بھی مستحکم کر رہی ہیں
سب سے اہم آج کل کے سنگھی مودی یوگی جو ان مغل حکمرانوں کے خلاف بھارت کی جنتا کے اذہان کو پراگندہ کررہے ہیں

۔ انہیں یہ اچھی طرح معلوم ہونا چاہئیے، 11 سو سال قبل جب یہ مغل حکمران یہاں بھارت کی سرزمین پر آئے تھے تو اسوقت سے ان کی حکومت اختتام تک، ان مغل حکمرانوں کی آل کے تمام تر لوگ،نہ صرف یہیں کے ہوکر رہ گئے تھے بلکہ یہیں اسی زمین میں دفن ہوتے ہوئے، تا قیامت اسی سرزمین بھارت کا حصہ بن چکے ہیں، جبکہ برہمن راجوں مہاراجوں کے ساتھ سے، مغلوں کو شکست فاش دے، بھارت کو غلام بنانے والے، فرنگی انگریزوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے،اس وقت کے ھندو مہا سبھائیوں کی، آج کی اولادیں، برہمن پونجی پتی گجراتی کروڑ پتیوں کی طرح، بھارت میں کمانے اور یہاں کے بنکوں کو چونا لگاتے ہوئے لاکھوں کروڑ بھارت کے پیسے لوٹ لےجا ودیش میں بستے، وہاں کے ودیشی ملکوں کو آباد کر، اپنے بھارت کو کنگال نہیں کیا تھا۔آزاد بھارت کی تاریخ میں جتنے بھی مالی گھوٹالے ہوئے ہیں

اور جتنے بھی ھندو برہمن، بینکوں کو چونا لگا یہاں بھارت کی دولت کو لوٹ کر، ودیش بھاگ گئے ہیں اگر تحقیق و محاسبہ کیا جائے تو سوائے وجئے ملیہ یا ایک آدھ دوسرے راجیہ کے ھندو کے علاوہ، سب کے سب گجراتی برہمن ہی لاکھوں کروڑ کا بھارت کو چونا لگا، لوٹ لوٹ کر ودیش لے جاچکے ہیں۔ ہم تو یہی کہیں گے اگر کوئی اہل علم آر ٹی آئی قانون کی مدد سے یا اپنے ذرائع سے،بھارت کے آزاد ہونے سے اب تک ان گجراتی برہمنوں کے ہاتھوں بھارت کی لوٹ کی تفصیل دیش واسیوں کے سامنے لائی جائے تو، دیش کی 138 کروڑ جنتا کو بخوبی ادراک ہوگا کہ فرنگی انگریز کے ان گجراتی برہمن چیلوں نے، انگریزوں کے نقش قدم پر، انگریزوں سے زیادہ بھارت کو لوٹ کر، بھارت کو کنگال بنایا ہوا ہے
اب رہی بات مسلم حکمرانوں نے بھارت کو کیا دیا ہے، تاریخ کی کتابوں کے حوالے ہی سے بھارت میں سب سے پہلے جنگی توپ لانے والے مغل حکمران ظہیرالدین بابر ہی تھے۔
1799 مراٹھا کنگ شیواجی مہاراج اور نواب حیدرآباد کی کمک کے ساتھ انگرئزوں کی فوج کے ہاتھوں شکست کھاتے ہوئے، اس سرزمین بھارت پر اپنی جان نچھاور کرنے والے حضرت ٹیپو سلطان شہید علیہ الرحمہ کے خزانے سے ملی، انکی اپنی خود کی لکھی کتاب “فتح المجاہدین” انگریز سپہ سالار اپنے ساتھ برطانیہ لے گئے تھے تو اسوقت 1801 سے 1805 تک پورے 5 سال انگریزوں کے اعلی تعلیم یافتگان نے اس کتاب فتح المجاہدین سے آس وقت ٹیپو سلطان کی بنائی ہوئی دنیا کی پہلی میزائیل ٹیکبولوجی “میسورین میزائل” کے راز کو جاننے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہے تھے۔دراصل حضرت ٹیپو سلطان علیہ الرحمہ کی لکھی اس کتاب فتح المجاہدین میں، اس وقت ٹیپو سلطان کے بنائے،

میسیورین میزائل بنانے کا راز فارسی میں لکھا ہوا تھا، ٹیپو سلطان کی تاریخ پڑھ کے ان سے متاثر ہو 20ویں صدی کے آخری سالوں میں مدراس ٹمل ناڈ کے مسلمان سائینس دان، اے پی جے عبدالکلام نے، میزائل ٹیکنالوجی پر تحقیق کا کام شروع کیا تھا اور اگنی اور پرتھوی میزائل کا تحفہ بھارتیہ افواج کو دیتے ہوئے، بھارتیہ افواج کو عالم کی طاقت ور ترین افواج میں سے ایک بنادیا تھا۔ پورا بھارت اگنی اور پرتھوی میزائل کے خالق، سابق صدر ھند، آے پی جے عبدالکلام کو، جہاں میزائل میں آف انڈیا کی حیثیت جانتا ہے، اے پی جے ابوالکلام، حضرت ٹیپو سلطان کو، اپنا میزائل ٹیکنالوجی کا استاد تسلیم کرتے ہیں۔ تو گویا عالم کو سب سے پہلے میزائل ٹیکنالوجی دینے والے، میزائل میسورین کے موجد یا فاؤنڈر سلطان حضرت ٹیپو سلطان ہی تھے۔ اسکے اعتراف کے طور امریکی اسپیس ٹیکنولوجی، ناسا کی عمارت کے استقبالیہ ھال میں، دیوار پر حضرت ٹیپو سلطان شہید کی گھوڑے پر بیٹھی قدر آدم پینٹنگ انکے بنائے میزائل کے ساتھ انہیں سلام کرتے بنائی گئی ہے۔ کیا یہ بات ہم بھارتیوں کے لئے باعث صد افتخار بات نہیں ہے؟

اور اس 20 ویں صدی میں، بھارت کو اگنی و پرتھوی میزائل سے لیس کرنے والے، بابائے میزائل ھند بھی الحمد للہ مسلمان ہی ہیں۔
قحط سالی سے نپٹنے اور کسانوں اور عام خریداروں کے درمیان بچولیوں اور پیسے والے تونگروں کی لوٹ کھسوٹ سے اپنی رعایا کو بچانے،کسانوں سے براہ اناج خرید کر حکومتی سطح پر بھنڈار گھر محفوظ رکھنے کی شروعات مسلم بادشاہ ھند خلجی دور حکومت میں شروع کی گئی تھی اور اسی خلجی دور حکومت میں بازار میں نیچے جانے والی تمام اجناس سرکاری قیمتیں متعین کی گئی تھیں تاکہ ساہوکاروں کی ذخیرہ اندوی لوٹ مار سے عام کو آسان سی جاسکے۔
بھارت کے سابق شہنشاہ شیر شاہ سوری ہی وہ مسلم شہنشاہ تھے جنہوں اپنے زمام حکومت میں، آج کے ریونیو ٹیکس سسٹم سے بھارت کو متعارف کیا تھا اور اس ٹیکس سسٹم کی شروعات کی تھیں ۔ بھارت میں پولیس و ڈاک نظام متعارف کرانے کا اعزاز بھی مسلم شہنشاء شیر شاہ سوری کے سر پر سجتا ہے۔ یہی نہیں ان ایام جب تعمیرات کی ایسی شاندار مشینیں دریافت نہیں ہوئی تھیں کلکتہ سے پاکستان پشاور تک دونوں طرف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر، سایہ دار درخت لگے، عظیم الشان شاہراہ گرینڈ ٹرنک ہائی وے کی تعمیر بھی مسلم شہنشاہ شیر شاہ سوری ہی کی زمام حکومت دوران بنائی گئی تھی۔

پہلے کے سکوں والے کرنسی نظام میں جدت لاتے ہوئے، موجودہ دور والے نوٹوں کے کرنسی نظام کو بھی شروع کرنے کا سہرا مسلم شہنشاہ شیر شاہ سوری ہی کو جاتا ہے۔
انگریز حکومت کے خلاف بھارت کے مسلمان صوفی سنتوں نے ہی، انگریزوں کے اناج کے گودام لوٹ کر غریب بھارتیوں میں تقسیم کرتے ہوئے،1773 میں سب سے پہلی بغاوت کی ابتدا کی تھی جسے انگریز تاریخ دان اپنی کتابوں میں فقیر اینڈ سنیاسی ربللئین (بغاوت) کے نام سے یاد کرتے ہیں اور یہ فقیر سنیاسی والی بغاوت تقریبا 50 لمبے سال تک چلی تھی۔
1857 میں مسلم عالم دین علامہ فضل حق خیر آبادی نے، انگریزوں کے خلاف جہاد فرض ہونے کا فتوی دیتےہوئے، مسلمانوں کو بھارت کی آزادی کی عملی جدوجہد شروع کرنے پر اکسایا تھا۔جس کے چلتے شمالی ھند دیوبند کے علماء نے دیوبند سے دہلی آکر،اسے انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرایا تھا۔ جس پر اس وقت کا انگریز لیفٹینٹ جنرل جان ھیڈسن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ بڑی مشکل سے ہم نےبآغیوں کے قبضہ سے دہلی کو دوبارہ آزاد کرایا تھا ۔ انگلینڈ سے آئے ایک ٹیلگرامک خط میں، انگلینڈ والےبرطانوی سامراج نے قبول کیا تھا 1857 کا غدر یا جنگ آزادی ھند، دراصل علماء کرام کی آزادی ھند کی جدوجہد تھی۔

اس پر وہ بڑے فخر سے لکھتے ہیں کہ ہم نے اس وقت بغیر قانونی کاروائی کے دسیوں ہزار مسلمان عالموں کو، نہ صرف موت کے گھاٹ اتارا تھا بلکہ ان علماء دین کو دیوبند سے دہلی آنے والی شاہراہ کے دونوں طرف کے درختوں پر انہیں پھانسی دی تھی تاکہ انکی لٹکتی لاشوں کو دیکھ کر،بھارتی عوام آئیندہ انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے کی ہمت نہ کرپائیں۔ 1857 کی غدر کی پاداش میں جن 57،209 بھارتیوں کو مارا گیاتھا ان میں 27 یزار صرف علماء دین اسلام شہید کئے گئے تھے۔
تاریخی کی کتاب گرور اینڈ گرور میں، ویر ساورکر جان نکلسن کی کتاب کا حوالہ دیکر لکھتے ہیں، 1857 کی پہلی جنگ آزادی کا سب سے زیادہ اثر مسلم قوم کو 27 ہزآر علماء کرام کی شہادت اور بہادر شاہ ظفر کو انکی اسیری میں رہتے، ان پر کئے جانے والے ظلم کی صورت اٹھانا پڑا تھا۔ انکے اپنے دو بیٹے اور ایک پوتے کو شہید کر انکے تین سر ایک بڑی رکابی پلیٹ میں رکھ، لال مخمل کے کپڑے سے ڈھک کر، صبح ناشتے میں، والی ھند، بہادر شاہ ظفر کے سامنے ناشتے کے طور جب پیش کیا گیا تھا تو اس کے بعد سے بہادر شاہ ظفر نے، فرط غم میں ناشتہ کھانا تک چھوڑ دیا تھا۔ بیک جنبش قلم بہادر شاہ ظفر کو ، گر شہید کردیا جاتا تو بھارت کی عوام کی بغاوت کا خطرہ انگریز کو جو تھا، اس لئے طویل وقتی اثر انداز ہونے والازہر بہادر شاہ ظفر کو متواتر دیا جاتا رہا تاکہ وہ تل تل ٹڑپ،قدرتی موت مرجائیں، اسی لئے انگریز ڈاکٹر زہر آلود مرہم علاج کے بہانے،بہادر شاہ ظفر کی آنکھوں میں لگاتے تھے

جس سے انکی بینائی جاتی رہی، انہیں سازش کے تحت اندھا کرنے کا مقصد،انکے معذور ہونے کا بہانہ بنا، انہیں تاجدارِی بھارت سے بیگانہ کرنا جو تھا۔۔
بھارت کو فرنگی انگریزوں سے آزادی دلوانے 1790 انگریزوں سے حضرت ٹیپو سلطان کی شروع کی ہوئی آزادی ھند کی جنگ سے ان کی شہادت اور 1857 کی غدر، جنگ آزادی ھند کی آخری بغاوت تک، ہم بھارتیہ مسلمانوں کی شاندار تاریخ رہتے ہوئے بھی، اس وقت آزادی ھند کے ھیروز کی انگریزوں کو مخبری کرنے والے، انگریزوں کے وعدہ معاف گواہ، ویر ساورکر کے چیلے، اس وقت کے ھندو مہاسبھائی اور آج کے آرایس ایس بی جے پی والے، یہ سنگھی ہم 30 کروڑ بھارتیہ مسلمانوں سے، ہماری قربانیاں کیا ہیں پوچھتے ہیں؟ یہ آج کے سنگھی برہمن ہماری شاندار تاریخ سے، کیا واقف نہیں ہیں؟

یقینا وہ ہماری شاندار تاریخ کو اچھی طرح جانتے بوجھتے آج کی نئی ھبدو نسل کو بھارت کی اصل تاریخ آزادی ھند سے بیگانہ کرنے، ہم مسلمانوں کے خلاف بہکانے اور بھڑکانے کے لئے دانستہ تاریخ کو توڑ مروڑ ، اپنا جھوٹ مکرر بولے اور بکے جارہے ہیں ۔ لیکن اس دیش کے ہزاروں سیکیولر ذہن تاریخ دانوں کی لکھی تاریخ کی کتابیں ہی دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہم مسلمانوں کے آزادی ھند، ہماری قربانی کی داستانیں اور ان سنگھیوں کے انگریز کی وفاداری و آزادی بھارت کے تئیں غداری کی داستانیں، مستقبل کی نئی نسل برادران وطن کو باخبر کرنے کے لئے کافی ہیں ۔وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں