107

گؤماس ایکسپورٹ بند کیا جائے یا بھارتیہ مسلمانوں کو انکے مذہبی عقیدے مطابق بڑے جانوروں کی قربانی کی کھلی اجازت دی جائے

گؤماس ایکسپورٹ بند کیا جائے یا بھارتیہ مسلمانوں کو انکے مذہبی عقیدے مطابق بڑے جانوروں کی قربانی کی کھلی اجازت دی جائے

نقاش نائطی
۔ +966562677707

عالم کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت بھارت میں، ہر شہری کو اپنے مذہبی عقیدے پر عمل پیرا رہنے کی آزادی، جہاں ہے۔ اسی بین المذہبی آزاد سیکولر ملک بھارت میں، دیش کی اکثریتی سناتن دھرمی ھندو آبادی کے مذہبی جذبات کا پاس و لحاظ رکھنے کے بہانے سے، اکثریتی دیش واسیوں کو انہیں دستور ھند میں حاصل حق اظہار رائے دہی و مرضی مطابق کھان پان سے منع کرتے ہوئے،گؤماس امتناع قانون نافذ کیا جاتا ہے

تو دوسری طرف اسی گؤ ماتا سرکھشہ کے رکھوالے سنگھی شدت پسند سیاسی پارٹیوں سے منسلک ھندو تاجر برادران سنگھی سرکاری سرکھشا میں، روزانہ کی بنیاد پر، ہزاروں گؤماتاؤں اور اس کے قبیل کے بڑے کے جانوروں کی کھلے عام ساموہک ہتھیائیں کئے، اسکا ماس کھاڑی کے عرب دیش سمیت یورپئین ممالک کو ایکسپورٹ کرتے ہوئے، ہزاروں سالہ آسمانی ویدک سناتن دھرمی بھارت کو، کئی سالوں سے، عالم انسانیت کا سب سے بڑا گؤماس ایکسپورٹر ملک کا تاج پہنائے رکھے ہوئے ہیں

۔اور ساتھ ہی ساتھ، دیش کی آبادی کی سب سے بڑی اقلیت ہم 300 ملین مسلمانوں کو، اپنے مذہبی استھا مطابق بڑے جانور کی قربانی سے ونچت یا ماورا رکھے ہوئے ہیں۔ اس تعلیمی تمدنی ترقی یافتہ،وشؤ گرو بننے کی عاہ پر گامزن بھارتیہ پس منظر میں، عالم کی سب سےبڑی بین المذہبی سیکولر جمہورہت میں، اس دیش کی سب بڑی مسلم اقلیت ہم 300 ملین دیش واسی مسلمانون کے ساتھ، اس قسم کا دوہرا معیار، ظلم و زیادتی کیا جانا کیا ٹھیک ہے؟ اگر ہزاروں سالہ آسمانی ویدک سناتن دھرمی ھندو اکثریت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے امتناع گؤ ماس قانون نفاذ ٹھیک لگتا ہےتو ایک ملک ایک قانون کے تحت، اسی امتناع قانون کو پورے ملک میں سختی سے نفاذ کئے جاتے ہوئے،

پورے ملک بھارت میں گؤماس امتناع قانون نفاذ سختی کے ساتھ لاگو کئے جاتے ہوئے، پوری بھارتیہ دھرتی پر گائے ماتا کا یا اس کے قبیل کے بڑے کے جانوروں کی ہتھیاؤں پر سختی سے روک لگاتے ہوئے، گؤماس یا اس کے قبیل کے بڑے کے جانوروں کے گوشت ایکسپورٹ پر بھی سختی سے امتناع نافذ کیوان نہیں کیا جاتا اور اگر یہ کرنا نا ممکن ہو تو دیش کی سب سے بڑی اکثریت ہم 300 ملین مسلمانوں کو، ہمیں اپنے دستور ھند میں دی گئی آزادی اظہار حق رائے دہی اور مرضی مطابق، اپنے مذہبی رسومات ادائیگی مطابق نیز کھان پان کی اجازت مزحمت فرماتے ہوئے، اپنے اسلامی مذہبی عقیدے مطابق عید قربان پر، گائے

قبیل کے بڑے جانوروں کی قربانی کی ہم 300 ملین مسلمانوں کو اجازت کیوں نہیں دلوائی جاتی، تعجب ہوتا ہے مسلم اکثریتی بی جے پی حکومتی ریاستوں میں جہاں گؤماس امتناع قانون سختی سے نافذ کئے جاتے، دیش واسیوں کو بڑے کے گوشت سے ونچت یا محروم رکھا جاتا ہے وہیں انہی سنگھی حکومتی رہاستوں میں، سرکاری سرپرستی میں بڑے مذبح خانوں میں، روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں گؤ ماتا اور اس کے قبیل کے بارے جانوروں کا قتل عام کئے، اسکا ماس ایکسپورٹ کیا جاتا ہے

اس کے علاوہ گؤماس امتناع قانون نافذ کرنے والے سنگھی حکومتی بعض ریاستوں میں، کھلے عام گؤ ماس امتتاع قانون کے خلاف گؤہتھیائیں کئے، گؤ ماس تجارت، سرکاری سنگھرکشن میں کیا جاتا ہے۔ یہ بھارتیہ سنگھی رام راجیہ کا دوہرا معیار عجیب تر کیا نہیں لگتا ہے؟ اس سے پرے، ایسے غیر دستوری امتناع گؤ ماس جیسے قانون کے خلاف، کسی ریاست کے عوام اپنے ووٹ کا استعمال کئے، اپنے صوبوں میں ایسی منافرتی سنگھی حکومتوں کو رد کئے، اسکی جگہ کانگرئس کو اقتدار سونپتے ہیں تو، تعجب ہوتا ہے

کرناٹک جیسی کانگرئس حکومتی راجیہ میں،اقتدارحکومت انے کے کئی سال بعد بھی، ریاست میں وہی سنگھی دور والا امتناع گؤ ماس قانون جاری رکھے دیش کی سب سے بڑی اقلیت یم مسلمانوں کو، بڑے کے جانور ماس کھانے سے محروم رکھا جاتا ہے۔بی جے پی زمام حکومت والے گوا رئاست میں جہاں گؤماس دھڑلے سے بکتا ہے وہیں، کانگریس زمام حکومت والے کرناٹک میں ابھی تک سنگھی دور حکومت کا لگایا گؤماس امتناع قانون جاری رکھنا کرناٹک رئاست کی سب سے بڑی اقلیت ہم مسلمانوں کے خلاف کرناٹک کانگرئس کی زیادتی کیا نہیں ہے؟

کیا کرناٹک میں کانگرئس کو اقتدار پر بٹھانے والے ہم مسلمانوں کو ال انڈیا سیکیولر کا نگریس سے یہ پوچھنے کا اختیار نہیں ہے؟ہزاروں سالا مختلف المذہبی گنگا جمنی سیکیولر بھارت اور اسکے آزاد عدلیہ سے گوہاڑ لگائے ہم بھارت کے 300 ملین مسلمانوں کو انصاف دلانے کا ساہس کیا بھارت کے کسی مسلم یا سناتن دھرمی ھندو وکلاء میں نہیں ہے، سپریم کورٹ کے نامور مسلم وکیل محمود پراچا اور نام نہاد سیکیولر کانگرئسی وکیل،کپل سبل اور ابھیشیک سنگھوی بھارتیہ سیکیولر دستور ھند میں ہم بھارتیہ مسلم اقلیت کو دئیے گئے

حق آزادی مذہبی عمل آوری کے تحت، ہمیں اپنے مذہبی آستھا مطابق ہمارے مذہبی تہوار گائے قبیل کے بڑے کے جانوروں کی قربانی کی اجازت کیوں نہیں دلواتے ہیں؟ اور اگر ہماری اس درخواست کو دیش کی عدلیہ چمنستان بھارت کے سناتن دھرمی ھندو اکثریت کے مذہبی جذبات کے خلاف مانتی ہے تو ہزاروں سالہ آسمانی ویدک سناتن دھرم والی پوری کی پوری بھارتیہ دھرتی پر ہی، گؤہتھیہ قانون سختی سے لاگو کئے جاتے ہوئے، اس گنگا جمنی دھرتی سے گؤماس ایکسپورٹ کو ہی مکمل بند کیوں نہیں کیاجاتا ہے؟

ہزاروں سالہ گنگا جمنی بھارت کے سیکیولر دستور العمل،مکمل اثاث کی حفاظت کرنے والا کوئی بھی بھارت کا بیٹا، ماہرقانون، کیا سامنے آئیگا اورآزاد بھارت میں مذہبی آستھا اور گؤ سرکھشا کے بہانے سے، بھارت کی دھرتی پر ہونے والے ساموک گؤ ہتھیاؤں کو مکمل روک لگا کر دکھائے گا؟ یا بصورت دیگر ہم بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہم 300 ملین مسلمانوں کو،اس دئش کے سیکولر دستور العمل میں دئیے گئے

حق آزادی عمل آوری مذہب، ہم مسلمانوں کو بھی اپنے مذہبی آستھا مطابق گائے قبیل والے بڑے کے جانوروں کی قربانی کی اجازت ھند بھر ہمیں دلوائے گا؟ کیا اتنے بڑے آزاد بھارت میں، 300 ملین ہم مسلمانوں میں کوئی ماہر قانون مسلم فرد یا مسلم این جی او، یا سیکیولر این جی او نہیں ہے؟ جو ہم 300 ملین بھارت واسی مسلمانوں کو بھارت ہی کے سیکیولر دستور العمل مطابق انصاف دلوائے۔ یا بشمول 800 ملین سناتن دھرمی ھندوؤں کے 1400 ملیں بھارت واسیوں کو، ان نام نہاد گؤ پریمی سنگھی درندوں کے ہاتھوں، روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں گؤ ماتاؤں اور اسکے قبیل کے بڑے کے جانوروں کے ساموہک ہتھیاؤں سے مکتی دلا ئے۔ وما علینا الا البلاغ
*گؤ رکھشک ہی گؤماتا ہتیھارے نکلے*

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں