بھارت کا اعلی تعلیمی اقدار خطرے میں
نقاش نائطی
۔ +966562677707
ریڈ مائیک ٹی وی کے “اشاروں اشاروں ہی میں آپ کاسواگت ہے” پروگرام میں لنکیش اوپادھیائے نے، آرایس ایس، بی جے پی مہان مودی جی، یوگی جی مہاراج کے رام راجیہ میں، تعلیم کے گرتے معیار پر، پیش کئے گئے، اپنے پروگرام میں، انپڑھ جاہل یوپی اسٹیٹ چیف منسٹر یوگی مہاراج اور نہ صرف ان پڑھ جاہل بلکہ اکشے کمار کو دئیے گئے ٹی وی انٹرویو میں خود سے اقرار کرتے انکے خود کہے “اسکول پڑھاتی کرتی عمر میں گھر سے بھاگے تیس سال تک در در گھوم بھیک مانگ کھا کر پلے بڑھے” مگر نقلی ڈگری رکھنے والے مہان پی ایم مودی مہاراج کے رام راجیہ میں، تعلیم کا معیار اتنا گر گیا ہے
کہ دس سالہ سنگھی ارایس ایس، بی جے پی، مودی، یوگی رام راجیہ میں، مسلم منافرت یا رام بھگتی کی ایسی فضا قائم کی گئی ہے کہ مودی بھگت یا رام بھگت، آوارہ بچےکالج و یونیورسٹی امتحانات میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات لکھنےکے بجائے، کچھ تو بھی آناپ شناب پرچہ بھرکر لکھنے کے بعد، اپنے آپ کو، رام بھگت ثابت کرتے ہیں تو، پڑھے لکھے اعلی تعلیم یافتہ یونیورسٹی کے پروفیسر حضرات بھی، ایسے رام بھگت یا سنگھ بھگت ہوگئے ہیں کہ اپنے جیسے کسی رام بھگت یا سنگھ بھگت طالب علم کو، اسے کسی مضموں لاعلمی کی وجہ فیل کرنے کے بجائے، بعض سوالات میں 9/10 یعنے 90 فیصد تک مارکس دئیے، اسے اجمالی 50 فیصد مارکس سے کامیاب کرتے پائے جارہے ہیں۔
اور وہ بھی کسی ابتدائی مدارس کلاس کے امتحان میں نہیں، بلکہ یونیورسٹی کے انسانی صحت عامہ سے تعلق رکھنے والے انتہائی اہم مضموں، بی فارما امتحانی پرچوں میں، کچھ نہ جاننے والے، واہیات انداز پرچہ بھر کر لکھنے والے، سنگھی ذہنیت طلبہ کو، 50فیصد مارکس دئیے کامیاب کردیتے ہیں۔ تصور کیجئے یہ ان پڑھ جاہل سنگھی ذہنیت بچے، بی فارما ڈگری لئے، دیش کے بازاروں میں ،کسی بھی دوائی دوکان میں کام کرینگے تو، علم و عرفان سے نابلد وہاں پر بھی، مہان مودی جی کے من کی بات دیش پر نوٹ بندی نافذ کئے،
عالم کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کی معشیت تاراج کئے جیسا ہی، یہ سنگھی ذہنیت ان پڑھ نقلی ڈگری لئے بچے، کسی مسلم برقعہ پوش نساء کو یا داڑھی ٹوپی والے مسلم مرد کو دیکھ کر اور خود ساختہ ایشور کے اوتار اور وشؤ گرو مہان مودی جی کے انتخابی جن سبھا میں، اپنے سنگھی گرگوں کودئیے تعلیم کے حساب سے، کسی مسلم دلت گراہک کو پہنچان کر، اپنے گرو مودی جی کے “من کی بات” پر عمل پیرا، شفایابی دوا دینے کے بجائے، سم قاتل دوا دانستہ ان مسلمان و دلت مریضوں کے ہاتھوں میں دئیے،
انہیں جان سے مارتے ہوئے، اپنے سنگھی ذہنیت کو سکون مہیا کررہے ہونگے۔یہ سنگھ بھگتی کا واقعہ کسی سڑک چھاپ اسکول یا مدرسہ کا نہیں، بالکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سب بڑے صوبے اترپردش کے جونپور ضلع میں ویر بہادر پوروانچل یونیورسٹی کے شعبہ طب ڈی فارما سیکشن میں، تعلیم حاصل کررہے، آر ایس ایس، بی جے پی مودی، یوگی، رام بھگت چار طلبہ نے، اپنے جوابی پرچہ میں، اناپ شناب کچھ بھی لکھ پرچہ بھرنے کے باوجود، یونیورسٹی کے دو پروفیسر حضرات نے، الگ الگ امتحانی پرچے چیک کرنے کے بعد، انہیں اجمالی پچاس فیصد مارکس سے ڈی فارما امتحان پاس کروایا ہے
اسی یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم نے، ان آوارہ ان پڑھ بچوں کے اتنے اچھے نمبرات سے ڈی فارما امتحان کامیاب ہونے پر، کہیں نہ کہیں کچھ ڈال میں کالا محسوس کرتے ہوئے، کسی اسٹیٹ کے کل یونیورسٹیز کے چانسلر تصور، گورنر آفس میں، حکومتی سہولت کے مطابق آر ٹی آئی داخل کئے، آن چار بچوں کے امتحانی پرچے دوبارہ جانچ کرنے کی مانگ کی اور گورنر آفس سے یونیورسٹی کو، ان چار طلبہ کے امتحانی پرچے دوبارہ جانچ حکم بعد، دوبارہ پرچے جانچ میں، انہئں زیرو مارکس دئیے امتحان میں فیل کر دیا گیا ہے۔
اور وی ایس ایس پی یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر شری وندنا سنگھ نے، میڈیا سےبات کرتے ہوئے، ان چار بچوں کے پیپر پہلے جانچ کرنے والے دونوں پروفیسر حضرات کو سسپینڈ کرتے ہوئے جانچ کرنے کا حکم سنایا ہے۔یہاں ان دو پروفیسر کو سسپینڈ اور چار بچوں کو فیل کرنا اصل مقصد نہیں ہے۔ بلکہ ان پڑھ سیاستدان خاص کر کسی اسٹیٹ کے چیف منسٹر اور کسی دیشں کے پرائم منسٹر کے نہ صرف ان پڑھ جاہل بلکہ نقلی ڈگری والے فرادئیے کے، اتنے اہم عہدوں پر فائز رہتے ہوئے،
اور کسی بھی ریاست کا گورنر بھی مرکز پر حکومت کرریےحکمران سیاسی پارٹی کی طرف سے نامزد کئے جانے والے ان پڑھ سیاست دان بھی گورنر منتخب کئے جاسکتے، پس منظر میں، مذہبی منافرتی بی جے پی کے مرکزی حکومتی عہدوں پر براجمان رہتے، کسی بھی ریاست میں، بی جے ہی حکومت ہی رہتے، ڈبل انجن بی جے ہی سرکاری ریاستوں والی یونیورسٹیز میں، سنگھی ذہنیت پروفیسر واسٹاف بھرتی کئے جاتے تناظر میں، تعلیم کے گرتے معیار کو دیکھا جاسکتا ہے۔
پروفیسر وندنا، وائس چانسلر،وی ایس ایس پی یونیورسٹی جونپور،یوپی
پینسٹھ سالا کانگرئسی حکومت دوران ،آرٹی آئی سہولیات دینے ہی کی وجہ سے، اللہ کے ایک بندے نے، اپنے جاننے والے جاہل چار بچوں کے امتیازی نمبرات ڈی فارما امتحان پاس ہونےپر، اسے حاصل آرٹی آئی سہولیات کا استفادہ حاصل کئے، گورنر سے تحقیقات مانگ کی تو، چاروں بچوں کو صفر مارکس دئیے امتحان میں فیل کر دیا گیا اور دونوں پروفیسر حضرات کو سسپینڈ کیا گیا ۔ ذرا تصور کریں مرکز و صوبوں میں ڈبل انجن والے پندرہ سولہ ریاستوں میں قائم تیس ایک یونیورسٹیر کے امتحانات میں کتنے سو ہزار سنگھی ذہنیت بچوں کو، یوں ہی پاس کئے جاتے، انہیں اپنی ذاتی معشیت سنوارنے کے سازشانہ مواقع دیتے، کیسے عوام کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے کھلا چھوڑا گیا ہوگا؟
ایسے میں یہ سوال ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ پینسٹھ سالہ کانگریسی راجیہ میں،بعد آزادی ھند گورے انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ بعد قلاش، بے روزگار، نیز غریب چھوڑے گئے بھارت میں، اس وقت آزاد بھارت کے پہلے وزیر تعلیم المحترم متوفی ڈاکٹر عبدالکلام آزاد علیہ الرحمہ نے اس وقت کے پرائم منسٹر آنجہانی جواہر لال نہرو سے اپنے دوستانہ تعلقات کے چلتے، غریب و متوسط دیش واسیوں کے محدود وسائل وصول شد ٹیکس پیسوں سے، تعلیمی فروغ کے لئے بجٹ پاس کروا، اپنے دور رس نتائج والے پانچ سالہ متعدد منصوبوں سے، پورے دیش بھر میں، لاکھوں اسکول ہزاروں کالجز اور بیسیوں یونیورسٹیز کے علاوہ انگنت آئی آئی ٹی ، آئی آئی ایم مینیجمنت کالجز و یونیورسٹیر قائم کرتے ہوئے، وقت آزادی ھند، ان پڑھ جاہل اور معشیتی طور تباہ چھوڑے گئے بھارت میں، تعلیم عام کرتے ہوئے،
ہزاروں لاکھوں اعلی تعلیم یافتگان کی کھیپ ہر سال پیدا کرتے ہوئے، سابقہ پینسٹھ سالہ کانگرئسی راج میں، جو اعلی تعلیمی انقلاب برپا کیا تھا، جس سے بھارت تو مستفید ہوا ہے ہی، عالم کے دوسو ملکوں نے بھی، ان اعلی بھارتیہ پرواسی تعلیم یافتہ مزدوروں سے بہتر انداز استفادہ حاصل کئے، خوب تر ترقی پزیری کے مدارج حاصل کئے تھے حس میں عالم کے دو مشہور اور معشیتی طور بڑے دو ممالک، امریکہ کے نائب صدر و برطانیہ کے پرائم منسٹر پد پر تک بھارتیہ نزاد اعلی تعلیم یافتگان پہنچتے ہوئے، عالم میں بھارت کے تعلیم یافتگان کوجو ممتازیت و ہکتائیت عطا کی گئی تھی۔ اب کی صرف گیارہ سال بھارت پر حکمرانی کررہے
، ان پڑھ جاہل بی جے پی حکمرانوں نے، خود کی طرح بھارت واسی سنگھ بگھتوں کو بھی ان پڑھ جاہل رکھے، انہیں اندھ بھگتی، سنگھ بھگتی، اور رام بھگتی کے عوض حکومتی من وسلوی کے طور، سازشانہ نقلی ڈگریاں مہیا کروائے، ان پڑھ رہتے ان سنگھئوں کو معشیتی طور مضبوط ہونے کے مواقع دئے، بھارت واسیوں کی جانوں سے کھیلتے ہوئے، نہ صرف بھارت میں،بلکہ عالم میں بھی، بھارتیہ تعلیمی معیار و اقدار کو بدنام و رسواء کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔ گوا عوامی جلسہ میں اقرار کئے مہان مودی جی کے جملے، “ہم تو فقیر منش ہیں، کبھی بھی،اپنا جھولا اٹھائے، کہیں بھی نکل جائینگے
(گجراتی پونجی پتیوں کی طرح ڈھیر ساری دیش کی لوٹی دولت لئے بھاگ جائینگے)” وقت آزادی ھند انگرئزوں کے تلوے چاٹنے والے ھندو مہاسبھائیوں کی یہ آج کی آرایس ایس، بی جے پی اولادیں، مودی یوگی جیسے سنگھی لیڈران ،اپنے دس سالہ رام راجیہ سنگھی زمام حکومت میں ، 2014 سے پہلے والے کانگریسی من موہن سرکار میں عالم کی سب سے تیز رفتار ترقی پزیر سرکار جس کی معشیتی تیز رفتاری کو دیکھ کر، عالم کے معشیتی پنڈتوں نے زوال امریکہ بعد 2030 تک بھارت کو عالم کی دعویداری ۔میں چائینا سے بھی آگے جہاں بتایا تھا
، وہی 2014 سے پہلے والی تیز رفتار ترقی پزیر بھارتیہ معشیت، آج گیارہ سالہ آرایس ایس بی جے پی سنگھی مودی یوگی رام راجیہ بعد، اپنے نوٹ بندی اور نفاذ جی ایس ٹی فیصلوں سے، اپنی تباہ و برباد ہوتی معشیت، عالمی تقابل میں، عالم کی رہنمائی کرنے کی بات تو دور، معشیتی طور پچھڑی سب سے زیادہ بیروزگار اور مہنگائی در سے ماری،اب 200 عالم کے ملکوں میں پچھڑی بھارتیہ معشیت بن چکی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ دیش کے 140 کروڑ دیش واسیوں نے، بھارت کو ترقی پزیری پر پہنچانے کے انکے بلند و بانگ دعوؤں وعدوں پر بھروسہ کئے، سابقہ گیارہ سالہ سے بھارتیہ حکومت کو ان سنگھیوں کے ہاتھوں سونپ کر، زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہے۔ یہ گیارہ سالہ مودی یوگی رام راجیہ 2014 سے پہلے تک اپنے معشیتی ترقی پزیری سے عالم کی دعوے داری میں چائنا سے آگے جو تھا
نہ صرف دیش کی پہلی سنگھ مکت بہار سرکار بناتے ہوئے، بہار انتخاب بعد اگلے سال منتخب ہونے والی آسام کیرالہ ٹامل ناڈو یوپی انتخاب میں بھی، خود مہان مودی جی کے کہے مخالف “سنگھ مکت کانگریس سرکار” لاتے ہوئے،11 سالہ سنگھی رام راجیہ میں پچھڑے بھارت کو دوبارہ ترقی پزیزی کی مدارج پر گامزن کرتے پائے جائیں گے۔وماعلینا الا البلاغ