46

ابراہیم معاہدوں کی حقیقت

ابراہیم معاہدوں کی حقیقت

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

کئی سال پہلے سوشل میڈیا پر ایک شوشا چھوڑا گیا کہ تین بڑے الہامی مذاہب اسلام ، عیسائیت اور یہودیت میں سے منتخب احکامات لے کر ایک نیا مذہب ابراہیمی تشکیل دیا جارہاہے ایسے شوشے عموـماً رائے عامہ کا ذہن بنانے یا ان کا ردِ عمل جاننے کے لئے چھوڑے جاتے ہیں نئے مذہب کا نام ابراہیمی رکھنے کا پس منظر یہ تھا اسلام ، عیسائیت اور یہودیت تینوں مذاہب حضرت ابراہیم علیہ اسلام سے گہری عقیدت رکھتے ہیں تینوں آل ِ ابراہیم ہیں پھر شاید فیصلہ سازوں نے سوچا ابراہیمی مذہب کے خلاف کہیں مزاحمت شروع ہو جائے جس سے ہمارے اصل مقاصد پر گہری ضرب لگے گی انہوں نے مقاصد تو وہی رکھے لیکن پلان تبدیل کرکے اسے ابراہیم معاہدہAbraham Accords قراردے دیا اس ساری Thinking کے پیچھے بظاہر معصوم دکھائی دینے والے امریکی صدر ٹرمپ کا شیطانی ذہن کا رفرما تھا

ابراہیم معاہدے کا تصور رونالڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور ّ حکومت میں پیش کیا اسے ایک قسم کا New Wold Order بھی کہا جاسکتاہے ایسے ہی ایک نئے عالمی نظام کا تصور برطانیہ نے دوسری جنگ ِ عظیم سے پہلے پیش کیا تھا جس کے نتیجہ میں مسلمانوںکی 3بر اعظموںپر پھیلی عظیم الشان عثمانی سلطنت ٹوٹ گئی اس میں کوئی شک نہیں کہ خلافت ِ عثمانیہ کے دور میں پوری دنیا کے مسلمانوںکے دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے یہی اسلا م دشمنوںکو گوارا نہیں تھا بہرحال خلافت ِ عثمانیہ کے بطن سے50 سے زائد اسلامی ملکوں نے جنم لیا برطانیہ کے نئے عالمی نظام کی ریشہ دوانیاں ہوں یا پھر ابراہیم معاہدہ Abraham Accords ان دونوںکا مقصد اسرائیل کا تحفظ تھا اورہے۔ برطانیہ کے نئے عالمی نظام کی بدولت اسرائیل کا قیام ممکن ہوا اور ٹرمپ کے ابراہیم معاہدوں کا مقصد اسرائیل کا مکمل تحفظ ہے

اصل پلان یہ ہے کہ غزہ کے22لاکھ فلسطینیوں کا انخلا کرکے انہیںلیبیا کے گردو نواح میں ایک ریاست کے طور پربسایا جائے گا جس کے لئے بڑی تیزی کے ساتھ کام ہورہاہے بظاہر تو یہ ظاہرکیا جارہاہے ابراہیم معاہدے معمول کے معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے جس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کا قیام ہے کیونکہ فلسطین کے برطانوی مینڈیٹ کی تقسیم کے خلاف احتجاجاً عرب ممالک نے 1948 میں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ 1967 میں عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ اور 1973 میں2یوم کپور جنگ کے بعد مصر حالات سے دلبرادشتہ ہوگیا تھا اس نے جائزہ لیتے ہوئے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت 1979 میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا اس طرح وہ اسرائیل سے امن معاہدہ کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا یہ الگ بات کہ مصری صدر انور السادات کو اس کا خمیازہ اپنے خون سے ادا کرنا پڑا انہیں اس وقت محافظین نے گولیوںکا نشانہ بناڈالا جب وہ مسلح افواج سے سلامی لے رہے تھے

۔ اسرائیل نے بعد میں 1993 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے ساتھ دو ریاستی حل پر اتفاق کرتے ہوئے معاہدہ کرلیا جو مو ثرٔ ثابت نہیں ہوا اور اس کے نتیجے میں اردن نے اسرائیل کے ساتھ 1994 میں امن معاہدہ کرلیا امریکی صدر ٹرمپ کے پہلے دور ِ حکومت کے دوران 2020 میںAbraham Accords کے تحت اسرائیل اور کئی عرب ممالک، خاص طور پر متحدہ عرب امارات، بحرین اور بعد میں مراکش کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے اور ان ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ ان معاہدوں کا مقصد تعاون اور مکالمے کو فروغ دے کر، عوام سے عوام کے تبادلے کو بڑھا کر، اور اقتصادی شراکت داری کو آسان بنا کر مشرق وسطیٰ میں امن، سلامتی اور خوشحالی کو فروغ دینا ہے۔

ابراہیمی معاہدے کے اہم نکات میںتعلقات کو معمول پر لاناہے معاہدوں کا بنیادی مقصد اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان سفارتی تعلقات کا قیام ہے جنہوں نے پہلے اس ملک کو تسلیم نہیں کیا تھا جبکہ اقتصادی تعاون کے تحت معاہدے اسرائیل اور دستخط کنندہ ممالک کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری اور سیاحت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، جس کا مقصد اسرائیل کو وسیع علاقائی معیشت میں ضم کرنا ہے ان معاہدوں کے تحت لوگوں سے ایک دوسرے ممالک کے لئے سفری پابندیاں نرم کردی جائیں گی وفود کے تبادلے کرنے میں آسانی ہوگی یہ معاہدے ثقافتی اور تعلیمی تبادلے، سیاحت اور براہ راست پروازوں کو فروغ دیتے ہیں

تاکہ افہام و تفہیم کو فروغ دیا جا سکے اور اسرائیلیوں اور عربوں کے درمیان دیرینہ رکاوٹوں کو ختم کیا جا سکے سب سے بڑھ کرعلاقائی استحکام پیداہوگا ان معاہدوں کا مقصد باہمی کشیدگی کو کم کرنا، مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے اور مشرق وسطیٰ میں زیادہ مستحکم اور تعاون پر مبنی ماحول پیدا کرنا ہے۔ معاہدوں میں سائنس، طب اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں مشترکہ مفادات پر زور دیا گیا ہے تاکہ انسانیت کو ترغیب دی جا سکے اور قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا سکے۔ یہ معاہدے مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا میں امن، سلامتی اور خوشحالی کے ویژن کی حمایت کرتے ہیں، جو دیگر اقوام کو ان مقاصد کے حصول میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں جس انداز سے ابراہم معاہدے Abraham Accordsکو پوری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

اس سے مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں ایک اہم تبدیلی رونماہو سکتی ہے جو کئی دہائیوں سے اسرائیل کے ساتھ تنازعات پر محیط ہے ۔ تاریخی اعتبار سے یہ کہا جارہاہے کہ ابراہیم معاہدے کا نام یہودیوں اور عربوں کے مشترکہ آباؤ اجداد کے اظہار کے حوالے سے دیا گیاہے۔ 2020 کے آخرمیں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے درمیان دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کئے گئے 2021 میں سوڈان نے بھی عام اعلامیہ پر دستخط کردئیے لیکن سوڈان کے اندر جاری عدم استحکام نے اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ معاہدے کو باضابطہ شکل دینے کی صلاحیت میں تاخیر کی ہے

لیکن اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی اسرائیل حماس جنگ نے سعودی عرب کو پہلے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے لئے قابل عمل راستہ بنانے پر اصرار کرنے پر مجبور کیا۔ دسمبر 2024 میں احمد الشارع اور ان کی افواج کی جانب سے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد شام کے لئے ابراہیم معاہدے میں شامل ہونے کے لیے بات چیت 2025 میں شروع ہوئی اب اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے ابراہیمی معاہدے کے لئے سرتوڑ کوششیں جاری ہیں عالمی طاقتیں پاکستان پربھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے دبائو بڑھارہی ہیں بہرحال حالات کے تناظرمیں یقین سے کہا جاسکتاہے کہ اس سارے معاملے میں اسرائیل کا تحفظ مقصود ہے

اسے برطانیہ کے نئے عالمی نظام کا تسلسل کہا جاسکتاہے ٹرمپ کے ابراہیم معاہدوںAbraham Accords کے ذریعے ہدف حاصل کرلیا توفلسطین صرف یہودی ریاست بن کر رہ جائے گی غزہ کے22لاکھ فلسطینیوں کولیبیا کے گردو نواح میں بسادیاجائے گا یہ ہے ابراہیم معاہدوںAbraham Accords کی اصل حقیقت جس کے لئے دنیا بھر کے یہودی اور عیسائی اپنے بھرپور وسائل، طاقت، دھونس ،دھاندلی،جبر اختیارکررہے ہیں ا ن چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلم حکمران کیا حکمت ِ عملی تیار کرتے ہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں