70

اندھیرے میں روشنی کی تلاش !

اندھیرے میں روشنی کی تلاش !

اس وقت ملک میں ایک طرف سیاسی افرا تفری ہے تو دوسری جب بڑھتی دہشت گردی ہے ، افغان سرزمین سے ہونے والی در اندازی نہ صرف ہماری سرحدی سلامتی کو چیلنج کر رہی ہے ،بلکہ ملک میں دہشت گردی کی لہر بھی اُٹھا رہی ہے ،اس فتنے کی لہر کے خلاف مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی ادارے پورے عزم کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں اور دہشت گردوں کی جانب سے دراندازی کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے کامیاب کارروائیاں کررہے ہیں،

پاک فوج کی جانب سے سرحدوں کی مؤثر حفاظت اور دہشت گردوں کا صفایا قومی سلامتی کیلئے بہت بڑا اقدام ہے۔اگر دیکھا جائے تو اگست 2021ء میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں توقع تھی کہ کابل حکومت اپنی زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس سامنے آئے ہیں،فتنہ الخوارج کے دہشت گرد افغان سرحدی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہوں سے نہ صرف منظم ہو رہے ہیں، بلکہ افغان سکیورٹی فورسز اور غیر ملکی افواج کے چھوڑے ہوئے

جدید اسلحے اور دیگر آلات کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشتگردی کی سنگین کارروائیوں میں ملوث ہیں،پاکستان نے متعدد بار افغان عبوری حکومت سے فتنہ الہندوستان کی سرگرمیاں ختم کرنے اور سرحد پار دہشت گردی روکنے کا مطالبہ کیا ہے ،لیکن کابل کی جانب سے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہ صورتحال پاکستان کیلئے کئی حوالوں سے خطرناک ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف گزشتہ دو دہائیوںمیں جو کامیابیاں حاصل کی گئیں ،وہ ضائع ہونے کا خدشہ ہے، ملک میںامن کی بحالی میں برسوں لگے تھے‘ لیکن اگر سرحدی دراندازی جاری رہی تو یہ ساری جدوجہد ضائع ہو سکتی ہے، دوسری بات ، پاکستان کی اقتصادی ترقی‘ غیر ملکی سرمایہ کاری اور سیاحت براہِ راست امن وامان کی صورتحال سے جڑی ہیں، اگر ملک دوبارہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آتا ہے تو اس کے اثرات معیشت پر تباہ کن ہوں گے ،

اس لیے پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے جامع حکمتِ عملی اختیار کرے ،اس صورتحال میں خیبر پختونخوا اور بلو چستان حکومت کی بھی اہم ذمہ داریاں ہے ،کیو نکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا ہی دہشت گردی کے براہِ راست نشانے پر ہیں‘ مگر دونوں ہی صوبائی حکومتوں کے رویے اور سکیورٹی چیلنجز کی جانب ان کے ردِعمل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
بلوچستان حکومت دہشت گردی کے خلاف قومی مؤقف کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے، جبکہ خیبر پختونخوا کی حکومت کا رویہ برعکس نظر آتا ہے‘ اس کے نتیجہ میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات متاثر ہو رہے ہیں،

سنگین نوعیت کے خطرات کے باوجود مسلح کارروائیوں کے خلاف سیاسی بیانیے کا سہارا لے کر رکاوٹیں پیدا کرنا ،اس کی ایک مثال ہے‘ اس کے نتیجے میں صرف دہشت گردوں کو فائدہ ہو رہا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی اور صوبائی سطح پر سیاسی اختلافِ رائے کو قومی مفادات کے آڑے نہ آنے دیا جائے، صوبے کی سکیورٹی کے معاملات کو سیاست سے بالاتر رکھا جائے اور وفاقی حکومت اور صوبہ اس معاملے میں ایک پیج پر ہوں تو افغان عبوری حکومت پر زور دینا زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے۔
اس وقت ملک متعدد اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے ، اس سے عہدہ برآ ہونے کیلئے سیاسی ماحول ساز گار ہو نا چاہئے ،لیکن یہ کیسے ہو پائے گا، جب تک کہ سیاسی قیادت ایک دوسرے سے متنفر رہے گی ،ایک دوسرے کو گرانے راستے سے ہٹانے میں ہی لگے رہے گی ،اس طرح سے انتشار کے شعلوں سے کوئی محفوظ رہ پائے گانہ ہی دہشت گر دی جیسا ناسور قابو ہو پائے گا ،یہ وقت پرانی باتیں بھلا کے مل کر آگے بڑھنے اور ایک نئے دور کے آغاز کا متقاضی ہے،کیا اہل سیاست کو کوئی بیٹھا پائے گا

اورمل بیٹھ کر اپنے معاملات سلجھا پائے گااور آگے بڑھنے کی کوئی راہ دکھا پائے گا ، یہ مشکل ضرور ہے ،مگر ناممکن نہیں ہے ، اس کیلئے اپنی ذاتیات کو چھوڑ کر قومی مفاد کو تر جیح دینا ہو گا ، جو کہ اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ پاکستان دہشت گردی جیسے سنگین مسئلے سے نبرد آزما ہے اور اگر آج بھی حکومت اور ریاستی اداروں نے اپنی ذمے داریوں کو سمجھ کر مؤثر اقدامات نہ کیے اور افغان دراندازی نہ روکی تو آنے والے وقت میں صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے، ریاست کو جہاں بیرونی در اندازی روکنا ہے ، وہاں اندرون ملک اپنی رِٹ کو بھی بحال کرنا ہے، اپنے عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائیاں بھی کرنا ہے،لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی ایک پُرامن اور محفوظ پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ یا پھر ہم ابھی تک صرف اندھیروں میں روشنی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں