72

انٹرویو نگار: فاکہہ قمر

انٹرویو نگار: فاکہہ قمر

مہمان: کومل شہزادی

س: اپنا بارے میں بتائیں، کیا کرتی ہیں اور آج کل کیا مصروفیات ہیں؟

ج:
میرا نام کومل شہزادی ہے۔ میں ادب، تحقیق اور تدریس کے ساتھ ایک جذباتی و فکری رشتہ رکھتی ہوں۔ میں لکھنے والی ہوں، پڑھانے والی ہوں، سیکھنے والی ہوں، اور سب سے بڑھ کر محسوس کرنے والی ہوں۔
زندگی ایک مسلسل سفر ہے اور میں ہر لمحہ اس سفر کو لفظوں میں قید کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔اورآج کل تحقیقی کام، رسالہ “نقش فریادی” کی ادارت اور ساتھ ہی اپنی نئی کتاب پر کام جاری ہے۔

س: ادب سے لگاؤ اور قلم کا ساتھ کب اور کیسے قائم ہوا؟

ج:
ادب میرے لیے شوق سے زیادہ ایک پناہ گاہ تھا۔ میرے اندر ایک بے چین روح ہمیشہ کچھ کہنا چاہتی تھی اور لفظوں نے مجھے وہ زبان دی۔
بچپن میں ڈائری لکھنے سے آغاز ہوا۔ خاموشی سے سوچتی، پھر چپکے سے کاغذ پر لکھ دیتی۔ یوں لفظ میرے رازدار بن گئے۔ رفتہ رفتہ انہی لفظوں نے میرا ہاتھ تھاما اور قلم نے مجھے خود سے جوڑ لیا۔ ادب میرے لیے اب بھی اظہار کا ذریعہ ہےلیکن ساتھ ہی سماج سے مکالمے کا بھی ایک باوقار راستہ۔

س: پہلی تحریر کب اور کہاں شائع ہوئ؟

ج:
میری پہلی کہانی اولڈ ہاؤسز کے عنوان سے “سیارہ ڈائجسٹ ” میں شائع ہوئی تھی۔ وہ لمحہ آج بھی دل میں تازہ ہے۔ اپنے لفظوں کو کاغذ سے نکل کر دنیا میں سانس لیتے دیکھنا ایک انوکھا تجربہ تھا۔ اُس دن مجھے احساس ہوا کہ میری باتوں میں سننے والوں کی کمی نہیں بس سلیقہ چاہیے اُن تک پہنچنے کا۔

س: رسالے کی ادارت کا تجربہ کیسا رہا ہے؟

ج:
رسالہ کی ادارت میرے ادبی سفر کا ایک روشن سنگِ میل ہے۔ یہ صرف ادارت نہیں بلکہ نئی سوچوں کی آبیاری اور نئے لکھنے والوں کو راہ دینے کا عمل ہے۔ کبھی کبھار تنقید بھی سننی پڑی لیکن جب ایک نوآموز قلم کار اپنی پہلی تحریر لے کر میرے پاس آیا تو مجھے لگا کہ میرا کام با معنی ہے۔ میں نے ہمیشہ معیار اور جذبے کو ترجیح دی۔

س: آپ کا پسندیدہ موضوع کیا ہے؟

ج:
انسان کا باطن، اس کے خواب، اس کی محرومیاں، اور اس کی ناتمام خواہشات — یہ سب میرے دل کے قریب موضوعات ہیں۔
میں نے اکثر ان موضوعات پر لکھا جن پر لوگ بولنے سے گھبراتے ہیں۔ عورت، خاموشی، اذیت، انا، شناخت — یہ سب میرے قلم کے مستقل رفیق ہیں۔

س: آپ تدریس کے شعبے سے بھی منسلک ہیں، تو کیا کبھی بچوں کے لیے بھی لکھا؟

ج:
جی ہاں، بچوں کے لیے لکھنا میرے دل کے بہت قریب رہا ہے۔ بچوں کی آنکھوں میں خواب اور معصومیت دیکھی جائے تو الفاظ خودبخود نرمی اختیار کر لیتے ہیں۔
میں نے کچھ اخلاقی کہانیاں لکھیں جو پھول میں شائع ہوئیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ بچوں کے ادب میں نرمی، روشنی اور محبت کے ساتھ ساتھ فکری غذا بھی ہونی چاہیے۔

س: تحقیق و تدوین جیسے خشک کام میں دلچسپی کیسی پیدا ہوئی؟

ج:
جب میں نے ادب کو صرف جذبے کی سطح پر نہیں بلکہ فکری اور تہذیبی پہلو سے دیکھنا شروع کیا تو تحقیق میرے لیے ایک کھڑکی بن گئی، ایک ایسی کھڑکی جہاں سے میں ماضی کی روشنی میں حال کو سمجھ سکتی تھی۔تدوین کا عمل تو جیسے خود کو صیقل کرنے جیسا ہے۔ کسی اور کے الفاظ کو بہتر بنانا، اس کے پیغام کو مؤثر بنانا — یہ ایک خاموش خوشی ہے جو شاید صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو واقعی ادب سے جُڑا ہو۔

س: کیا آپ کو ادبی کیریر میں کبھی گروہ بندی یا کسی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

ج:
جی، سچ کہوں تو ادب کا میدان بھی خالص نہیں رہا۔ یہاں بھی گروہ بندی، تعصب، اور حوصلہ شکنی جیسے رویے موجود ہیں۔
کئی بار میرے کام کو نظرانداز کیا گیا صرف اس لیے کہ میں کسی گروہ یا لابی کا حصہ نہیں تھی۔ لیکن میں نے خاموشی کو ہتھیار بنایا، اور مسلسل لکھتی رہی۔ آج الحمدللہ میرا قلم میری پہچان بن چکا ہےاور اسی پر فخر کرتی ہوں۔

س: مستقبل میں کیا ارادہ ہے؟

ج:
میں اپنے ادبی اور تحقیقی کام کو مزید وسعت دینا چاہتی ہوں۔ میری خواہش ہے کہ ادب کو عام انسان کی زندگی سے جوڑا جائے، نوجوانوں میں مطالعے کا شوق پیدا کیا جائے اور خواتین قلم کاروں کے لیے ایک پلیٹ فارم بنایا جائے جہاں وہ بغیر خوف و جبر کے لکھ سکیں۔

س: پی ایچ ڈی تک کا سفر کیسا رہا؟

ج:
پی ایچ ڈی ایک علمی اور نفسیاتی آزمائش ہوتی ہے۔ میرے لیے یہ سفر تنہائی، تحقیق، اور مسلسل جدوجہد کا تھا۔ کئی بار راتوں کو جاگ کر مواد کھنگالنا پڑا، کئی بار خود کو سوالوں کے کٹہرے میں کھڑا پایا۔
لیکن ہر قدم پر جو کچھ سیکھا، وہ ناقابلِ بیان ہے۔ یہ سفر صرف تعلیمی نہیں بلکہ شخصی ارتقاء کا بھی سبب بنالیکن جلد یہ سفر اپنی منزل کو پہنچ جاۓ گا۔

س: کیا ادب اور تعلیمی مصروفیات سے نجی زندگی بھی متاثر ہوئی؟

ج:
جی، ایسا ہوا۔ وقت کی کمی، ذاتی لمحوں کی قربانی، اور کبھی کبھی خود کو بھی نظرانداز کر دینا — یہ سب قیمتیں ہیں جو ایک لکھاری ادا کرتا ہے۔میں نے سیکھا کہ توازن زندگی کا سب سے بڑا ہنر ہے۔

س: کیا خوابوں پر یقین رکھتی ہیں؟ کیا آپ کے تمام خواب پورے ہوئے ہیں؟

ج:
میں خوابوں پر یقین رکھتی ہوں، کیونکہ خواب انسان کی پرواز کے پَر ہوتے ہیں۔ کچھ خواب پورے ہو چکے، کچھ ادھورے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو شاید کبھی پورے نہ ہوں، لیکن وہ مجھے جینے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ادھورے خواب بھی کبھی کبھی مکمل کہانی ہوتے ہیں۔

س: آپ کی کتنی کتب منظر عام پر آچکی ہیں اور قارئین کی جانب سے پذیرائی کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟

ج:
اب تک میری پانچ کتب شائع ہو چکی ہیں اورپانچ کتب پائپ لائن میں ہیں۔
قارئین کی جانب سے محبت، فیڈبیک، اور خلوص نے مجھے ہمیشہ مزید لکھنے کی تحریک دی۔

س: قارئین کے نام کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

ج:
مطالعہ صرف ایک شوق نہیں، ایک شعور ہے۔ کتابیں زندگی کا آئینہ ہیں — جب بھی کوئی الجھن ہو، لفظوں کے درمیان جواب ضرور ہوتا ہے۔ادب سے محبت کریں، لکھنے والوں کو پڑھیں، اور سب سے بڑھ کر اپنی آواز کو پہچانیں۔ کیونکہ آپ کی کہانی، آپ کے لفظ، کسی اور کے لیے زندگی بدل دینے والی روشنی بن سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں