84

عوام کیا چاہتے ہیں!

عوام کیا چاہتے ہیں!

پاکستان کے قیام کو آج 78سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے اور قیام پاکستان کے فوراً بعد ملک پر جاگیر داروں،وڈیروں،خانوں،نوابوں،سرمایہ داروںکا ایک مخصوص اشرافیہ کا قبضہ ہے ،جبکہ غریب اور مظلوم طبقہ ٹیکس تو ادا کرتا ہے، لیکن اس کو بنیادی سہولیات ہی فراہم نہیں کی جارہی ہیں، عوام کوصاف پینے کا پانی تک میسر نہیں،سرکاری اسپتالوں اور مراکز صحت میں صحت کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، مریض علاج کے لیے دربدر پھر رہے ہیں، جبکہ تعلیمی اداروں میں سہولیات کا فقدان ہے، اس کے باعث غریب عوام کے بچے تعلیم سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، یہ تمام مسائل بدانتظامی، غفلت اور نااہلی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں، جبکہ حکمران صرف دعووں اور اعلانات تک ہی محدود ہیں۔
عوام کو ہردور اقتدار میں وعدئو ںاور دعوں کے لالی پاپ سے ہی بہلایا جارہا ہے،اگر کچھ کر دکھانا پڑے توٹریفک ظام کی بہتری، کبھی چالانز میں اصلاحاتی اضافہ، کبھی صفائی مہم، کبھی تجاوزات کے خلاف آپریشن کیے جاتے ہیں ،گویا ملکی ترقی کا سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ شہری کس رفتار سے موٹر سائیکل چلاتے ہیں اور کس زاویے سے ہیلمٹ پہنتے ہیں،اس سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے ریاست سمجھتی ہے

کہ قوم کی تقدیر ٹریفک سگنلز کے ساتھ منسلک ہے اور ملکی مستقبل کے فیصلے انہی چالانز کے ریڈار پر ہوتے ہیں، یہ وہ بیانیہ ہے کہ جس کے ذریعے حکومتیں عوام کو سمجھاتی ہیں کہ بس نظم و ضبط قائم ہوجائے تو سب کچھ خودبخود ٹھیک ہو جائے گا، مگر عملی طور پر یہ اقدامات زیادہ تر فوری شور پیدا کرتے ہیں اور ان کے سائے میں وہ اصل مسائل دب جاتے ہیں کہ جن کا سامنا عوام ہر روز کرتے ہیں۔
یہ بات حکمران کیو ں نہیں سمجھتے ہیں یا سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں کہ اصل مسئلہ عوام کا ٹریفک ہے نہ تجاوزات اور صفائی ہے، اصل مسئلہ معاشی تنگی ہے کہ جس نے سارے ہی گھروں کا سکون چھین لیا ہے ،وہ بے روزگاری ہے کہ جس نے نوجوانوں کو بے سمت کر دیا ہواہے، وہ علاج ہے کہ جس کی پہنچ اکثر شہریوں کی آمدنی سے باہر ہو چکی ہے، وہ تعلیم ہے ،جو کہ مسلسل مہنگی ہی ہوتی جا رہی ہے اور عام آدمی اپنے بچوں کو پڑھانے اور علاج کی سہو لیات دینے سے قاصر نظر آتا ہے ،مگر حکومت کا بیانیہ اپنی پوری توانائی ٹریفک، چالانز اور انتظامی اقدامات کے ساتھ نت نئے منصوبوں کے افتتاح پر ہی مرکوز رکھتا ہے۔
اگر دیکھا جائے توہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے؟ ہمارے حکمران صرف نئے منصوبوں کے افتتاح کرنے میں ہی دلچسپی رکھے ہوئے ہیں، ہمارے شہروں میں سیکڑوں سرکاری اسپتال موجود ہیں، مگر ان کا حال اتنا بُرا ہے کہ کوئی بھی شہری مجبوری کے علاوہ وہاں جانا نہیں چاہتا ہے ،مگر ہمارے حکمران نئے اسپتال ہی بنائے جا رہے ہیں،وہاں سہولتیں نہیں دے رہے،،کالجوں،یونیورسٹیاں اور اسکولوں کا حال بھی دیکھیں تو انتہائی ہی نا گفتہ بہ ہے،یہ حال صرف کسی ایک صوبے کا شہر کا نہیں ہر جگہ یہی عالم ہے،پہلے سے چلنے والی ٹریفک کی بہتری کیلئے کوئی کام نہیں کیا جاتا ،مگر نئے منصوبے چلائے جا رہے ہیں،

جبکہ پنجاب حکومت بھی لاہور میں اپنا سکہ جمانے کیلئے میٹرو بس سروس پر اربوں روپے سالانہ سبسڈی دے رہی ہے اور ملک کے غریب شہریوں سے وصول کیا جانے والا ٹیکس صرف چند شہریوں پر خرچ ہو رہا ہے، اس دیکھا دیکھی میں دیگر صوبے بھی اس طرح کے ہی منصوبے بنائے جارہے ہیں کہ جس پر اربوں روپے خرچ ہوں گے،مگر عوام کی خوشحالی کے لئے،ان کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کیلئے کوئی خاطر خواہ منصوبہ بندی نہیں کی جارہی ہے۔ہمارے سرمایہ دار اور جاگیر دار حکمران سمجھنے میں قاصر ہیں کہ عوام کی ضرورت میڑو بس،الیکٹریک بس نہ ہی بلٹ ٹرین جیسے منصوبے ہیں،

عوام کو پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے روٹی، تن ڈھانپنے کے لئے لباس،سرپر ایک مکان کی چھت،اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے تعلیم،صحت کیلئے علاج کی سہولت اور معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کیلئے روزگار چاہیے،اگر یہ حکمران اپنی ترجیحات صرف اپنا ذاتی مفاد اور اپنا شملہ اونچا کرنے، سیاست برائے کرپشن اور سیاست برائے کاروبار سے بدل کر سیاست برائے خدمت کی طرف نہیں لاسکتے اور یہ جاننے کی کو شش نہیں کرتے کہ عوام چاہتے کیا ہیں تو ہمارے عوام کا کبھی مستقبل محفوظ نہیں ہوسکتا ہے، اگر حالات ایسے ہی رہتے ہیں تو عوام کو آگے بڑھ کر اپنا حق چھیننا ہوگا اور اپنے بنیادی حقوق کے حصول کیلئے ایک پر امن انقلاب کی طرف بڑھنا ہو گا اور یہ پر امن انقلاب ہی قوم کا مقدر بدل سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں