کچھ یادیں۔ کچھ باتیں
جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی
٭سعادت حسن منٹو چند دوستوں کے ساتھ لکشمی چوک سے گزر رہے تھے۔ رتن سینما کے پاس ایک نوجوان نظرآ یا جو ریڑھی پرآم رکھے بیچ رہا تھا۔ چھیل چھبیلا خوبصورت۔۔ وہ چلتے چلتے ٹھٹھک کررہ گئے پھر اس کے۔ پاس پہنچ کر رک کر اسے بغور دیکھنے لگے۔ پھر نہ جانے کیا دل میں آئی اسے کہا یہ سارے آم تول دو وہ حیرانگی سے منٹو صاحب کو دیکھنے لگا ۔انہوں نے کہا دیکھ کیا رہے ہو آم تولو بھاؤ کیا نا تائو سب کے سب آم خرید لئے پیسے دینے بعد کہنے لگے برخوردار سیدھا گھر جانا ، پھر کہا رکو یار یہ دو روپے کی مٹھائء بھی لیتے جانا
ساتھی حیران تھے کہ منٹو کو کیا سوجھی کہ سارے آم خرید لئے اور ساتھ مٹھائی کے الگ سے پیسے بھی دے دئیے۔
آموں سے لدے لدائے منٹو صاحب جب چٹان کے آفس پہنچے تو ان کا سانس پھولا ہوا تھا ایک دوست نے پوچھا
آج یہ الٹی گنگا کیسی۔۔۔۔۔ انگور کی بیٹی کی جگہ آم کے بیٹے۔۔انہوںنے مسکراتے ہوئے ساتھ آنے والے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تم نے اس نوجوان کو غور سے دیکھا تھا
آنکھوں میں سرمہ، انگلی میں سونے کی انگوٹھی، ہاتھ پر تازہ تازہ مہندی
ارے پگلو نئی نئی شادی ہوئی ہے اسکی میں نے سوچا اس کے آم نہ جانے نے کب فروخت ہوں، میں نے بس یہی سوچ کر خرید لئے کہ وہ جلدی گھر چلا جائے تو نوبیاہتا دلہن خوش ہوجاے گی۔آج ہماری طرف سے ہی موج میلہ کر لے، موسم اچھا ہے کیا ہمیں یاد کرے گا۔ ساتھ آیا دوست منہ ہی منہ میں بڑبڑایا
ہائے رے منٹو۔۔صدقے تمہارے !۔۔۔تیریاں تو ہی جانے
٭ معروف شاعرامیر مینائی، حضرت داغ دہلوی کے ہم عصر تھے وہ ایک روز داغ سے کہنے لگے کہ یار میری شاعری میں وہ نزاکت ، چاشنی اور رومانوی اثر کیوں نہیں جو تمہاری شاعری میں ہے ؟
داغ نے برجستہ پوچھا حضرت کبھی میخانے کا رخ کیا۔؟
امیر مینائی بولے، لا حول ولا قوۃ حضرت معاف کیجئے یہ کیا سوال ہوا۔؟
داغ نے پھر سوال داغا، کبھی کسی حسینہ کی محفل میں جا کر گانا سنا؟
توبہ توبہ کیجئے داغ صاحب یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ امیر مینائی بولے،
داغ نے آخری سوال پوچھا، کبھی رقص کی محفل میں جانا ہْوا؟
امیر مینائی نے لاحول پڑھ کر انکار میں سر ہلایا۔
داغ بولے آپ صرف بیوی کو دیکھ کر شاعری کریں گے تو میاں پھر رومانوی اثر ، نزاکت اور چاشنی بھی ویسی ہی ہو گی۔
٭منو بھائی کہتے ہیںفیض صاحب نے مجھ سے پوچھا: تم نے کبھی اردو میں لکھا؟
میں نے جواب دیا: ’جی کوشش کی تھی لکھ نہیں سکا۔ اردو میں نثر تو لکھی ہے نظم نہیں لکھ سکا‘۔
تو انہوں نے پوچھا کہ تم خواب کس زبان میں دیکھتے ہو؟
میں نے کہا: ’جی میں خواب پنجابی میں دیکھتا ہوں‘۔
کہنے لگے ’نظم بھی اسی زبان میں کہنی چاہیے جس میں آدمی خواب دیکھتا ہے‘۔
٭ فیض احمدفیض سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی شاعری کے لئے پنجابی کی بجائے اردو کا انتخاب کیوں کیا تو انہوں نے جواب دیا، میں نے اردو زبان کو اس لئے چنا اپنی شاعری کے لئے کہ اگر ساری زندگی لکھتا رہا
تو شاید غالب اور اقبال جیسے شعرا کی صف میں اپنا کچھ مقام بنا سکوں مگر پنجابی زبان میں جو کچھ وارثؒ شاہ، بلھےؒ شاہ، سلطان باہوؒ اور بابا فریدؒ لکھ گئے ہیں ایک کیا، اپنے دو چار جنموں میں بھی ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں چھو سکتا۔
٭ذوالفقارعلی بھٹو فرانس کے دورے پر گئے تو صدر اسکارڈ اسٹینگ نے پیرس کے مضافات میں اپنے فارم ہاوس پر انکے اعزاز میں نجی طورپر عشائیہ کا انتظام کیا جس میں دونوں سربراہوں کے خاندانوں سمیت چند دوسرے قریبی احباب شریک تھے. یہ ورکنگ ڈنر کے بجائے ایک فیملی گیٹ ٹو گیدر تھی جس کا مقصد تفریح اور خاندانوں کے درمیان روابط پیدا کرنا تھا. کھانے کے بعد اسٹینگ اور بھٹو فارم ہاؤس میں چہل قدمی کے لئے نکلے تو راستے میں جگہ جگہ بتیاں روشن دیکھ کر بھٹو صاحب نے کہا ؛ جناب صدر آپ کے ملک میں بجلی وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے. مضافات جگمگ جگمگ کررہے ہیں صدر اسکارڈاسٹینگ نے کہا ہاں ہم پن بجلی کے ساتھ ساتھ ایٹمی بجلی بھی پیدا کر رہے ہیں بجلی وافر ہے لیکن ابھی تک ان مضافات میں بجلی نہیں پہنچا سکے . یہاں ایک جنریٹر کی مدد سے بجلی پیدا کی جاتی ہے
ان دنوں جنریٹر عام نہیں تھے.
بھٹو صاحب نے دیکھنے کا اشتیاق ظاہر کیا
صدر انہیں لے کر جنریٹر روم میں چلے گئے
جو اتفاق سے قریب ہی بنا ہوا تھا
بھٹو صاحب نے جنریٹر کو بڑی دلچسپی سے دیکھا
نیز اس کی کارکردگی اور انجن کے بارے میں سوالات پوچھے جو آپریٹر نے انہیں بریف کیا.
اس مشین میں بھٹو صاحب کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اسٹینگ نے کہا جناب وزیراعظم ایسا ہی ایک جنریٹر آپ کے ساتھ پاکستان جائے گا جو میری فیملی کی طرف سے آپکی فیملی کے لئے چھوٹا سا تحفہ ہوگا، قبول کیجئے گا
بھٹو مسکرائے، گرمجوشی سے شکریہ ادا کیا اور دھیرے سے بولے جناب صدر میں ایک غریب ملک کا وزیراعظم ہوں. میرے ملک میں بجلی کی بہت کمی ہے. بجلی نہ ہونے کی وجہ سے انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے. روشنی کی کمی کی وجہ سے بہت سے طالب علم تعلیم حاصل کرنے سے رہ جاتے ہیں، مریضوں کا بر وقت آپریشن نہ ہونے سے اکثر وفات پا جاتے ہیں ٹیوب ویل نہ چلنے سے فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں. ایسے میں اگر میرے گھر میں آپ کے دیئے ہوئے تحفے سے روشنی ہوگی تو یہ میرے عوام کے ساتھ سخت زیادتی ہوگی۔صدر اسکارڈ اسٹینگ نے چلتے چلتے رک کے حیرت بھری نظروں سے انہیں دیکھا
اور فرط عقیدت سے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کانپتی آواز میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا؛ جنابِ وزیراعظم بتائیں میں آپ کے ملک کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ بھٹو نے دوسرا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھا، گہری نظروں سے انہیں دیکھا اور بولے؛ جنابِ صدر ایک ایٹمی ریکٹر میرے ملک میں لگا دیجئے جو پورے ملک میں بجلی کی کمی کو پوری کر سکے۔
صدر اسکارڈ اسٹینگ رکا چند لمحے سوچا اور پھر دھیرے سے بولا… جناب وزیراعظم یہ ایٹمی ریکٹر.. فرانسیسی عوام کی طرف سے پاکستانی عوام کی زندگی میں روشنی لانے کا استعارہ ہو گا…
دوسری صبح جو پہلا کام ہوا وہ اسی منصوبے کے معاہدے پر دستخط تھے . اور یہ ایٹمی بجلی گھر بھٹو نے ایک ذاتی جنریٹر کے بدلے میں لیا تھا جو آج بھی کراچی میں کام کر رہا ہے ۔
٭ معروف عرب مفکر و دانشور قاسم حدرج کا کہناہے
امریکہ نے ایک گولی چلائے بغیر عمران خان کو ہٹا دیا جب کہ یوکرائنی صدر زیلنسکی کو روس ایک مہینے سے جدید اور مہلک ترین ہتھیاروں کے استعمال کے بعد بھی نہیں ہٹا پایا ہے۔ بات یہ نہیں کہ امریکہ طاقتور اور روس کمزور ہے یا پھر عمران خان کمزور اور زیلنسکی طاقتور ہے بات مگر یہ ہے کہ اسلامی ملکوں کے غدار زیادہ مخلص ہیں وہ پوری ایمانداری سے امریکہ کے لئے کام کر رہے ہیں۔
٭جمیل الدین عالی اخبار جنگ میں ایک مقبول کالم ” نقار خانے میں” لکھا کرتے تھے ایک مرتبہ اس کالم میں انہوں نے ابن انشاء کے متعلق ایک واقعہ تحریر کیا۔ ” انشاء جی کے آخری ایام میں کینسر کے مرض کے علاج کے سلسلے میں ان کے ساتھ راولپنڈی کے CMH میں گیا تو انہیں وہاں داخل کر لیا اور ٹیسٹوں کے بعد ہمیں بتایا کہ کینسر پھیل گیا ہے اور اب تھوڑے دن کی بات رہ گئی ہے کیوں کہ علاج کافی وقت سے چل رہا تھا ہم کئی بار یہاں آ چکے تھے
شام کے وقت ہم دونوں ہسپتال کے اپنے کمرے میں باتیں کر رہے تھے کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو میرے سامنے ایک بہت ہی حسین وخوبصورت خاتون ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لئے کھڑی مْسکرا رہی تھیں، کہنے انشاء جی سے ملنا ہے، میں انہیں کمرے میں لے آیا
محترمہ نے گلدستہ انشاء جی کے ہاتھ میں دیا اور رونا شروع کر دیا اور کہا کہ انشاء جی میں آپ کی فین ہوں اور آپ میرے آئیڈیل ہیں مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کا کینسر پھیل گیا ہے اور آخری اسٹیج پر ہے
میں اللہ سے دْعا گو ہوں کہ وہ میری زندگی کے پانچ سال آپ کو دے دے میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں میں اپنی ساری زندگی آپ کو دے دیتی لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میرے چھوٹے چھوٹے دو بچے ہیں جن کو مجھے پالنا ہے میں پھر بھی سچے دل سے پانچ سال آپ کو دے رہی ہوں ۔
انشاء جی اْس کی اس بات پر زور سے ہنسے اور کہا، ارے ایسی کوئی بات نہیں ہے میں ٹھیک ہوں خاتون تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھنے کے بعد چلی گئی اس کے جانے کے بعد بعد انشاء جی رونے لگ گئے اور کہا کہ دیکھو جمیل الدین یہ میری فین ہے اور دو بچوں کی ماں بھی ہے اور مجھے اپنی زندگی کے پانچ سال دینا چاہتی ہے اس کو کیا پتہ کہ ایک دن بھی کتنا قیمتی ہوتا ہے میرا تو وقت آ گیا ہے اللہ اسے اپنے بچوں میں خوش وخرم رکھے۔
میں خود اتنا افسردہ تھا کہ کچھ نہ کہہ سکا. اْس رات انشاء کے ساتھ ہسپتال میں رہا اور اگلے روز میں نے دو دن کی اجازت لی کہ میں اپنے عزیزوں سے مل آؤں جو کہ پنڈی میں رہتے تھے
میں دو روز بعد واپس آیا تو انشاء نے مجھے اپنی تازہ نظم
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی، اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
رو رو کر سنائی جس میں اْس خاتون کے پانچ سالوں کا ذکر بھی کیا ہے”
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
اب ہم کو ا دھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال ،مہینے، دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
ہاں اپنی جا ں کے خزانے سے
ہاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں؟
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں؟
جب نام ادھار کا آیا ہے
کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں
ہم مانگتے نہیں ہزا ر برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں ،سود بیا ج بھی دے لیں گے
ہاں اور خرا ج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے
کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے
کیوں ا س مجمع میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو ؟ کچھ لاتی ہو
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
سب عمر کی نقدی ختم کیے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
اب گیت گیا سنگیت گیا
ہاں شعر کا موسم بیت گیا
اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں، کچھ را ت گریں
یہ اپنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہاں عمر کے ماہ و سال بہت
ان سب کو ہم نے بلایا ہے
اور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاؤ ا ن سے بات کریں
ہم تم سے نا ملاقات کریں
کیا پانچ برس ؟
کیا عمر ا پنی کے پانچ برس ؟
تم جا ن کی تھیلی لائی ہو ؟
کیا پاگل ہو ؟ سو دائی ہو ؟
جب عمر کا آ خر آتا ہے
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس نرالی ہے
ہے کون جو ا س سے خالی ہے
کسی اور خراج کا لالچ ہے ؟
تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو ؛
تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس، یہ چار برس
چھن جائیں تو لگیں ہزار برس
سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہو کار ، گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
یہ کون ہے ؟ کیا ہے ؟ کیسی ہے ؟
ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ؟
ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں
گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں
ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے
جو ساعت و ماہ و سال نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
لو ا پنے جی میں اتار لیا
لو ہم نے تم سے ادھار لیا…!!!