موسمیاتی تبدیلیاں اورہماری ذمہ داریاں !
ہمارے موسموں میںعالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر معمولی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں،یہاں پر بارشوں کے معمول جہاں متاثر ہوئے ہیں ،وہیں درجہ حرارت میں اضافہ بھی ہو رہا ہے‘ مگر ان ماحولیاتی تغیرات کو سمجھنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کیلئے جو کچھ کیا جانا ضروری ہے، وہ د کہیںدکھائی دیتا ہے نہ ہی کوئی موثر حکمت عملی پر کام ہورہا ہے ،اس کے باعث موسمی تبدیلیوں کا جبر اور اس کے نتیجے میں ہونے والا نقصان ہر سال بڑھتا ہی جا رہا ہے،یہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا ہی ایک نتیجہ ہے کہ گلیشیرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہو چکا ہے‘ گلیشیر پگھلنے سے جھیلیں بنتی ہیں
اور یہ جھیلیں جب پھٹتی ہیں تو بڑے پیمانے پر سیلاب کا سبب بنتی ہیں، شمالی علاقہ جات میں گلیشیر جھیلیں پھٹنے سے آنے والے سیلاب اب معمول بنتے جا رہے ہیں، جو کہ بنیادی ڈھانچے‘ املاک اور معاش کیلئے شدید نقصان کا سبب بننے لگے ہیں،لیکن حکومت اور متعلقہ ادارے ڈ نگ ٹپائو پروگرام پر ہی عمل پیراں ہیں۔
اس ملک میں بد لتے موسموں کے باعث جو کچھ بھی ہورہا ہے ،کوئی پہلی بار نہیں ہورہا ہے ، لیکن حالیہ برسوں میں ایسے واقعات چند برس پہلے کے مقابلے میں دو سے تین گنا بڑھ چکے ہیں، اس طرح ہی کلائوڈ برسٹ اور شدید ژالہ باری کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ہر برس کہیں نہ کہیں ایسے شدید موسمی حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ بارشوں اور ژالہ باری کے سابقہ ریکارڈ ٹوٹ جاتے ہیں،اس موسمیاتی تبدیلیوں کے ان مظاہر کو سمجھنا اور ان کیساتھ مطابقت پیدا کرنا بقا کا تقاضا ہے ،حالیہ دنوں پری مون سون بارشوں میں غیر معمولی جانی ومالی نقصان ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا تعمیراتی ڈھانچہ معمولی بارشوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی نہیں ہے ،ہمارے ہاںتعمیراتی معیار کو بہتر اور قواعد وضوابط پر عمل یقینی بنا کر، ناموافق موسمی واقعات میں انسانی جانوں اور املاک کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے عوامی آگاہی کے بہتر انتظامات کی بھی ضرورت ہے، جو کہانسانی و معاشی نقصانات سے بچائومیں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، کیونکہ شدید موسمی حالات میں بہت سا جانی نقصان صرف آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ہورہا ہے، عام طور پر لوگوں کو موسموں کی شدت اور ممکنہ خطرات کا علم ہی نہیں ہوتا اور وہ لاعلمی میں غلط فیصلہ کر بیٹھتے ہیں،اگر ان حالات میں حکومت اور ادارے بروئے کار آئیں تو نقصان میں کمی یقینی ہوسکتی ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہنگامی حالات میں مدد فراہم کرنے والے اداروں کی استعداد کار بڑھانے پر بھی توجہ دینی چاہیے ، اس سلسلے میں بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے ،اگرچہ پچھلے چند برسوں میں ان اداروں کو جدید خطوط پر استوار کئے جانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، تاہم ہنگامی حالات میں بڑھتا ہوا جانی نقصان ان اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
اس سلسلے میں دریائے سوات کے کنارے پیش آنے والا سانحہ ایک کیس سٹڈی ہے کہ ہنگامی حالات کیلئے قائم کیے گئے ادارے اپنے کام کیلئے کتنے تیار ہیں، یہ مانا جاتا ہے کہ اچانک آنے والے پانی کے ریلے میں پھنسے افراد کو بروقت امداد پہنچ جاتی تو متعدد جانیں بچ سکتی تھیں، مگر ایسا نہ ہو سکا اور یہ اندوہناک حادثہ پیش آیا،جوکہ نہیں آنا چاہئے تھا ،اس میں اداریوں کی کوتا ہی کے ساتھ عام لوگوں کا بھی غیر ذمہ دارانہ رویہ شامل ہے ،اس کیلئے آگاہی بہت ضروری ہے ،عوامی آگاہی کے اقدامات کے حوالے سے بھی غور طلب ہے کہ دریا کنارے ایسے انتظامات یا آگاہی کا بندوبست ہوتا تو سیاحوں کو خوفناک رسک سے روکا جا سکتا تھا، اگر اب بھی ٓگاہی کے ساتھ اقدامات میں بہتری نہ لائی گئی تو یہ نقصان در نقصان کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے، اس لیے موسمی تغیرات کے نتیجے میں جنم لینے والے حادثات کو تنبیہ سمجھنا چاہیے اور آنے والے وقت میں ایسے حادثات سے بچنے کا بندوبست کرنا چاہیے ،لیکن کیا ایسا کوئی بند بست ہو پائے گا؟یہ ایک بڑا ہی اہم سوال ہے اور اس کا کسی کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے۔
اس حکومت کو اب چاہیے کہ بڑی ہی سنجیدگی اور مستقل مزاجی کے ساتھ نہ صرف موثرحولیاتی پروگرام اور پروجیکٹس بنائے،بلکہ ان کو ہنگامی بنیاد پرپایہ تکمیل تک بھی پہنچائے ،اس کے ساتھ ماحولیات کی حفاظت کے لیے منظور شدہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد بھی کروایا جائے اور موجودہ ماحولیاتی صورتحال کی مناسبت سے قوانین میں ترامیم اور نئے قوانین منظور کروائے جائیں، اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے قومی ماحولیاتی ماہرین کے ساتھ غیر ملکی ماہرین سے بھی مشاورت کی جائے، اگر ان خطرات کو اب بھی سنجیدہ نہ لیا گیا اور بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو مستقبل میں ایسے شدید موسمیاتی واقعات دیکھنے کو مل سکتے ہیں کہ جن کا بوجھ حکو مت اُتھا پائے گی نہ ہی عوام بر داشت کر پائے گی ۔