61

حتمی فیصلہ عوام ہی کرتے ہیں !

حتمی فیصلہ عوام ہی کرتے ہیں !

ملک میں ایک طرف مائنس پلس کی سیاست جاری ہے تو دوسری جانب پارلیمانی نظام کو ختم کرکے صدارتی نظام کی طرف پیش قدمی کی جا رہی ہے،یہ تمام باتیں پاکستان کے سیاسی ماحول میں غیر یقینی صورتحال اور طاقت کے غیر روایتی مراکز کے کردار پر نئی بحث چھیڑ چکی ہیں،اس پر وزیر داخلہ کی وضاحت اپنی جگہ، مگر سوال یہ ہے کہ ایسی مہم شروع ہی کیوں ہوئی ہے اور کیوں کچھ با اثر حلقے بار بار تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں

کہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ غیر مستحکم ہو چکا ہے؟ ایسے ماحول میں صدر زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات اور اس میں ’’مل کر کام کرنے کے عزم‘‘ کا اعادہ محض رسمی بات نہیں ہے، بلکہ اُن قتوں کیلئے بھی ایک سیاسی پیغام ہے، جوکہ پارلیمانی نظام کو غیر موثر سمجھتے ہوئے کسی نئی ’ترتیب‘ کی کوشش میں ہیں،کیا اس سے نئی ترتیب رک پائے گی یاحکومت ایک پیچ سے ہی سرک جائے گی ؟
یہ اس وقت کا بڑاہی اہم سوال ہے ، اس کا ہر کوئی جواب بڑاہی گول مول دینے کی کوشش کررہا ہے ، حالانکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس ملک میں اہل سیاست کو اقتدار میں لانے والے اور انہیں دو تھائی اکسریت دلانے والے ،ہر ایک کے ساتھ دو اڈھائی سال ہی نکال پاتے ہیں ،اس کے بعد ان میں ساری برائیاں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں ،اس حکو مت کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہونے جارہا ہے ، اتحادی حکو مت ساری فرمابرداری کے باوجود ایسے رزلٹ نہیں دیے پارہی ہے کہ جس کی توقع کی جارہی تھی ، اس لیے ہی کبھی اپنے سیاسی تر جمان فیصل واڈاسے کہلوایا جارہا ہے تو کبھی وزیر داخلہ کی تردی سے باور کروایا جارہا ہے

کہ حکومت ان کے معیار پر پوری نہیں اُتر رہی ہے ، حکو مت جتنا کچھ مرضی کر لے ، اس حکو مت کو وہی کچھ بھگتنا ہی پڑے گا ،جوکہ دوسروں کے ساتھ کر کے آئی ہے ، اس حکو مت نے اپنے ماضی سے سبق نہیں سکھا کہ جیساکرو گے ویسا ہی بھرو گے ،اس حکو مت کے اتحادیوں نے پہلے ایک دوسرے کے ساتھ ایسا ہی کچھ کیا اور پھر اسے بھگتا اور اس بار تحریک انصاف کے ساتھ کرکے بھگتیں گے ۔
اہل سیاست اور اہل ریاست نے اپنی کوتاہیوں کا آزالہ کر نے اور اس سے سبق سیکھنے کے بجائے سہرانے کی قسم کھارکھی ہے ،اس لیے ہی اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو بار بار دہرایا جارہا ہے ،اس کے بعد مانا بھی نہیں جارہا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیاں دہرارہے ہیں ،بلکہ بابانگ دہل اعلان کیا جارہا ہے کہ ہم جمہوریت میں ایک ہائبرڈ نظام کے ساتھ چل رہے ہین ،جوکہ اس وقت کی اہم ضرورت ہے ، کیا اس سے قبل بار بار ہائبرڈ نظام کے ساتھ چل کر نہیں دکھا گیا ہے ،اس سے قبل مانا نہیں جارہا تھا ،اس بار علا عنانیہ مانا جارہا ہے

،یہ ٓزمائے لوگوں کے ساتھ ازمائے فار مولوں سے کچھ بدلنے والا ہے نہ ہی کچھ بدلے گا ،یہ پہلے بھی اپنے مفاد میں کیا جاتا رہا ہے ،اس بار بھی کیا جارہا ہے، لیکن اس کا نقصان ملک عوام کو اٹھانا پڑا ہے ، اس بار بھی ملک و عوام ہی اُٹھائیں گے اور نقسان دینے والے بیرون ملک چلے جائیں گے۔
اس وقت ملک ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ جہاں سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی نے عوام کی زندگی انتہائی اجیرن کر دی ہے ،مگر کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے ،مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے، اور بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں،پٹرول، ڈیزل کی بار بار بڑھتی قیمت نے ہر شخص کو متاثر کررکھاہے،

جب کہ وزیر اعظم سب کچھ ٹھیک کا راگ الاپتے ہوئے معیشت کی گروتھ بہتر ہونے کی گردارن کر رہے ہیں، جبکہ حقائق بالکل ہی مختلف ہیں ،عوام بڑھتی مہنگائی اور بے روز گاری کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں اور حکو مت سب اچھے کی ا ٓواز لگائے جارہی ہے ، جبکہ اپوزیشن عوام کی آواز کے ساتھ آواز ملانے کے بجائے حکو مت کا ہی ساتھ دیے رہی ہے ،ہر موقع پر حکومت کی ہاں میں ہاں ملائے جارہی ہے اور عوام کو بے وقوف بنائے جارہی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو حکومت اور اپوزیشن نے مل کر عوام کو ایک ایسے شیطانی چکر میں پھنسا دیا ہے کہ جس سے عوام نکل ہی نہیں پا رہے ہیں ،اس کا مشاہدہ ہر پا کستانی کر رہا ہے کہ جب بات تنخواہوں اور مرعات میں اضافے یا سینیٹ کی نشستوں کی آتی ہے تو تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر نظر آتی ہیں، ان کے مفادات یکجا ہو جاتے ہیں اور وہ متحد ہو کر اپنے لیے فیصلے کرتی ہیں،لیکن جب بات عوام کے مسائل، جیسے بجلی، گیس، پٹرول او ر آٹے ، چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا معاملہ آتا ہے

تو یہی جماعتیں بکھر جاتی ہیں اور ہر کوئی اپنی ذمے داری سے مبرا نظر آتا ہے ،یہ دوہرا معیار عوام کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے اور اس سے سیاسی و ہائبرڈ نظام پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو رہا ہے، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے ، عوام کو اتنا مجبور بھی نہ کیا جائے کہ عوام ویسا ہی کچھ کر گزریں کہ جس کی توقع عوام سے نہیں کی جارہی ہے ، کیو نکہ حتمی فیصلہ تو عوام ہی کرتے ہیں۔!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں