16 دسمبر ہم نہیں بھولے
16 دسمبر ہم نہیں بھولے
تحریر نعیم الحسن نعیم
وہ ظلم نہیں بھولے،شہادت نہیں بھولے
معصوم فرشتوں کی عبادت نہیں بھولے
بارود کے شعلے ،وہ تڑپتے ہوئے بچے
ہم لوگ ابھی تک وہ قیامت نہیں بھولے
16 دسمبر 2014 وہ صبح جس کا تصور بھی دل دہلا دینے والا ہے۔ وہ صبح جس نے ایک پوری قوم کو اپنے وجود کی بے بسیت کا احساس دلایا، وہ صبح جب اے پی ایس پشاور کے دروازے کھلے نہیں، بلکہ ایک ایسی وحشت کے لیے کھل گئے جو اس سے قبل کسی تصور میں بھی مکمل طور پر سما نہیں سکتی تھی۔بچوں کے بستے، ماں کے دعائیہ لب، باپ کے امید بھری نظریں یہ وہ منظر تھا جو ہر صبح ہر گھر میں ہوتا ہے، لیکن 16 دسمبر کی صبح کچھ اور تھی۔یہ وہ صبح تھی جب خوشیاں سکول کی راہوں میں جا کر پڑ گئیں۔
یہ وہ صبح تھی جب مستقبل کے معماروں نے اپنے پہلا سبق شروع بھی نہیں کیا ان کی دنیا ختم ہو گئی۔معصوم کلیاں، خون میں نہا گئیں. وہ بچے جو زندگی کا ہر رنگ دیکھنے کے لیے بے چین تھے، آج موت کی سخت حقیقت سے آشنا ہو گئے۔ ماں، جس نے اپنے لختِ جگر کو سکول کی راہ میں دعاؤں سے سینچا تھا آج وہی ماں اپنے بچے کو اپنے آغوش میں خون میں لت پت پاتی ہے۔ باپ، جس نے اپنے بیٹے کے روشن مستقبل کے خواب سجائے تھے آج وہی باپ خاموشی سے آنسو پونچھتا ہے، اپنے دل کا بوجھ چھپا کر۔ یہ وہ منظر ہے جسے آسان الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔16 دسمبر کی دردناک صبح ہمیں یاد ہے
ہمیں بہت گہرائی سے یاد ہے. ہم نے دیکھا کہ جب خبریں آئیں کہ اے پی ایس کے دروازوں کے اندر دہشت گرد داخل ہو گئے ہیں، ہم نے سنا وہ چیخیں، وہ فریادیں، وہ بے بسی کی پکاریں، ہم نے محسوس کیا کہ ہر انسان کا وجود ایک ہی سوال دہراتا ہے یہ سب کیوں؟ یہ معصوم پھول کس جرم کی سزا پا رہے ہیں 138 بچے اور ایک قوم کا ماتم جب 138 بچوں کے شہادتوں کی خبر آئی، تو ایسا لگا جیسے پوری دنیا خاموش ہو گئی ہو ہر دل یکساں درد میں دھڑک رہا تھا، ہر آنکھ نمناک تھی،ہر روح بے بس تھی
۔یہ صرف اعداد نہیں یہ وہ زندگی تھیں جو پھولوں جیسی نرم، مسکراتی، معصوم تھیں۔یہ وہ مستقبل تھے جو امیدوں کی روشنی سے بھرے ہوئے تھے۔ان معصوموں کی قربانی صرف ایک سانحہ نہیں، یہ ہماری ناکامی، ہماری حفاظت کے نظام کی کمزوری،اور ہمارے سماجی تاثر کا عکاس بھی ہے۔یہ وہ دن ہے جب ہم نے جانا کہ دہشت گردی نے صرف جسم کو نشانہ نہیں بنایا اس نے ہماری امیدوں، ہمارے خوابوں، ہمارے اعتماد کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔جب ہم دسمبر آتے دیکھتے ہیں، تو صرف تاریخ کے ورق نہیں پلٹتے،بلکہ ایک ایسا خوف سامنے آتا ہے جو خاموشی سے دل پر ہاتھ رکھ دیتا ہےاللّٰہ! ایسا دسمبر دوبارہ نہ آئے! یہ سانحہ صرف پشاور کا درد نہیں، یہ پاکستان کی سانسوں میں گھلا ہوا غم ہے۔یہ وہ زخم ہے جو کبھی مکمل طور پر نہیں بھرتا۔ہم نے دیکھا کہ معصوم بچوں کے نام پر جنْ جن کی تصویریں سامنے آئیں،
وہ ہر تصویر ایک آنسو، ہر تصویر ایک فریاد، ہر تصویر ایک امید تھی جو خون میں رنگین ہو گئی۔یہ سانحہ ہمیں ہر بار یاد دلاتا ہے کہ وطن کی حفاظت صرف ریاست کی ذمہ داری نہیں، یہ ہر شہری کا فرض ہے ہر ماں، ہر باپ، ہر نوجوان، ہر استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو محفوظ مستقبل دیں۔جب ہم سانحہ پشاور کی بات کرتے ہیں،تو یہ صرف بچوں کی شہادتوں کا حوالہ نہیں، یہ ہر اس انسان کا ماتم ہے جس نے اپنے بچوں کے سامنے اپنے
ہاتھوں کو بندھا ہوا دیکھا۔
یہ ہر والدین کا درد ہے جس نے اپنے لختِ جگر کو قبرستان کی مٹی میں اُتارا۔یہ وہ زخم ہے جو صرف لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا یہ وہ درد ہے جو ہر دل میں اپنے اپنے انداز میں بس گیا ہم کبھی ان پھولوں کو نہیں بھول سکتے۔ ہم ان کی یاد میں صرف تاریخ نہیں سنتے ہم ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں، مملکت خداداد پاکستان کے لئے امن کی دعا مانگتے ہیں،اور انکی یاد میں ہر دور میں دہشتگردی کے خلاف کھڑے رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی تعلیم و حفاظت کے لیے مزید بیدار رہیں گے
ہم ہر اس قوت کے خلاف متحد ہوں گے جو انسانوں کے حقوق اور زندگی کے خلاف ہے۔ہم ان معصوم شہداء کو نہ بھولیں گے، اور ان کی یاد میں امن، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیں گے۔یہ سانحہ اس بات کی گواہی ہے کہ وطن کے بہادر شہید بیٹی، ماں اور بچوں کے زخم بھولے نہیں جاتے۔ ہر زخم، ہر آنسو، اور ہر قبر میرے وطن کے ضمیر اور دل کا حصہ ہے۔ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ایک دن ہر ظلم کا حساب لیا جائے گا، ایک دن ہر معصوم کی روح کو سکون ملے گا، ایک دن دہشتگردی کا نام بھی نہ ہوگا،
اور ہر ماں، ہر باپ، ہر بہن اور ہر بھائی اپنے لختِ جگر کو امن کی گود میں دیکھ سکے گا۔16 دسمبر ہمیں یاد ہے ہمیں ہر درد محسوس ہے اور ہمیں ہر شہید پر فخر ہے.ہم ان معصوموں کے لیے دعاگو ہیں, اور ہمیشہ ان کی یاد کو زندہ رکھیں گے انشاءاللّٰہ۔
سلام اُن معصوم کلیوں کو، جنہوں نے علم کی راہ میں اپنا خون دے کر یہ بتا دیا کہ دہشت گردی کا مقابلہ بندوق سے نہیں، جذبے سے ہوتا ہے۔سلام اُن بہادر اساتذہ کو، جنہوں نے بچوں کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دے دیا،اور اپنے لہو سے وفا، ہمت، اور قربانی کی نئی تاریخ رقم کی۔سلام اُن ماؤں کو، جن کے ہاتھوں میں اس دن معصوم لاشے تھے،لیکن جن کے دل شکستہ ہونے کے باوجود ایمان اور صبر سے بھرے ہوئے تھے۔جن کی آنکھوں سے آنسو نہیں رکے، مگر اُن کا حوصلہ جھکا نہیں
جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو پاکستان پر قربان کر دیا،اور پھر بھی اس وطن سے محبت میں کوئی کمی نہ آنے دی۔اور آج میں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں افواجِ پاکستان کو،جنہوں نے سانحہ APS کے بعد دشمن کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا آغاز کیا۔وہ جنگ جس میں ہمارے جوانوں نے پہاڑوں سے لے کر شہروں تک ہر میدان کو اپنے خون سے رنگا، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں امن میں سانس لے سکیں۔یہ قربانیاں معمولی نہیں تھیں یہ وہ قربانیاں ہیں جن سے آج پاکستان کا ہر گوشہ محفوظ ہے۔ہمیں یقین ہے کہ افواجِ پاکستان آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ جنگ لڑتی رہے گی،اور ان معصوم شہداء کے خون کا حساب ضرور لے گی۔
اللہ سے دعا ہے کہ اب ایسا کوئی دسمبر نہ آئے نہ کوئی ماں بے اولاد ہو،نہ کوئی باپ جنازہ اٹھائے،اور نہ کسی اسکول کی دیواریں گولیوں سے چھلنی ہوں۔اے شہیدو!تم نے جان دی، مگر ہمیں جینا سکھا دیا۔
سلام تم پر اور تمہاری عظیم قربانی پر۔
پاکستان زندہ باد۔
ہماری خاک سے خوشبو وطن کی آے گی
ہمارا خون اسِ مٹی کے رنگ میں شامل ہے.