قوم فو ج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ! 68

پاکستانی سیاست

پاکستانی سیاست

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی

پاکستانی سیاست میں گذشتہ کچھ عرصے سے پروان چڑھنے والا غیر شائستہ اور غیر مہذب وڈیو لیکس کلچرسیاسی و صحافتی حلقوں کیلئے ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔انسانی تہذیب و اخلاق ہی کسی معاشرے کی پہچان ہوا کرتا ہے۔انسان کی زبان و قلم سے نکلے ہوئے الفاظ ہماری تعلیم و تربیت کے عکاس ہوا کرتے ہیں۔جدید دور میں سوشل میڈیا کی صورت میں فیس بک ،واٹس ایپاور ٹوئیٹر وغیرہ کی جو سہولیات عوام و خواص کو حاصل ہیں ،اس کا سہارا لے کر ہم وہ وہ کارنامے سرانجام دے رہے ہیں

کہ جن پر داد و تحسین کی بجائے لعنت بھیجنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔ ناخواندہ افراد سے تو گلہ ہی کیا ،اعلی تعلیم یافتہ خواتین و حضرات بھی تہذ یب و اخلاق سے بے نیاز ہو کر وجہ الفساد کا حصہ بن چکے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بیشتر افراد کی کوئی شناخت موجود نہیں اور یہ ناہنجار لوگ تسلسل کے ساتھ اپنے دل کا غبار نکالنے میں لگے ہیں۔کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے ،اسی اصول پر مخالفین کو ننگا کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔وڈیو لیکس طرز کا ایک نیا کلچر پروان چڑھ رہا ہے ، اس بارے کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ٹیکنالوجی میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے آڈیو اور وڈیوز کو ایڈٹ کرنے کیلئے ایسے ایسے سافٹ وئیر مارکیٹ میں آ چکے ہیں

کہ انسان جو چاہے بنا کر وائرل کر دے۔ فرئزاک لیبارٹری ٹیسٹ سے وڈیوز کے حقیقی یا جعلی ہونے کی تصدیق ممکن ہو چکی ہے ،تاہم کسی بھی مسئلے کو اس عمل سے متنازعہ بنانا آسان ہو گیا ہے۔ماضی پر نظردہرائیں تو عدالتیں کسی قسم کی آڈیو یا وڈیو ز کو بطور ثبوت تسلیم ہی نہیں کیا کرتی تھیں جبکہ اس دور میں کسی قسم کی جعل سازی ایک مشکل بلکہ بہت ہی مہنگا اور محنت طلب کام ہوا کرتا تھا ،جبکہ موجودہ دور میں یہ سبھی تبدیلیاںبہت ہی کم وقت میں آسانی سے کی جا سکتی ہیں۔سوشل میڈیا فیس بک، ٹک ٹاک اور یو ٹیوب چینلز پر دن رات ایسی ایسی وڈیوز چلائی جا رہی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر جہاں انسان ذہنی اذیت میں مبتلا ہو رہے ہیں ،وہاں دنیا پھر میں پاکستانی قوم کا تشخص بری طرح مجروح ہو رہا ہے

۔ یوں تو بہت سے سانحات کے وقوع پذیر ہونے کی وڈیوز بھی پوسٹ کی جارہی ہیں لیکن اگر ان اذیت ناک وڈیوز کا جائزہ لیا جائے تو ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی وڈیوزتو بنا کرہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بریکنگ نیوزعوام تک پہنچاکرگویا کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔جبکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔دیکھا جائے تو کسی ایسے ظلم کی وڈیوز بنانے سے زیادہ مظلوم مرد و خواتین یا بچوں کی مدد کرنا زیادہ اہم ہے۔بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ملی فریضہ بھی ہے

کہ ہم مظلوم کی مدد کریں ، جلتی ،سسکتی انسانیت کو بچائیں۔۔لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم میں انسانیت مر چکی ہے ،ہم مخالفین کو ذلیل و رسوا کرنے کیلئے وڈیوز کی نامناسب ایڈیٹنگ کرکے انسانی تذلیل میں حد سے گذر چکے ہیں اور سبھی اخلاقی اقدار کو بھلا بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر کوئی ناہنجار شخص فائرنگ یا کسی پر ذلت آمیز تشدد کی ویڈیو بناکر غریب کا حشر نشر کردیتے ہیں اب تو آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کے ذریعے ہماری عسکری و سیاسی قیادت اور سیاستدانوں کی انتہائی ناگفتہ ویڈیو ز بھی منظر ِ عام پر آتی رہتی ہے کہ الحفیظ و الامان،ابھی حال ہی میں حادثے میں زخمی ہونے والے شخص کو طبی امداد کے ہسپتال پہچانے کے بجائے اس کی ویڈیو بناک وائرل کرنے کا رحجان زور پکڑگیاہے جو انتہائی خوفناک طرز ِ عمل ہے

، کبھی کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ ایسا کرنا گناہ ہے کہ کسی کی مدد کرنے کی بجائے سوشل میڈیا پر اس کی ایسی تیسی پھیردی جائے ،کبھی معصوم بچی کو رسی سے پھندہ لگاتے ہوئے ایک وڈیو وائرل ہوجاتی ہے اور کبھی انتہائی متنازعہ امور پر ویڈیو فرقہ واریت کو ہوا دینے کیلئے نظروں سے گذرتی ہے جس سے اتحاد بین المسلمین پارہ پارہ کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے ،اسی طرح کسی شہر میں بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ آ جانے کی وجہ سے دو بندوں کو آگ لگ گئی ، یہ وڈیو بھی بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ وائرل کر دی گئی ،جس میں لوگوں کو پاس سے بھی گذرتے دکھایا گیا ہے

لیکن وڈیو بنانے والے نے بھی انہیں بچانے کی کوشش نہ کی ، چند برس پہلے آب پارہ اسلام آباد میں ایک تاجر نے سرعام خود سوزی کر لی تھی۔۔اس وقت عوام کا ایک جم غفیر اس مظلوم کی خود سوزی کا نظارہ کرنے کیلئے موجود تھا لیکن کسی ایک بھی فرد نے حتی کہ پولیس سمیت کسی سیکورٹی اہلکار نے بھی اسے بچانے کی زحمت ہی گوارا نہ کی ،المیہ یہ ہے کہ ایک قومی اخبار کے فوٹو گرافر نے جہاں اس مظلوم کی خود سوزی کے دوران مختلف مراحل کی عکس بندی کی ، اور اس میں سے تین فوٹو اپنے اخبار میں شائع کئے وہاں ایک اور اخبار کو بھی یہ فوٹو عطیہ کر دئیے گئے۔یہ تصاویر موصوف کے نام سے اخبار مذکورہ میں چھپیں ، بعد ازاں جب کیس عدالت میں چلا توفوٹو گرافر کو بھی بطور گواہ طلب کر لیا گیا۔

جبکہ ان دنوں سوشل میڈیا پروائرل کی جانے والی وڈیوز کے بارے میں حکومتی ادارے مکمل خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ،اندھیر نگری چوپٹ راج والی صورتحال بن چکی ہے۔چیئرمین نیب کی ایک خاتون سے گفتگو کی وڈیو چلی تو کچھ عرصے بعد خاموشی اختیار کر لی گئی ،ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ6 جولائی 2019 کو مریم نواز نے پریس کانفرنس میں جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو جاری کی جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ انہیں بلیک میل کرکے اور دبا ڈال کر نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا دینے پر مجبور کیا گیا، وگرنہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا اس حوالے سے انہوں نے ایک پریس کانفرنس بھی کر ڈالی جس میں انہوں نے دعوی کیا

کہ ان کے پاس بے شمار وڈیوز ہیں ،اگر وہ سب جاری کر دیں تو ایک بھونچال آ سکتا ہے۔ اس ویڈیو سے یہ تاثر ملتا تھا کہ عدلیہ آزادی سے کام نہیں کرتی اور بلیک میل ہوتی ہے ایسی وڈیوز حقیقی ہیں یا جعلی۔۔اس کا فیصلہ تو ذمہ داران نے کرنا ہے۔۔لیکن لوگوںکا خیال ہے دوسروں کی پگڑی اچھالنے والی زیادہ تر ویڈیو جعلی ہوتی ہیں ویسے آج کل شوبز سے وابستہ اداکاروں اور ڈرامہ ایکٹریس کی غیر اخلاقی ویڈیو لیک ہوتی رہتی ہیں

کچھ لوگوںکا خیال ہے یہ لوگ خودسستی شہرت کے حصول کے لئے ایسا کرتے ہیں یا ان کے مخالفین جیلس ہوکر کرتے ہیں یہ تو ایک الگ معاملہ ہوسکتاہے لیکن ہماری عسکری و سیاسی قیادت اور سیاستدانوں کی انتہائی ناگفتہ ویڈیو ز لیکس ایک حساس گھمبیر مسئلہ ہے ۔ سوشل میڈیا پر ہماری تمام ہی سیاسی جماعتوں کے عہدیدران یا کارکنان اپنی اپنی جماعتوں کے حق میں جو کمپین چلا رہے ہیں وہ پرموشن کررہے ہیں وہ ان کا حق ہے۔۔یہ کسی طور بھی قابل تعریف اقدام نہیں۔۔اپنی اس سیاست کے ذریعے ہم آنے والی نسلوں کوکیا سکھا رہے ہیں۔اس پر ہم سب کو غور کرنا ہوگا۔یہ سوچ و فکر ہماری آئندہ نسلوں کی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہے۔اخلاقی اقدار کا جنازہ ہم اپنے ہی ہاتھوں نکال رہے ہیں۔جو کام دشمن اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے کرتا ہے وہی کام ہم اپنے ہاتھوں سرانجام دے رہے ہیں۔

سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی صورت میں جو سہولیات ہمیں یہود ونصاری ٰنے فراہم کی ہیں ،انہیں ہم نے اپنی بربادی کے ہتھیار بنا لئے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم وڈیو لیکس طرزکی سیاست کو لگام دیں ، اپنے دھندے کوچلانے کیلئے معاشرتی اعلی اقدار کا جنازہ نہ نکالیں۔اسلام نے تو دوسروں کا پردہ رکھنے کا حکم دیا ہے جبکہ ہم تو معاشرے کا ہر ننگ دنیا کو دکھا کر پاکستان اور پاکستانی عوام کے وقار کو مجروح کرنے کے درپے ہیں۔اس سے قبل کے حالات ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیں حکومت کوجہاں کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کرنا چاہئے وہاں ہمیں اپنے کردار و عمل پر دھیان دیناہوگا۔ورنہ ایسا نہ ہوکہ
اب پچھتائے کیا ہوت ،
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں