59

جتنا بڑا انگریزی ادویات ہاسپٹل اتنا ہی انکے مریضوں کو لوٹنے کے مواقع

جتنا بڑا انگریزی ادویات ہاسپٹل اتنا ہی انکے مریضوں کو لوٹنے کے مواقع

نقاش نائطی
۔ +9166562677707

گاؤں میں دس بیس کاریں ٹیکسی کے طور مصروف خدمت تھیں۔ایک بڑے ساہوکار نے انتہائی قیمتی اعلی اقسام کی بڑی مہنگی ترین نئی کاریں خرید، اسے ٹیکسی کے طور چلانے کےلئے گاؤں میں متعارف کردیا تھا۔ شروع شروع میں لوگ بڑے خوش ہوئے، بھلے ہی ان اعلی کاروں پر کہیں آنے جانے اجرت پرانی ٹیکسیوں کے مقابلے دگنی لگتی تھی لیکن اتنی شاندار امپورٹیڈ کاروں میں گھومنے پھرنے کے لئے، کچھ زیادہ اجرت دینا کسی کو بھی برا نہیں لگتا تھا۔

گاؤں کے امراء تو کجا متوسط طبقہ بھی بڑی شان سے ان امپورٹیڈ ٹیکسیوں کا عادی ہوچکا تھا۔ پہلے پرانی ٹیکسی چلانے والے کب تک نقصان برداشت کرتے اس لئے انہوں نے، اپنی اپنی ٹیکسیاں دوسرے گاؤں لے جا بیچ کر، اسی ساہوکار کی امپورٹیڈ ٹیکسیوں میں ڈرائیور کی نوکری کرنے لگےتھے۔ اور یوں گاؤں والے بھی خوش اور ساہوکار بھی بڑے تفخر سے عوامی خدمات کے اپنے گن گاتے، معاشرے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کامیاب ہوگیا تھا

کچھ وقفہ بعد ساہوکار نے اس کی ٹیکسی کا کرایہ بڑھایا۔ کچھ دنوں بعد گاؤں کے لوگ اس نئے بڑھے ہوئے کرائے کو اپنے روز مرہ مصارف میں ایڈجسٹ کرنے کامیاب ہوگئے۔ اس سے ساہوکار کی ہمت اور بندھی۔ اس نے وقفے وقفے سے اور کرایہ بڑھاتے بڑھاتے، اپنی اعلی ٹیکسیوں کا کرایہ اتنا بڑھادیا کہ اب گاؤں والوں کے لئے یہ ٹیکسی سفر محال ہونے لگا۔بڑھے ہوئے ٹیکسی کرایہ پر لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں، لیکن معاشرہ اس کا اتنا عادی ہوچکا تھا کہ شکایات اوپر ذمہ داران معاشرہ تک جا ہی ہی نہیں پائی۔

امراء تو امراء متوسط طبقہ کے ساتھ غرباء میں سے بھی نوجوانوں کی اکثریت دلیلیں دئے ساہوکار کے بڑھائے کرایہ کی ہمایت کرنے لگے تھے۔ جو غرباء اس مہنگی کاروں میں سفر سے اجتناب کئے یا تو پیدل یا اپنوں کی سائیکلوں اسکوٹروں پر طویل مسافت طہ کرنے ترجیح دیتے پائے جاتے تھے وہ بھی کسی کے بیمار پڑنے پر یا کسی تقریب میں جلد پہنچنے مجبوری باعث، قرض لئے اس مہنگی سواری استعمال کرنے مجبور ہونے لگے
کچھ وقفہ بعد جب ٹیکسی کرایہ بوجھ سے معاشرے میں غرباء کچھ زیادہ قرض کے بوجھ سے ادھ مرے ہونے لگے تو کچھ ساہوکاروں نے رضاکاروں کو آگے کئے، رفاعی ادارے کے توسط مالدراوں سے زکاةجمع کئے، ان غرباء کے قرض ادا کرنے شروع کئے۔ اس سے معاشرے میں ایک حد تک مساویت واطمینان آچکی تھی۔ ایک طرف شاہانہ ٹیکسی سفر دوبارہ رواں دواں ہونے لگا اور شاہانہ ٹیکسی سفر بوجھ سے قرض داروں کے قرضے زکاة پیسوں سے ادا کئے جانے کے انتظام سے، وہی مالداروں کے نکالی زکاة رقوم غرباء کے ہاتھوں ہوتے ہوئے، انہی تک گھوم گھوم واپس آنے لگی تھی۔

اس دیش پر سابقہ 11 سالوں سے مسلم منافرتی حکومت چلانے والے ایشور کے خود ساختہ اوتار وشؤگرو کی بتائی بات, اپدھا میں بھی اوسر تلاش کیا جائے، یعنی مصیبت میں بھی کمائی کے مواقع تلاش کئے، پیسےکمانے کا ساہوکاروں کا پیشہ بھی زوروں سے چلنے لگا
جتنا بڑا انگریزی ادویات ہاسپٹل اتنا ہی انکے مریضوں کو لوٹنے کے مواقع
بات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے یہ ٹیکسی کہانی سامنے لائی گئی ہے۔ ہم مسلمان خصوصا” آل عرب ہم اہل نائطہ تجار قوم بھٹکل، اپنے ہزار سالہ آن ریکارڈ دستاویز سے پورے دیڑھ ہزار سال سے، ہندستان کے لئے ایک رول ماڈل کی طرح رہتے آئے ہیں۔اس لاسلکی میڈیا ترقی پزیری ماورایت 2012 – 2013 دورمیں بھی، خلافت عثمانیہ کو گھیرتی عالمی یہود و نصاری حربی قوتوں نے، یورپی علاقے سربیا، بلغاریہ، یونان اور مونٹی نیگرو پر مشتمل جنگ بلقان میں، سلطنت عثمانیہ کی شکست ہزیمت زد مسلم علاقوں کی باز آبادکاری کے لئے، جنوب ھند بھٹکل میں اکٹھا کی گئی امدادی رقوم ان ایام لاسلکی ماورائیت والے دور میں بھی، اہلیان بھتکل نے پوری کی تھی. بعد آزادی ھند اس غیر ترقی یافتہ دور میں، جہاں شہروں میں انگریزی ادویات ڈاکٹر بڑی مشکل سے دستیاب ہوتے تھے آل بھٹکل کی بڑی بوڑھی دادیاں نانیاں،

ہر گھروں میں، اس لکڑی جلا کھانا پکانے والے پس منظر میں، ایک کالے کلوٹے بسکٹ ڈبے میں کچھ یونانی ایوروئدک جڑی بوٹیاں صدا دستیاب رکھے، سال میں دو مرتبہ گھر کے تمام بچوں کو کچھ جڑی بوٹی دواوں پر مشتمل حریرہ یا عرق،حفظ ماتقدم زبردستی پلاتے پلوائے، انہیں موسمی امراض سے نجات دلوائے اور گھر کے کسی مکین کے بیمار پڑنے پر، اس جڑی بوٹی والےڈبے سے کسی جڑی بوٹی کو پھتر سیل پر گھس کر، بیمار کو پلایا جاتا تھا یا پانی میں ابال کر جوشاندہ یاکاڑھا مرئض کو پلائے، انہیں صحت یاب کرایا جاتا تھا۔ ان ایام ہر گھر میں موجود کوئی بڑی بوڑھیا ہی پورے گھر کے مکین کو صحت ہابی دلوانے کی موجب ہوا کرتی تھی۔

بھٹکل جیسے مسلم اکثریتی علاقے میں، ساتھ کے دہے تک، ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور دو ایک نیم حکیم خطرہ جان جیسے میڈیکل پریکٹیشنر اور گھر کی مرغی دال برابر سمجھے جانے والے ایک مستند تجربہ کار ہومیوپیتھ حکیم ہوا کرتے تھے۔ ان ایام انگلش ادویات ڈاکٹر کے کسی محلہ سے گزرنا ہر کسی کی نظریں ڈاکٹر کا تعاقب کرتے

مریض کے گھر تک تیمارداروں کو پہنچایا کرتی تھیں اور کسی محلے میں ڈاکٹر کی آمد،عنقریب کسی کے مرنے کی پیشین گوئی سمجھی جاتی تھی اکیسویں صد ابتداء سے پہلے غالبا” ہم تارکین وطن مملکت سعودی عربیہ منطقہ شرقیہ والوں نے، خلیج ہی میں مصروف معاش ڈاکٹر ضرار ایف آر سی ایس کی ذاتی نگرانی میں، ہم منطقہ شرقیہ جماعت المسلمین این جی او کی طرف سے، شہر بھٹکل رابطہ آفس بلڈنگ میں، ایک مسیحی ایم بی بی ایس مستند ڈاکٹرہ کی نگرانی میں، صرف دس روپئیے فی مریض موسمی امراض مریضوں کی شفایابی کا ٹھیکہ لئے، ایک حساب سے تقریبا فری رابطہ کلینک چلا رہے تھے۔

روزانہ صبح شام سوا سو سے دیڑھ سے موسمی امراض کے مارے مریض،صرف دس روپئیے میں صحت یاب ہوا کرتے تھے۔ لگتی تو یہ معمولی خدمت، لیکن تصور کریں فی زمانہ عموما” کوئی بھی انگریزی ادویات ڈاکٹر کسی بھی موسنی امراض مرئض کو، مختلف لیبارٹری ٹیسٹ دوائی انجیکشن سمیت تین چار سو روپئیے جیب ڈھیلی کرنے مجبور کیا کرتا ہے،سوا سو سے دیڑھ سے مریض روزانہ ہفتہ کے 6دن مہینے کے 26 دن،سال کے 312 دن اجمالی، ایک سے دیڑھ کروڑ سالانہ قوم کی صرف امراض صحت بچت کروایا کرتے تھے

۔ تصور کیا جائے پندرہ بیس سالہ رابطہ کلینک نے قوم کے کتنے کروڑ کی بچت کروائی ہوگی؟ اللہ بھلا کرے نام نہاد شرفاء قوم نے، اپنی سرمایہ دارانہ سوچ سے، خلیجی ممالک خدمت کر لوٹے کسی مایر ڈاکٹر کی وطن باز آبادکاری کے بہانے، قوم کو کروڑوں کےحساب سے مستفید کرتی تقریبا” فری خدمات دیتی رابطہ کلینک ہی کو کھودینے کی راہ پر گامزن کردیا تھا

آج کے اس تمدنی ترقی پزیر مادئیت بھرے دور میں، جہاں ہر سو تقریبا” انگریزی ادویات ڈاکٹرس، اپنے ایک وقت کے خدمت خلق کے لئے مشہور پیشہ طب کو، اپنے عیش و عشرت کے لئے، پہلے سے قہر خداوندی کے مارے مریضوں کو، دونوں ہاتھوں سے لوٹتے عمل کو، اپنی مہارت سمجھتے ہیں مختلف اقسام اسقام کے مارے مریضوں سے جائز ڈھنگ شفایابی کے لئے رقوم لینا غلط نہیں ٹیرایا جاسکتا ہے

لیکن اس پورے ہندستان کے بیسویں ریاستوں کے پچاسوں شہر کے بڑے ہاسپٹل میں، بڑی تنخواہوں پر مصروف معاش اعلی تعلیم یافتگان ڈاکٹر حضرات، اپنے کروزر پتی مالکان کو، اپنی اچھی تنخواہوں کے عوض اچھی کمائی کما کر دینےکے لئے، مجبور مریضوں کو غیر ضروری ٹیسٹ و نیز ایم آر آئی کراتے ہوئے، غیر ضروری آپریشن سیٹ کروائے ، پہلے سے مصیبت زدگان مریضوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے لوٹنا یا لوٹتے ان بڑے ہاسپٹل والوں کی مدد کرنا کہاں تک جائز عمل ٹہرایا جائیگا؟
آجکل بڑے ہاسپٹل والے اپنے یہاں آنے والے مریضوں کو کمائی لائق پروُکٹ تصور کرتے ہیں اور جائز ناجائز طریق ان پروڈکٹ سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا یا رقوم ایٹھنا اپنا مہارتی فن سمجھتے ہیں۔

ائے دن اخبارات کی زینت، مجبور و بے کس مریضوں کو نت نئے طریق لوٹتے واقعات منظر عام آتے رہتے ہیں حد تو اس وقت ہوتی ہے جب صاحب حیثیت مرہضوں کے دم توڑنے کے باوجود، انہیں جدید ترین مشینوں پر رکھے، انکے ورثاء کو زیادہ سے زیادہ لوٹنے والے واقعات بھی اخبارات کی زینت بن رہے ہیں۔ ایسے میں مجبور مریضوں کو شفایابی کے بہانے لوٹتے پس منظر میں اور خصوصا” موسمی امراض جو ازخود بغیر علاج کئے بھی خالق کائینات کے ہر انسانی جسم میں ودیعت کئے ہوئے خود کارانداز شفایابی ایمیون سسٹم صحت یابی قدرتی علاج باوجود، ہر موسمی امراض مریضوں کو مختلف لیبارٹری ٹیسٹ انجکشن ڈرپ دوائی وغیرہ پر کئی کئی ہزار ایٹھتے لوٹتے پس منظر میں ، کسی مقامی این جی او کی طرف سے ایک عام امراض تشخیص فزیشن عام ڈاکٹر پر مشتمل دس پندرہ پچیس روپئیے تک، فی مریض سے رقم لیتے ہوئے

، انہیں شفا یاب کرتے رعایتی دام کلینک موجودہ معاشرے کی اشد ضرورت ہے۔ مریضوں کو زکاة مد امداد شفایابی کے لئے قریبی شہر بھیج فی مریض کئی کئی ہزار اسکی شفایابی کے لئے خرچ کرنے کروانے کے بجائے، ہر شہر کے مختلف حصوں میں، کثرت آبادی تناسب سے، ایک سے زاید واجبی دام پر علاج معالجہ کروانے والے شفاخانوں کی صالح معاشرہ کو اشد ضرورت ہے۔ مسلم اکثریتی معاشرے والے رفاعی ادارے

مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل کےغرباء و مساکین امدادی راشن پانی سپلائی پیکیج، افلاس سے مارے نوجوانوں کی تعلیمی ضروریات و مریضان ملت کی شفایابی اخراجات پر کروڑہا کروڑ سالانہ بجٹ زکاة صرف کئے جاتے پس منظر میں، کیا قوم و ملت کا رزاق دوجہاں کی طرف سے،خوب تر نوازا یا بخشا ہوا، موسمی امراض ہزاروں مریضوں کو شفایابی کے بہانے کروڑہا کروڑ لوٹنے سے آمان دلانے ہی کے لئے، انسانیت ہی کی خدمت کی خاطر، انہیں موسمی امراض شفایابی دلانے رعایتی دام شفا خانے کیا کھول نہیں سکتے ہیں؟ومالتوفیق الا باللہ

بہار کے ایک مسیحا ڈاکٹر

ڈاکٹر اروند بہار کے غریبوں کے لئے نجات دہندہ ہیں، صرف 25 روپے میں مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔

ڈاکٹرز، جنہیں زمین پر خدا کی مانند سمجھا جاتا ہے، بہت سی بیماریوں اور زخموں کے لیے جان بچانے والا علاج پیش کرتے ہیں۔ آج ڈاکٹرز ڈے پر ہم آپ کو ایسے ہی ایک ڈاکٹر سے ملواتے ہیں جو پچھلے 25 سالوں سے غریبوں کے لیے نجات دہندہ ہیں۔

پٹنہ: بہار کی راجدھانی پٹنہ نامور ڈاکٹروں سے بھرا ہوا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں ڈاکٹروں کی فیس بھی مہنگی ہوگئی ہے۔ لیکن آج ہم ایک ایسے ڈاکٹر کے بارے میں معلومات شیئر کر رہے ہیں جو صرف 25 روپے لیتا ہے اور مریضوں کا علاج سستی ادویات سے کرتا ہے۔۔
ڈاکٹر اروند مریضوں کے لیے نجات دہندہ بن گئے ہیں۔
ان کی طبی خدمات تقریباً 25 سال سے بلا تعطل جاری ہیں۔ ڈاکٹر اروند کا کلینک پٹنہ کے کدمکوان محلے میں واقع ہے۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک میز پر بیٹھ کر نسخے لکھنے والا یہ ڈاکٹر دور سے تو عام سا لگتا ہے لیکن بظاہر عام نظر آنے والا یہ انسان لاتعداد لوگوں کے لیے نجات دہندہ بن چکا ہے۔لوگ دور دور سے علاج کے لیے آتے ہیں۔
وہ جو دوائیں تجویز کرتا ہے وہ بہت موثر ہے۔ اس کے پاس تقریباً روزانہ ایک بڑا ہجوم آتا ہے۔ ڈاکٹر اروند ایک جنرل فزیشن ہیں۔
*انتقال کرچکے مریض کو آئی سی یو میں رکھے مرنے وے کے رشتہ داروں کو بعض ہاسپٹل کے لوٹتے واقعات

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں