82

گود ماں کی،درسگاہِ اولین

گود ماں کی،درسگاہِ اولین

تحریر ۔ شیخ محمد انور (ریلویز)
[email protected]

گود ماں کی،درسگاہِ اولین
باپ ہے روحِ جمالِ دلنشین

میرے والد میری پسندیدہ شخصیت اور میرا سب سے بڑا سرمایہ ہیں پوری کائنات میں والد ہی وہ شخص ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے اولاد ہر ڈر سے ناآشنا ہوتی ہے میرے والدِ محترم حاجی اختر حسین 19 دسمبر 2012 کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگئے دسمبر کا مہینہ جب بھی آتا ہے تو جسم کانپ اُٹھتا ہے کہ آج کے دن ہم اس دنیا کی مضبوط چھت سے محروم ہوگئے میں بڑی مشہور شخصیات کو دیکھتا تھا اور ان میں سے بہت سے میرے رول ماڈل تھے لیکن جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا مجھے احساس ہوا کہ میری پسندیدہ شخصیت میرے سامنے تھی میرے والد جن کے ساتھ میں رہتا تھا کھاتا تھا اور سوتا تھا میرے والد میرے خاندان کے ستون تھے وہ ہمیں ایک ساتھ رکھتے تھے اور ہمیں مضبوط بناتے تھے میں نے محسوس کیا ہے کہ ایک عظیم شخصیت کے لئے آپ کو بہت مشہور ہونا ضروری نہیں ہے آپ ایک عام انسان بھی ہو سکتے ہیں اور سب سے بڑی شخصیت کے مالک بھی ہو سکتے ہیں

میرے والد ایک عظیم شخصیت تھے کیونکہ وہ میرے خاندان میں سب کے جذبات کا خیال رکھتے تھے میرے والد ہی تھے جنہوں نے مجھے ایک بہتر انسان بننے میں مدد کی مزید یہ کہ میرے والد ہی تھے جن کا میں اپنی صحت مند اور محفوظ زندگی کے لیے شکریہ ادا کرتا ہوں میرے والد ایک مہربان آدمی تھے جو بہت شائستہ تھے اور وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنا پسند کرتے تھے اس کے علاوہ وہ ہمیں اچھے اخلاق بھی سکھاتے تھے اور ہمارے پاس موجود تمام چیزوں کے لئے شکر گزار ہونے میں ہماری مدد کرتے تھے سب سے اہم بات میرے والد ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کرتے تھے میرے والد کا دل نرم تھا اور یہی وہ چیز ہے جس کی میں کوشش کرتا ہوں وہ کبھی اپنی آواز بلند نہیں کرتے تھے

اور سب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے اس کے علاوہ میرے والد ایک منفرد شخصیت تھے جو ایک اچھے شہری کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے تھے وہ کبھی کسی قانون یا ضابطے کو نہیں توڑتے تھے مجموعی طور پر میرے والد ایک رہنما کی طرح تھے جو اپنے خاندان کا خیال رکھتے تھے میرے والد میری پسندیدہ شخصیت اور میرا سب سے بڑا سرمایہ تھے پوری کائنات میں والد ہی وہ شخص ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے اولاد ہر ڈر سے ناآشنا ہوتی ہے ادھر کوئی خواہش دل میں اُبھری،اُدھر والد نے پوری کر دی یقینا خا لقِ کائنات نے والد کے رشتے کو ایثار اور قربانی کی معراج بخشی ہے

اپنے لئے زندگی کی ہر رعنائی،آسائش اور سکون سے کنارہ کشی اختیار کرکے دن رات محنت کرنے والا باپ جب رات کو تھک ہار کر بستر کو لوٹتا ہے تو اس کا انگ انگ درد اور تکلیف کی عملی تصویر ہوتا ہے پھر بھی وہ ایک مضبوط چٹان کی مانند اپنا درد کسی سے بیان نہیں کرتا اُسے بھی اپنا بچپن یاد آتا ہوگا اپنے ماں باپ یاد آتے ہوں گے بہن،بھائی اوردوست احباب یاد آتے ہوں گے جو اس سے بچھڑ گئے مگر وہ اولاد کے سامنے روتا نہیں اُسے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے کمزور پڑنے کا احساس اس کی اولاد کو بھی کھوکھلا کر دے گا لہٰذا وہ کبھی اپنی ذمہ داریوں سے غفلت نہیں برتتا، چاہے اس فرض کی ادائیگی کے لئے اُسے اپنا آپ بھی قربان کرنا پڑے وہ اولاد کی خوشیوں کے لیے ہر حد سے گزر جاتا ہے دنیا میں والدین کا رشتہ ہی ایک ایسا انوکھا اور اٹوٹ رشتہ ہے

جو ہر وقت دنیا کے نشیب و فراز سے گزر کر بھی ویسا ہی رہتا ہے بلکہ اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے دنیا میں ماں کے بعد سب سے اہم اور اولین رشتہ باپ ہی کا ہے اور والد ایک مضبوط سہارا ہے اولاد کیلئے جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے باپ کو خوش رکھنے والا اللہ تعالیٰ کو خوش رکھنے والوں میں شامل ہے والد محبت و چاہت،صبر و خلوص،ایثار اور بردباری کا پیکر ہے باپ کا اولاد سے رشتہ ہی انوکھا ہے دنیا کے زیادہ تر باپ بظاہر کرخت،بارعب اور غصے والے لگتے ہیں جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا والد کے غصے کی بدولت اہلِ خانہ ایک چھت تلے باحفاظت مقیم ہوتے ہیں باپ کی ڈانٹ تو اولاد کیلئے ایسی ہے جیسے انسانوں کیلئے ہوا۔ باپ کی شفقت اور دعاؤں کی حدت خاموش سمندر کی مانند ہے جس کی لہروں میں شدت پنہاں ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ رب العالمین نے والدین کے حقوق کو اپنے حقوق کے ساتھ بیان فرمایا ہے اللہ ربُ العزت سے دُعا ہے

کہ ہمیں صحیح معنوں میں والدین کی خدمت کی توفیق نصیب فرمائے اور اُن کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے اُن کی اولاد کو ان کیلئے صدقہ جاریہ بنائے اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین باپ دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جو کہ اپنے بچوں کی پرورش کیلئے اپنی جان تک لُٹا دیتا ہے ہر باپ کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہترین معیارِ زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکے اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں ”نبی اکرمﷺ سے ایک نوجوان نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ میرے ابا جی میرے سے پیسے مانگتے ہیں میرے لئے کیا حکم ہے؟ حضور ﷺ نے اس بات کا جو جواب دیا اس نے سارا مضمون مکمل کر دیا محبوب ﷺ فرمانے لگے تُو بھی اپنے باپ کا ہے اور تیرے پیسے بھی تیرے باپ کے ہیں۔“ ماں باپ کے معاملے میں بالکل بھی سختی مت دکھاؤ جو شخص ماں باپ کی جھڑکیاں نہیں سہہ سکا تو اُس نے سہنی کس کی ہیں؟

والدین کی جھڑکیاں سہو،اگر یہ ڈانٹ دیں تو برداشت کرو ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ ”ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو، اگر تمہارے ہوتے ہوئے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہو،نہ اُنہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام اور ادب سے بات کرو اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھو اور دعا کرتے رہو کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسے ہی کرم فرما جیساانہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کرتے ہوئے میرے ساتھ کیا” والد کو یہ فضیلت دی گئی ہے کہ جب وہ اولاد کے حق میں دعا کے لیے اپنے ہاتھ ربِ کائنات کی بارگاہ میں اٹھاتا ہے تو اس کے اور اللہ کریم کے درمیان سب فاصلے سمٹ جاتے ہیں اور کوئی پردہ قائم نہیں رہتا رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ ”والد کی دعا اللہ کے خاص حجاب تک پہنچتی ہے (یعنی بلا توقف قبول ہوتی ہے)” ہماری خواہشات پوری کرتے کرتے ہمارے والد بھول جاتے ہیں کہ ان کے دل میں اپنی ذات کے لیے بھی کچھ حسرتیں تھیں۔ نہ تو کبھی کسی نئی آسائش کی تلاش کرتے ہیں

اور نہ ہی اپنے لئے اچھا پہننے اوڑھنے کی تمنا کرتے ہیں ہمارے آرام کے لیے اور ہماری ضروریات کو پورا کرتے ہوئے کبھی ان کے ماتھے پہ کوئی بل نہیں پڑتا کبھی وقت ملے تو اپنے والد کاہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دیکھیں آپ کے ہاتھوں کی لکیریں اُبھارنے کے لئے اُن کے اپنے ہاتھوں کی لکیریں مٹ گئی ہیں ان کے چہرے پہ سجی جھریاں دیکھیے جو گواہ ہیں کہ آپ کا مستقبل بناتے بناتے وہ کن آزمائشوں سے گزرے ان کے لبوں پہ جاری دعاؤں کے ورد سے پوچھیے آپ کی کامیابیوں کے لئے دعاؤں کے یہ سلسلے کتنے شب و روز کی منازل طے کرچکے شاید آپ کو احساس ہو جائے کہ تمام دنیاوی کامیابیاں ان کی دعاؤں کا ثمر ہیں آپ کا پُرسکون آج ان کی شبانہ روز کاوش اور گزرے ہوئے

مشکل کل کا منہ بولتا ثبوت ہے وقت کا پہیہ گھومتا ہے اور پھر اچانک اولاد کے سر سے والد کا سایہ اُٹھا لیا جاتا ہے جو اولاد کو زمانے کا اصل روپ دکھاتا ہے پہلی دفعہ احساس ہوتا ہے کہ والد کے بغیر زندگی کتنی بے امان ہیں ایک ہلکی سی آہٹ،کسی کی زبان سے نکلا کوئی سخت لفظ، دھوپ کی حدت،جاڑے کی سختی اولاد کے لئے ناقابلِ برداشت عذاب بن جاتے ہیں تب علم ہوتا ہے کہ وہ گھنا سایہ جس کے ہوتے ہوئے انہیں کبھی اس کی موجودگی کا احساس نہ تھا کتنی مضبوط اور محفوظ پناہ گاہ تھی پھر بچپن سے لے کر ان کے بچھڑنے کی آخری لمحے تک ان کی باتیں،ان کی یادیں،ان کی قربانیاں لمحہ بہ لمحہ یاد آتی ہیں اور انسان کے پاس صرف آنسو ہی باقی بچتے ہیں ہمیں بحیثیت اولاد جہاں ماں کے قدموں تلے جنت کو ڈھونڈنا ہے وہیں والد کی رضا اور خوشنودی حاصل کر کے اس دنیا کوبھی جنت بنانا ہے

کامیابیوں کا دار و مدار ماں باپ دونوں کی اطاعت اور فرمانبرداری پر ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی برتیں اور جب ان کا سایہ ہمارے سر سے اُٹھا لیا جائے تب ساری زندگی پچھتاوے میں گزار دیں جن کے سر پر والدین کا سایہ موجود ہے انہیں چاہیے کہ اپنی مصروفیات میں سے روازانہ وقت نکال کر ان کے ساتھ وقت گزاریں انہیں احساس دلائیں کہ وہ بہت خاص ہیں بہت قیمتی ہیں۔ان کی دعاؤں سے اپنی زندگی اور عاقبت کو سنواریں، انہیں کوئی دکھ نہ دیں یقینا اگر ماں ٹھنڈی چھاؤں ہے تو باپ وہ سایہ دار درخت ہے جو سخت موسموں کی حدت اپنی کمر پہ برداشت کرتا ہے اور ماں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اولاد کو ٹھنڈی چھاؤں مہیا کرسکے میں آج کے نوجوانوں کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں

کہ ماں باپ کی قدر ان کی زندگی میں کرو ورنہ تمھیں ان سے ملنے کیلئے قبرستان جانا پڑے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں اپنے والدِ محترم کی جوتیوں کے طفیل ہوں۔ میں اکثر بچپن میں والد صاحب سے پوچھتا تھا کہ آپ خاندان میں جہاں کہیں بھی فوتگی ہو وہاں فوراً چلے جاتے ہیں۔ وہ کہتے کہ بیٹا! میں کیوں جاتا ہوں یہ تمھیں وقت بتائے گا۔ ایساہی ہوا، جس دن والد صاحب اس فانی دنیا سے لافانی دنیا کی طرف روانہ ہوئے تو نہروپارک گراؤنڈ میں ہر طرف لوگ اُمڈ آئے۔ ارد گرد کے روڈ بند ہوگئے، تب مجھے احساس ہوا کہ آج دنیا سے رخصت ہونے کے بعد میرے والد صاحب مجھے میرے سوال کا جواب دے گئے ہیں اللہ تعالیٰ میرے والد محترم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔آمین یا رب العالمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں