تحریر:نعیم الحسن نعیم. 186

“بلوچستان کی شیتل ہار گئی پگڑیاں جیت گئیں”

“بلوچستان کی شیتل ہار گئی پگڑیاں جیت گئیں”

تحریر:نعیم الحسن نعیم.

بلوچستان کے پہاڑ جہاں ناانصافی، لوٹ کھسوٹ اور استحصال کی انواع واقسام کہانیوں کے امیں ہیں، وہاں یہ پہاڑ صدیوں سے سماجی جبر اور قبائلی انصاف و روایات کے نام پر سینکڑوں معصوم انسانوں کی چیخ وپکار اور ان کا ناحق خون بہنے کے بھی گواہ رہے ہیں. شیتل اور احسان کا خون ان پہاڑوں کے سینے میں دفن ایک اور مکروہ واردات ہے، جو کہ سماجی جمود، جبر، فرسودہ نظام، قبائلی روایات اور رسومات سمیت مروجہ ریاستی قوانین کے کمزور ترین اور نچھلے درجے کے اطلاق کا نتیجہ ہیں

.پہلی بات یہ کہ جس ملک میں ایک آئین، فوجداری قوانین، کورٹس ،پولیس اور کئی رنگوں کی یونیفارم میں ملبوس قانون نافظ کرنے والے ادارے ہوں، وہاں قبائلی روایات ،جرگے اور فرد یا افراد کو قتل کرنے کے فیصلے صادر کرنا کس قانون اور کس قبائلی روایت کا حصہ ہے؟ایک بالغ جوڑے نے اپنی مرضی سے شرعی اور ملکی قوانیں کے تحت ایک دوسرے کو زندگیوں میں داخل کیا تو ،اس عمل سے کون سا قبائلی قانون اور عزت مجروح ہوئی؟”کہا جا رہا ہے کے شیتل نے موت کو قبول کرکے کون سی بغاوت کا الم بلند کیا ہے؟

اسے تو مارنے والے مردوں پر تھوکنا چاہیے تھا، پتھر پھینکنے چاہیے تھے، وہ تو خاموشی سے گولی کھا کر مر گئی، اس کو گلوریفاء کیوں کیا جا رہا ہے؟ مجھے پتہ نہیں بچاری شیتل نے اپنے پہاڑی گاؤ‌ں سے باہر کتنی دنیا دیکھی تھی،اس کی زندگی میں برسوں سے گاؤں کے مُعذن اور کسی چرند پرند کی آوازوں کے بعد شاید تازہ ترین بیرونی آواز موبائیل یا ٹی وی کی ہوگی.وہ کسی مارکسی اسکول یا اسٹڈی سرکل میں بغاوت سیکھنے نہیں گئی تھی

اور نا ہی نیٹ فلیکس پر چی گویرا کی فلمیں دیکھیں تھیں کہ وہ قبائلی بندوقبازوں سے بھڑ جاتی.یہ بغاوت کیلئے کیا کم تھا کہ اپنے بھائیوں اور دیگر بندوق بازوں کے درمیان نہتی لڑکی جس کو پتہ تھا کہ اس کے خوں کے رشتے اگلے لمحے اس کا خون کرنے والے ہیں، وہاں یہ کہنا کہ “تم صرف گولی چلا سکتے ہو” ،کیا کسی بغاوت سے کم ہے؟
منظر کچھ یوں تھا کہ بلوچستان کے سنگلاخ،
خشک پہاڑوں کے درمیان چند گاڑیاں کھڑی تھیں۔ درجنوں مسلح مردوں کے بیچ ایک نہتی لڑکی پورے حواس کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس کا جرم تھا پسند کی شادی کرنا۔ ہجوم نے اُس کے قتل کا فیصلہ سنا دیا تھا.موت کو سامنے دیکھ کر بھی اُس کی آنکھ نہ بھیگی، اُس کے ہونٹوں سے کوئی چیخ نہ نکلی، اُس نے نہ زندگی کی بھیک مانگی، نہ خوف دکھایا۔ وہ مضبوط قدموں سے آگے بڑھی،اُس کے پاؤں ذرا نہ لڑکھڑائے۔ اپنی ہی مرضی سے قتل گاہ کی طرف بڑھتے ہوئے اُس نے کہا:
“سم نا اجازت اے نمے بین ہچ اف”
یعنی تمہیں صرف گولی چلانے کی اجازت ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔
اُسے ذرا آگے لے جایا گیا۔ایک باریش شخص نے مجمعے کو، جو موبائل فون نکال کر ویڈیو بنا رہا تھا،انگلی ہونٹوں پر رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کیا۔پھر ایک دوسرا آدمی بلند آواز میں گولی چلانے کا حکم دیتا ہے۔ بندوقیں اٹھتی ہیں،فائر کھلتا ہے۔گولیاں لگنے کے باوجود وہ چند لمحے اپنی جگہ کھڑی رہتی ہے۔پھر جب اُس کی سانس ٹوٹتی ہے تو وہ بنجر زمین پر گرتی ہے اور وہ سنگلاخ زمین اُس کے خون سے تر ہو جاتی ہے۔
اُس قتل گاہ سے کسی نے کہا کہ اُس کے ہاتھ سے قرآن چھین لو۔ قرآن اُس کے ہاتھ سے چھین تو لیا گیا، مگر کاش اُسی قرآن کو چند لمحے پڑھ کر سمجھ لیتے، تو شاید وہ خدا کی زمین پر دو انسانوں کو صرف اپنی مرضی سے شادی کرنے کے جرم میں یوں موت کے گھاٹ نہ اتارتے..اس نے اپنی مرضی سے شادی کی لیکن ایک عورت تھی. مردوں کے معاشرے سے بغاوت کے جرم میں پکڑی گئی۔مقتل تک اپنے قدموں سے آئی۔صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے،اس نے چادر کے نیچے پکڑے ہوئے قرآن کو قاتلوں کے گروہ کے حوالے کیا،

جس میں اس کا باپ، بھائی اور قریبی رشتے دار شامل تھے۔ اس نے کسی کے چہرے پر پیار بھری آخری نظر نہیں ڈالی، تاکہ ان کو خجالت کا احساس نہ ہو۔ وہ کسی کے گلے لگ کر روئی نہ کسی کو خدا حافظ کہا۔سر اٹھا کر بندوقوں کے باڑ کے سامنے کھڑی ہوگئی۔قاتل ان کے پیچھے اپنی بندوقیں لیے کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے اسے کہا کہ تھوڑا آگے کھڑی ہو جائے۔اس نے مڑے بغیر کہہ دیا کہ صرف گولی مارنے کا حق ہے۔وہ آخری گولی لگنے تک اپنا باغی سر اٹھائے کھڑی تھی۔ نام اس کا شیتل تھا لیکن وہ مظبوط اعصاب کی بہادر باغی لڑکی تھی۔اسے بغاوت کرنے کا حق تھا جو اس نے استعمال کیا،

اگر اس کے ساتھ لڑنے اور اپنے پیار کو بچانے اور اس کی خاطر لڑنے کا حق ہوتا تو لڑ لڑ کر مرتی۔لیکن قاتل اس کے بھائی باپ اور رشہ دار تھے،اس لیے اس نے سر اٹھا کر ان پر اچٹتی نظر ڈالنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔بلوچستان سانحہ میں شیتل کو تو سب نے سوشل میڈیا پر ویڈیو میں دیکھ لیا مگر اسکے شوہر محافظ زرک کو کسی نے اہمیت نہیں.واقعہ میں کہانی کے پہلے کردار ایک لڑکے کو بھی سفاکانہ ظالمانہ انداز میں قتل کیا گیا لیکن پوری داستان میں اسکا ذکر کہیں بھی نہیں بلکہ اس بےچارے کو تو بار بار اذیت دے کر مارا گیا.غیرت مند کون
ایک جوڑے نے پسند کی شادی کی نکاح کیا اور اس تعلق کو حلال بنایا۔جرگے والوں نے دھوکا کیا اور انہیں راضی نامے کے بہانے اپنے گھر دعوت پر بلایا۔انہوں نے بندوق اٹھائی تو ایک نہتی لڑکی نے اس کے مقابلے میں قرآن پاک اٹھا دیا.
انہوں نے اپنی ضد انا نام نہاد غیرت اور بدمعاشی کے قانون کو اپنایا۔لیکن اس جوڑے نے سماج انصاف اور قران پاک کو اپنا ضامن بنایا ہے۔انہوں نے اپنی طاقت اور بدمعاشی کے بل بوتے پر اس سے مارنے کے لیے ویرانے میں لے گے۔لیکن اس کے غیرت مند شوہر نے کسی غیر کو اپنی بیوی کو ہاتھ لگانے سے انکار کردیا.زرک نے کہا کہ میری بیوی کو گولی تو چھو سکتی ہے لیکن کسی غیر مرد کا ہاتھ نہیں لگ سکتا۔اب بتا غیرت مند وڈیرے ہے یا وہ مرد زرک جس نے پسند کی شادی کی۔
موت کی طرف جاتے ہوئے دونوں کے قدم نہیں لڑکھڑائے شیتل زرق سے آگے تھی تو زرک ایک محافظ کی طرح شیتل کے اطراف میں گھوم رہا تھا۔
درجنوں نام نہاد غیرت مندوں کے درمیان لوگوں کے سامنے زرک نے نہ تو کسی کو گالی دینے دی اور نہ ہی شیتل کو ہاتھ لگانے دیا.وہ نہ تو کسی کے قدموں میں گرے۔نہ ہی بھاگے اور نہ ہی چلائے۔۔اور نہ ہی زندگی کی بھیک مانگی
بلکہ سینے پر گولی کھانے کا انتظار کیا انکی سفاکی جہالت اور بے غیرتی کو دنیا کا کوئی بھی قانون ” غیرت ” قرار نہیں دے سکتا۔اب بتاو غیرت مند وڈیرے یا پسند کی شادی کرنے والا جوڑا۔کیا غیرت صرف لڑکیوں کے لیے رکھی گئی ہے؟
اور کیا قرآن پاک ہاتھ میں لینے والی لڑکی “بے غیرت” تھی،یا وہ مرد جو خون کے پیاسے بن گئے تھے؟تاریخ کی کتابوں میں ہم نے پڑھا تھا کہ کچھ لوگ پھانسی کا پھندا چوم کر موت کو گلے لگاتے ہیں۔مگر آج پہلی بار، میری آنکھوں نے خود دیکھا شاید تاریخ کے کسی کونے میں زندہ ہونے والا لمحہ سوشل میڈیا کی ایک ویڈیو میں،جب بلوچستان کے پہاڑوں میں ایک نہتی لڑکی پہ خونخوار مردوں کے جتھے میں گھری ہوئی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی تھی۔
وہ چادر سنبھال رہی تھی، جیسے اپنی عزت کی آخری سانس تک حفاظت کرنا اس کا فرض ہو۔اُس کی باڈی لینگویج بتا رہی تھی کہ وہ زندگی کی بھیک نہیں مانگے گی۔وہ خوفزدہ نہیں تھی،نہ ہی جھکی۔وہ گویا اپنے قاتلوں کو ہی ننگا کر رہی تھی ان کی نام نہاد غیرت،ان کی جھوٹی طاقت،ان کے ان کے ظلم۔
شیتل مر گئی۔
لیکن اُس کے ساتھ ہی وہ پگڑیاں بھی زمین پر گر گئیں، جو غیرت کے نام پر بلند تھیں۔ وہ ٹوپیاں بھی اتر گئیں.جن کے نیچے چھپ کر مردوں نے عورت کی آواز کو دفن کیا تھا۔یہ قتل صرف شیتل کا نہیں تھا،یہ ایک نظریے کا قتل تھا کہ کمزور کی کوئی آواز نہیں،اور طاقتور کی غیرت سب پر بھاری ہے۔شیتل چلی گئی۔لیکن وہ سوال چھوڑ گئی جو صحافی،سیاست دان، اور سماج سب سے آنکھیں چرا رہے ہیںکیا ہم شیتل کے ساتھ کھڑے ہوں گے،یا پھر ہمیشہ طاقتوروں کی محفلوں میں تالیاں بجاتے رہیں گے؟
بلھے نے کیا خوب کہا ہے
“عشق نہ ڈردا موت کولوں،
بھاویں سولی چڑھڑا پئے جاوے”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں