30

کیا بھارت ایک اور بٹوارے کی راہ پر گامزن ہے؟

کیا بھارت ایک اور بٹوارے کی راہ پر گامزن ہے؟

نقاش نائطی
نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلوزن دہلی
966594960485+

22 مئی 2013 کو شروع کیا گیا، چین کے خود مختار مغربی علاقے، سنکیانگ سوایت علاقہ جات سے ہوتے ہوئے، پاکستان کے خیبر پختونخواہ ، گلگت بالٹسٹان، ہوتے ہوئے کراچی کے پاس خلیج عرب سمندر پر بنے گوادر ایر پورٹ تک ہائیوے، ریلوے اور انرجی لائن بچھانے کا بہت بڑاعالمی پروجیکٹ “پاکستان،چین ایکونو میکل کوریڈور” یا “سی پیک منصوبہ” کہلاتا ہے۔ 46 بلین ڈالر سے شروع کیا گیا چائینا پاکستان ایکونومیکل کوریڈور جو اب ختم ہوتے ہوتے 64 بلین ڈالر لگ لگ خرچ ہو جائیں گے،

تین ہزار کلومیٹر طویل اس منصوبے کے تحت مستقبل میں گوادر اور سنکیانگ کے درمیان نئی شاہراہوں اور ریل رابطوں کی تعمیر کے علاوہ، گیس اور تیل کی پائپ لائنیں بھی بچھائی جائیں گی۔سی پیک یہ منصوبہ ایک طرح سے، عالمی سطح پر معشیتی بساط، گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے،کہ کل تک عالمی معشیتی تگ و دو طاقت کا توازن برطانیہ امریکہ کے پاس جو تھا ،اب اس سی پیک منصوبہ کی تکمیل کے ساتھ، عالمی معشیتی طاقتوں کا توازن پاکستان اور چین کی جھولی میں تو نہیں ہوگا؟
اس وقت جنگیں،حربی آلات میزائل و ایٹم بم سے نہیں،

بلکہ معاشی لحاظ سے لڑی جارہی ہیں اور مستقبل قریب میں بھی اسی ملک کا پلڑا بھاری ہوگا،جس کی معیشت مضبوط تر ہوگی۔ سی پیک منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی پراجیکٹ ہے۔ سی پیک میں پاکستان کے مفادات سے زیادہ چین کے مفادات شامل ہیں۔سی پیک کی تکمیل کے بغیر چین دنیا میں سپر پاور اور معاشی کنگ نہیں بن سکتا۔چین عرب ممالک سے روزانہ کی بنیاد پر 60 لاکھ بیرل تیل منگواتا ہے جس کا سفر خلیج عرب سے ہوتے ہوئے، سری لنکا کا طویل چکر کاٹ کر،12ہزارکلو میٹرکے قریب فاصلہ طہ کرتے ہوئے چین تک پہنچتا ہے۔ جنوبی چین سمندر میں، چین کیلئے بے پناہ مسائل ہیں،سمندری سپلائی لائن پر تبت، تھائی لینڈ، جاپان، کوریا،جیسے کچھ جزیرے ہیں جن کے ساتھ چین کے حالات بہتر نہیں ۔

یہ ممالک کسی بھی وقت یہ تجارتی لائن کسی سازش کے تحت کاٹ دیں تو چین کی معیشت برباد ہوسکتی ہے۔ اس کا متبادل بہترین حل “سی پیک” کی صورت میں چین کوملا ہے۔ جو بنیادی طور پر، اس کے دوست ملک پاکستان سے جُڑا ہوا ہے۔ چین کی مصنوعات وسطی ایشیا، افریقہ، یورپی یونین ، ترکی، روس، تاجکستان، ازبکستان اورعرب ممالک تک کم سے کم وقت وکم ترین اخراجات میں پہنچ سکتی ہیں ۔چین سے ان ممالک کی درآمدات و برآمدات سے پاکستان کو حاصل ہونے والی راہداری ٹیکس وصولی سے، پاکستان کی معیشت کا معیار دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے برابر ہو جائیگا۔اور اس ’’سی پیک‘‘ سے جو دوسرے فائدے ہونگے وہ الگ سے ہوں گے۔ یہاں اس بات کا ذکر ناگزیر ہوجاتا ہے

کہ جب یکم اکتوبر1949 کو چائینزکیمیونسٹ لیڈر ماوزے ڈے ڈونک نے، آزاد پیپل ریپبلک چائینا ڈکلیر کیا تھا تو، مئی 1951 میں پاکستان وہ پہلا آزاد ملک تھا جس نے چائینا کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے عالمی سطح پر نہ صرف قبول کیا تھا بلکہ بینکنگ و ایوئیشن سیکٹر میں، چائینا کی بھرپور مدد کرتے ہوئے، شروع ہی سے چائینا سے اپنی دوستی نبھاتا آیا ہے۔ ایسے میں ہر زاوئیے سے ہر معاملے میں، معشیتی سوچ رکھنے والے چائینا کے لئے، اس کی عالمی تجارت کو ایک نئی اونچائی پر پہنچانے میں ممد، پاکستان کا، اپنے علاقہ جات سے، “پاکستان چائنئز ایکونومیکل کوریڈور”، “سی پیک منصوبہ” شروع کرتے ہوئے،

چین کو نہ صرف، اپنی ضرورت کے لیے خلیج کی کھاڑیوں سے تیل گوادر کے راستے 3 ہزارکلومیٹر کےکم ترین فاصلے اور محفوظ ترین راستے سے، کم ترین وقت میں دستیاب کرانے میں پاکستان کا رول، بلکہ اس کی اپنی چائینز مصنوعات کو عالمی منڈی تک کم وقت کم خرچ میں پہنچاتے، عالمی سطح کا معشیتی کنگ بننے میں، پاکستان کی مدد کو وہ کیسے فراموش کرسکتا ہے؟اس منصوبے میں طویل کشادہ اور محفوظ سڑکیں، توانائی کے منصوبے، انڈسٹریل پارکس اور گوادر بندر گاہ کی تعمیر و انصرام شامل ہے جسکی تکمیل، دہشت گردی کےخلاف جنگ سے متاثرہ پاکستان کیلئے اقتصادی لحاظ سے ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔

افغانستان کے ہاتھوں کھلی شکت کے بعد، کچھ ماہ قبل عرب مملکت قطر میں قرار پائے، افغان طالبان اور امریکہ معاہدہ کروانے میں پاکستان کا کردار بھی جہاں امریکہ کے لئے اہمیت کا حامل ہے وہیں پر، افغانستان طالبان سے کھلی اپنی شکشت کے لئے، عالمی طاقت امریکہ، پاکستان کے دوہرے رول کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا ہے۔ ایسے میں “بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے” افغانستان سے شکشت خوردہ نکلے امریکہ کیلئے عالمی سطح پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا، جہاں ایک بہت بڑا مسئلہ تھا وہیں عالمی معشیتی دوڑ میں چائینا کے اس تیزی سے ترقی پزیری، اور خصوصا اس سی پیک راہداری سے عشیتی عالمی دعویدار میں چائنیز بڑھتی طاقت، صاحب امریکہ کیلئے

پاکستان چائینا دو دو کانٹوں کی ہمہ وقت اسے چھبتے، اسے پریشان کئے رکھے ہوئے تھے، اسکے پرے، افغانستان شکشت فاش بعد، صاحب امریکہ اپنے 50 اسٹیٹ کے ساتھ فیڈرل یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ، دنیا کا طاقتور ترین بلاک بنا ہوا جو ہے، اسے خود صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی ناقابل اندیشانہ پالیسیز سے، اپنے گھر کے فیڈرل ریپبلک کو سنبھالنا ہی بہت بڑا چیلنج بنا ہوا تھا،اپنے گھر کی مملکت بچانے کیلئے،اسے عالمی سربراہی کی چودراہٹ بچائے رکھنا ضروری تھا۔اس کیلئے ایک تیر دو نشان، پاکستان چائینا ایکونومیکل کوریڈور کو کسی بھی قیمت پر رکوانا، اس کیلئے اپنی ساکھ بچانے جیسا معاملہ تھا۔

اس کے لئے، اسے ، اس جیسا ہی، عقل سے عاری، جذباتی سنگھی لیڈر، ایک دوست کی حیثیت مودی کی شکل موجود تھا۔ ادھر 56″ سینے والے مودی مہاراج بھی، اپنے ناعاقبت اندیشانہ “نوٹ بندی”،”نفاذ جی ایس ٹی” اور دیش بھر میں مذہبی منافرت بڑھاوا دینے والی سنگھی پالیسیز سے، تقریبا تباہ حال بھارت کی معیشت سے،پریشان حال،کسی نہ کسی بہانے پڑوسی پاکستان سے سرحدی جھڑپ پیدا کر، اپنے کروڑوں ان بھگتوں کے واسطے سے، دیش بھگتی کی ایک نئی روح پھونکتے ہوئے، اپنی حکومت بچائے رکھنے کی تگ و دو میں تھے، کہ انہیں شاید احساس ہی نہیں ہوا کہ صاحب امریکہ نے انہیں استعمال کر، دستور بند میں کشمیریوں کو خصوصی پیکیج کے تحت دئیے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرواتے ہوئے،

بھارتی کشمیر کو یرغمال بنانے کے فیصلہ پر عمل کرواتے ہوئے، پاکستان اوکیوپائیڈ کشمیر گلگت بلوچستان واپس دلوانے کا جھانسہ دے دیا۔اسی لئے شاید افغانستان سے امریکی انخلا تاریخی معاہدے کے بعد سے، بھارت کے ڈیفنس منسٹر راج ناتھ سنگھ سمیت بھارتیہ سنگھی لیڈران، بھارتی کشمیر پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کر کشمیر مسئلہ کا حل نکالنے کے بجائے، پاکستان پر فوجی چڑھائی کرتے ہوئے، پاکستان اوکیوپائیڈ کشمیر، گلگت پر بھارتی قبضہ کرتے ہوئے، اور بنگلہ دیش کی طرح بلوچستان کو آزاد کراتے ہوئے، پاکستان کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹ کر، بے وقعت چھوٹا سا ملک پاکستان بنائے رکھنے کی باتیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔

شاید اسی لئے ، سی اے اے، این آرسی پر بحث دوران، امیت شاہ کا پارلیمنٹ میں دیا زبردست جوش بھرابیان “جموں و کشمیر کے پی اوکے کے حصہ کو، آپ کیا کشمیر کا حصہ نہیں مانتے ہو کیا؟ چپ کیوں ہو؟ جان دے دینگے، اس کیلئے(پی اوکیلئے)، ایگرسیو ہونے کی کیا بات کررہے ہوآپ، میں یہ بات رپورٹ پر رکھنا چاہ رہا ہوں۔جب جب سدھرن میں جموں و کشمیر راجیہ کے بارے میں بولا ہوں، تب تب پاک اوکیوپائڈ کشمیر اور اقضائے چین، گلگت پاکستان کو بھارت کا حصہ بولا ہے” دیش کے وزیر داخلہ شری امیت شاہ دیش کی پارلیمنٹ میں بولتے ہوئے،بڑے ہی کڑے تیور میں پڑوسی پاکستان اور چائینا کو دھمکی دے چکے تھے۔

انکے اس دھمکی آمیز بیان کے بعد، پڑوسی چائینا کو کہیں نہ کہیں یہ گمان ہوچکا تھا کہ بھارت کے ارادے اقصائے چین پاکستان آکیوپایڈ کشمیر اور گلگت پاکستان پر چڑھائی کر، مکمل ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی سوچ سکتا ہے۔اور بالفرض محال ، صاحب امریکہ، پاکستان و چائینا سے اپنی دشمنی نکالنے کے لئے، ایک طرف پاکستان کے ٹکڑے کر اسے برباد کرنے اور ساتھ ہی ساتھ، پی اوکے اور گلگت پر بھارت کا قبضہ کروا، پاکستان چائینا ایکونو میکل کوریڈور کو گٹھائی میں ڈالتے ہوئے، چائنیز معیشت کو زور کا دھکا دینے کیلئے، امریکی مدد سے بھارت کے پاکستان پر چڑھائی کرنے سے عین قبل،حفظ ماتقدم کے طور،بھارت کے ساتھ اپنے،ان متنازعہ اقصائےچین والے علاقوں پرچائینا، خود سے پہل کر، قبضہ کرلیتا ہے،تو کیا یہ اس کی کامیاب حربی حکمت عملی نہیں کہی جاسکتی ہے؟
بڑبولے کی ہڑبونک جیسے بغیر تیاری کے صرف امریکی مدد کے بھروسہ ،اپنی مسلم دشمنی کے زعم میں، ایٹمی طاقت پاکستان کو، نوالہ تر سمجھتے ہوئے، سنگھی لیڈروں کا یوں، پی اوکے اور گلگت پر چڑھائی کر قبضہ کا اعلان اور خاص کر بھارتیہ سنگھی سیاست کے چانکیہ کہلانے والے وزیر داخلہ بھارت کا پارلیمنٹ میں دیا جذباتی بیان،دراصل امریکہ بھارت کا مشترکہ پاکستان چین مخالف حربی ماسٹر پلان ، چائینیز حربی حکمت عملی سے نہ صرف قبل از وقت سبوتاز ہوچکا ہے،بلکہ پڑوسی پاکستان کے سامنے بھارت کو سبکی اٹھانی ہڑچکی ہے۔
صاحب امریکہ نے اپنی عالمی سربراہی بچانے کے لئے، اہک آخری کوشش کے طور، اپنی سابقہ حربی روایات دوسرے ممالک کی سرزمین پر اپنی آنا کی جنگ لڑتے عمل جیسا، پاکستان چائینا کے خلاف بھارتیہ افواج کو کرایہ کی طرح استعمال کرنے کا جو ماسٹر پلان امریکہ نے تیار کیا تھا وہ پوری حربی بساط اب الٹ چکی ہے۔ صاحب امریکہ عالم کی حکمرانی والی چودراہٹ کہاں بچا پاتا، اب تو مہان مودی کے دوست ہونے کے ناطے، مودی مہاراج کی مسلم منافرت کو، کالے گورے نسلی منافرت کے طور استعمال کرتے ہوئے،

گورے میجوریٹرین امریکیوں کے ووٹ صدارتی انتخاب میں حاصل کرنے کی ہوڑ، صدر امریکہ ٹرمپ کو اتنی مہنگی پڑی ہے کہ نہ صرف امریکہ بلکہ اکثر یوروپی دیشوں میں بھڑکی نسلی منافرت کی آندھی، نوے کے دیے سے قبل، خود اس کی کوششوں سے، اس وقت کی عالمی طاقت یو ایس ایس آر کو،مختلف مسلم مملکتوں میں بٹتے ہوئے، روس کے دعویداری عالم سے ہٹ جانے پراسے مجبور کرنے والے، یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ کو ہی، دس ایک حصوں میں بنتے ہوئے ،سر زمین امریکہ ہی پر، ایک مسلم اکثریتی ریاست وجود میں آنے کی نوید نو سنائے جارہی ہے ۔ ایسے میں صاحب امریکہ کے اشارے پر ناچتے ہوئے،

اپنے پڑوسی پاکستان نیپال چائینا سے، اپنی دشمنی چھوڑ کر آپس میں مل بیٹھ کر، کشمیر سمیت اقصائی چین نیپال کے سرحدوں مسئلوں کو حل کرتے ہوئے، اپنے لاکھوں کروڑ کے دفاعی اخراجات کو اپنی غریب عوام کی بہبودی پر خرچ کرتے ہوئے، بھارت چین پاکستان روس تمام پڑوسی، مل جل کر،اسی سی پیک راستے کا اجتماعی استعمال کرتے ہوئے، اپنی مصنوعات یورپین افریقن منڈیوں میں بیچتے ہوئے، شراکتی معشیتی پارٹنر بن کر، سب مل جل کر معشیتی ترقی کرسکتے ہیں۔ اس کیلئے بھارت کے سنگھی لیڈروں کو اپنی مسلم منافرت بھول کر، ہزاروں سال قبل کے سونے کی چڑیا والے گنگا جمنی مختلف المذہبی، سیکیولر تہذیب کو ہی اپنانا ہوگا، بصورت دیگر یوایس ایس آر کے ماقبل ٹوٹے اور اب کے یو ایس اے کے ٹوٹتے بکھرتےوجود کو دیکھ کر تو، بھارت کو مزید ٹوٹتے بکھرنے سے بچانا ہوگا۔وما علینا الا البلاغ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں