64

مایوسیوں میں خود کشی نہیں بلکہ یہ کریں!

مایوسیوں میں خود کشی نہیں بلکہ یہ کریں!

تحریر شیخ الحدیث مولانا زبیراحمد صدیقیؔ
مدیر جامعہ فاروقیہ شجاع آباد
ڈپریشن ، الجھاؤ، مایوسیاں، خوف، ناامیدیاں، خواہشات کی عدم تکمیل، مطلوب کے عدم حصول پر مردوں، عورتوں، بچوں، بچیوں اور جوانوںمیں خود کشیوں کارجحان بڑھتا جارہا ہے،خود کشی کرنے والوں میں غریب، امیر، جاہل ، تعلیم یافتہ، ڈگری ہولڈر، بیوروکریٹ، وزراء، سرمایہ داران تک سبھی شامل ہیں،چند روزقبل اسلام آباد میں ایک نوجوان اور لائق ترین پولیس افسرگولڈ میڈلسٹ (ایس ایس پی)کی اپنے ہاتھوں، خود کو گولی مارنے کی خبریں ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہی ہیں، اس سے قبل بھی بے شمارواقعات رونما ہوئے ہیں،

نیز اس رجحان میںمزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔بعض مغربی نظریات کے حامل لوگ تو خود کشی کو نہ صرف جائز بلکہ انسانی حق تک قرار دے رہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ” نعوذ باللہ“ ہر شخص کو اپنے متعلق فیصلہ کا اختیار ہے، لہٰذا اگر کسی نے اپنے متعلق مرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو سب لواحقین کو اس کا فیصلہ قبول کرنا چاہیے۔
مذکورہ بالاموقف غیر معقول، غیر اخلاقی بلکہ غیر شرعی ہے، شریعت کی نظر میں انسان کے اعضاء اور اس کی جان کامالک انسان نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے ،انسانی اعضاء اور جان حق تعالیٰ نے ہمیں صرف حصول منفعت کے لیے بطور امانت دیےہیں، بطور ملکیت نہیں، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے وجود یا اپنی اولاد و نسل کو فروخت نہیں کرسکتا، ملکی اور بین الاقوامی قانون بھی کسی شخص کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اپنی اولاد کو فروخت یا قتل کر دے، حالانکہ ملکیت کی صورت میں تو یہ سب کچھ جائز ہوجانا چاہیے، انسان اپنے جانوروں کا مالک ہے، اس لیےانہیں ذبح کرنے کاحق بھی رکھتا ہے، اور لوگ اپنا یہ حق استعمال بھی کرتے ہیں،کوئی شخص اس پر اعتراض نہیں کرتا۔
معلوم ہوا کہ انسانی جان پر انسان کا ایک حدتک تصرف ہے، اس سے زیادہ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے خود کشی کو حرام اور باعث جرم قرار دیا ہے، خودکشی کی موت پریشانیوں اور تکلیفوں سے نجات کے لیےاختیار کی جاتی ہے، لیکن حقیقت میں خود کشی دنیا کی مصیبتوں اور پریشانیوں سے کئی ہزار گنا زیادہ پریشانیوں کا ذریعہ ہوتی ہے، اسلام نے تو اس جسم کی حفاظت ، اس کی خوراک، آرام اور علاج ومعالجہ تک کا حکم دیا ہے،

جناب رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” يَا عَبْدَ اللهِ، أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ وَتَقُومُ اللَّيْلَ، قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ، صُمْ وَأَفْطِرْ وَقُمْ وَنَمْ، فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا.(صحیح بخاری: 5199)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا: عبداللہ! کیا میری یہ اطلاع صحیح ہے کہ تم (روزانہ) دن میں روزے، رکھتے ہو اور رات بھر عبادت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو، روزے بھی رکھو اور بغیر روزے بھی رہو۔ رات میں عبادت بھی کرو اور سوؤ بھی۔ کیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔
آپ ﷺ نے ایسی نفلی عبادت سے منع فرمایا جو جان کی ہلاکت یا نقاہت کا سبب ہو، چنانچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اجازت طلب کے باوجود آپﷺ نے انہیںرات بھر عبادت کے لیے جاگنے سے منع فرمایااور روزانہ بلا تعطل نفلی روزہ رکھنے سے منع بھی فرمایا، شادیاں اور نکاح کو عبادت کے لیے ترک کرنے سے بھی منع فرمایا، قرآن کریم نے خود کشی سے صراحت کے ساتھ منع فرمایا، سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ۝۰ۣ وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا۝۲۹(النساء:29)
اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضا مندی سے وجود میں آئی ہو (تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔
مذکورہ آیت کی تفسیر علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر ، تفسیر ابن کثیر میں ارشاد فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ساتھ ہی کہ اپنے آپ کو قتل نہ کرو ، ارشاد فرمایا:
وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيْہِ نَارًا۝۰ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرًا۝۳۰ النساء:30)
اور جو شخص زیادتی اور ظلم کے طور پر ایسا کرے گا، تو ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے، اور یہ بات اللہ کے لیے بالکل آسان ہے۔
یعنی جو شخص اس فعل بد (خود کشی) سے روکنے کے باوجود ظلم و تعدی کرتے ہوئے اسے حرام جان کر پھر بھی ایسی جسارت کرتا ہے، اس کے متعلق ارشاد فرمایا ” فَسَوْفَ نُصْلِيْہِ نَارًا“ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے۔
یہ نہایت ہی سخت دھمکی ہے، ہر صاحب عقل کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے، پھر اس کے ساتھ ہی حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَـيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا۝۳۱ (النساء:31)
اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو تمہاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے۔ اور تم کو ایک باعزت جگہ داخل کریں گے۔
عاجز کی نظر میں مذکورہ آیت میں کبیرہ گناہوں سے اجتناب پر صغیرہ گناہوں کی معافی اور جنت کی ضیافت کو مشروط کیا گیاہے، اس میں خود کشی جیسے جرم سے اجتناب کرنے کا کبیرہ گناہ بھی شامل ہے، گویا کہ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا جو شخص سخت حالات میں مایوسیوں، خطرات اور پریشانیوں میں صبر کا مظاہرہ کرے اور اس فعل بد سے احتراز کرے، حق تعالیٰ نہ صرف یہ کہ اس کے باقی چھوٹے چھوٹے گناہ بھی معاف کر دیں گے بلکہ اسے جنت کی نعمت بھی عطاء فرمائیں گے۔
جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنی کثیر احادیث میں خود کشی کو باعث عذاب اور سوء خاتمہ قرار دیا ہے،ایسی چند احادیث بطور نمونہ پیش خدمت ہیں:
عَنْ ثَابِتَ بْنِ الضَّحَّاكِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ بَايَعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ بِمِلَّةٍ غَيْرِ الإِسْلَامِ كَاذِبًا، فَهُوَ كَمَا قَالَ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ، عُذِّبَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَيْسَ عَلَى رَجُلٍ نَذْرٌ فِي شَيْءٍ لَا يَمْلِكُهُ “.[صحيح مسلم: 302)
حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ نے ان کو خبر دی کہ انہوں نے (حدیبیہ کے مقام پر) درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب پر ہونے کی پختہ قسم کھائی اور (جس بات پر اس نے قسم کھائی اس میں) وہ جھوٹا تھا

تو وہ ویسا ہی ہے جیسا اس نے کہا (اس کا عمل ویسا ہی ہے۔) اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا قیامت کے دن اس کو اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا۔ اور کسی شخص پر اس چیز کی نذر پوری کرنا لازم نہیں جس کا وہ مالک نہیں۔“
وَقَالَ حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ: حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا جُنْدَبٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ، فَمَا نَسِينَا وَمَا نَخَافُ أَنْ يَكْذِبَ جُنْدَبٌ، عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَانَ بِرَجُلٍ جِرَاحٌ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَقَالَ اللهُ: بَدَرَنِي عَبْدِي بِنَفْسِهِ حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.(صحیح بخاری: 1364)
اور حجاج بن منہال نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا ‘ ان سے امام حسن بصری نے کہا کہ ہم سے جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے اسی (بصرے کی) مسجد میں حدیث بیان کی تھی نہ ہم اس حدیث کو بھولے ہیں اور نہ یہ ڈر ہے کہ جندب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ باندھا ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص کو زخم لگا ‘ اس نے (زخم کی تکلیف کی وجہ سے) خود کو مار ڈالا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے جان نکالنے میں مجھ پر جلدی کی۔ اس کی سزا میں، میں اس پر جنت حرام کرتا ہوں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ، فَحَدِيدَتُهُ فِي يَدِهِ يَتَوَجَّأُ بِهَا فِي بَطْنِهِ، فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ شَرِبَ سَمًّا، فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ يَتَحَسَّاهُ، فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَهُوَ يَتَرَدَّى فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا “. [صحيح مسلم: 300]
وکیع نے اعمش سے، انہوں نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے آپ کو لوہے (کے ہتھیار) سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہو گا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں رہے گا، اسے اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا۔

جس نے زہر پی کر خودکشی کی، وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں اسے گھونٹ گھونٹ پیتا رہے گا اور جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خودکشی کی، وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں پہاڑ سے گرتا رہے گا۔“
مذکورہ حدیث میں ”خَالِدًا مُخَلَّدًا “ سے مراد مدت طویل ہے، یعنی جس شخص نے جس اندازو طریقہ سے بھی خود کشی کی، اسے اسی انداز و طریقہ کے ساتھ سزا دی جاتی رہے گی اور وہ عذاب و جہنم میں ایک عرصہ دراز تک اسی حال میں گزارے گا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ” أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُرِحَ فَآذَتْهُ الْجِرَاحَةُ، فَدَبَّ إِلَى مَشَاقِصَهِ، فَذَبَحَ بِهَا نَفْسَهُ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”، قَالَ: وَكَانَ ذَلِكَ أَدَبًا مِنْهُ.[سنن ابن ماجہ: 1526]
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص زخمی ہوا، اور زخم نے اسے کافی تکلیف پہنچائی، تو وہ آہستہ آہستہ تیر کی اَنی(نوک) کے پاس گیا، اور اس سے اپنے کو ذبح کر لیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تاکہ اس سے دوسروں کو نصیحت ہو ۔
جناب رسول اللہ ﷺ مجسمہ رحمت و شفقت تھے ،آپﷺ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھی حکم تھا، مؤمنین کے لیے دعا کیا کریں، اس کے باوجود آپﷺ ایسے شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی، یہی وجہ ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خود کشی کرنے والے شخص کی عام لوگ تونماز جنازہ پڑھ لیں، لیکن امام المسلمین ان کی نماز جنازہ نہ پڑھائے۔ (سنن الترمذی)
سیدنا طفیل بن عمرالدوسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک دوسرے شخص نے ہجرت کی وہ صاحب بیمار ہوگئے، شدت تکلیف کے باعث ان سے صبر نہ ہوسکا، انہوں نے تکلیف کی شدت سے کسی ہتھیار کے ساتھ اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے، رگیں کٹ جانے کی وجہ سے اتنا خون نکلا کہ ان کا انتقال ہوگیا۔
حضرت طفیل رضی اللہ عنہ نے انہیں خواب میں دیکھا ،وہ بہتر حالت میں ہیں ،لیکن ان کے ہاتھ ڈھکے ہوئے ہیں، حضرت طفیل رضی اللہ عنہ نےان سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہجرت کی وجہ سے معاف کر دیا، لیکن میرے ہاتھوں کے متعلق فرمایا، جس چیز کو تم نے خود بگاڑا ہے، انہیں درست نہیں کروں گا۔حضرت طفیل رضی اللہ عنہ نے یہ خواب جناب رسول اللہ ﷺ کو بیان فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں کو بھی درست فرمادے۔
خود کشی سے بچنے کی تدابیر:
عموماً خود کشی کرنے والا ناموافق حالت میں مایوس، سخت پریشان، الجھن اور ڈپریشن میں یہ انتہائی قدم اٹھاتا ہے، اگر ایسا شخص اپنے ان حالات میں رجوع الی اللہ کرے یا کسی نیک سمجھدار شخص کی صحبت اختیار کرے اور اسے اپنے حالات سے آگا کرے اور ایسا شخص اس کی ذہن سازی کے ذریعے اسے چار امور کی جانب متوجہ کر دے، تو حق تعالیٰ سے امید قوی ہے کہ ایسا شخص نہ صرف اس بھیانک جرم سے محفوظ ہوجائے گا، بلکہ اس کی زندگی پر لطف اور قرب خداوندی کی نعمت سے مالا مال ہوجائے گی، یہ چار امور عاجز کی نظر میں درج ذیل ہیں:
1: صبر
2: توکل
3: تفویض
4: لسانی، قلبی اور عملی ذکر خداوندی
صبر:
صبر ناگواری میں اللہ تعالیٰ کےلیے حالات پر جمنا، برداشت کرنا اور اللہ تعالیٰ سے حالات کی تبدیلی کا انتظار کرنا اور اس عرصہ کی تکلیف پر اللہ تعالیٰ سے اجر حاصل نے کے جذبہ کانام ہے، قرآن و سنت نے اہل ایمان کو صبر کی نہ صرف تلقین کی ،بلکہ صبر پیدا کرنے کے لیے برانگیختہ فرمایا، کہ انسان صبر کے لیےذہنی طور پر تیار رہے۔
وقت آنے پر صبر کا گھونٹ پینے، صبر کی ایک دوسرے کو وصیت کرنے، صبر کو مفتاح فرج(کشادگی کی چابی) صبر کو درجات کی بلندی، اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ، صبر پر بلا حساب اجر، صبر کو نصف ایمان تک بتانے کے تذکرے فرمائے ہیں، اہل ایمان کو صبر پر تیار کرنے کے لیے انبیاء، سالکین اور گزشتہ امتوں کے صالحین پر آنے والی تکالیف، مصائب، مشکلات اور ان کے ان حالات میں صبر کرنے، مشکلات کو جھیلنے، اللہ تعالیٰ سے امید رکھنے اور پھر حالات بدل جانے کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ یہ مختصر مضمون اس کا متحمل نہیں کہ مذکورہ بالا جملہ اجزاء کو تفصیل کے ساتھ کھولا جائے، اہل فکر و نظر اور قرآنی مطالعہ کے حامل قارئین انہی عنوانات سے ہی صبر کے متعلق بہت کچھ سمجھ چکے ہیں، ذیل میں اشارۃً چندنصوص کا تذکرہ کیا جارہا ہے، پریشان حالات اور مصیبت زدہ لوگ ان نصوص کا بار بار استحضار کر کے ان شاء اللہ سکون محسوس کریں گے۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۳ وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ۝۰ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۝۱۵۴ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۵ۙ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ (البقرۃ:153تا156)
اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو ، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو، دراصل وہ زندہ ہیں مگر تم کو (ان کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا۔اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو ۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ “ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا ۝۰ۣ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۲۰۰(آل عمران:200)
اے ایمان والو ! صبر اختیار کرو، مقابلے کے وقت ثابت قدمی دکھاؤ، اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے جمے رہو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔
وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَـقُوْمُ۝۴۸ۙ (الطور:48)
اور تم اپنے پروردگار کے حکم پر جمے رہو، کیونکہ تم ہماری نگاہوں میں ہو، اور جب تم اٹھتے ہو ،اس وقت اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیا کرو۔
فَاصْبِرْ كَـمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ۝۰ۭ كَاَنَّہُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ۝۰ۙ لَمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنْ نَّہَارٍ۝۰ۭ بَلٰغٌ۝۰ۚ فَہَلْ يُہْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۳۵ۧ (الأحقاف :35)
غرض (اے پیغمبر) تم اسی طرح صبر کیے جاؤ جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا ہے، اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو۔ جس دن یہ لوگ وہ چیز دیکھ لیں گے جس سے انہیں ڈرایا جارہا ہے اس دن (انہیں) یوں محسوس ہوگا جیسے وہ (دنیا میں) دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ یہ ہے وہ پیغام جو پہنچا دیا گیا ہے۔ اب برباد تو وہی لوگ ہوں گے جو نافرمان ہیں۔
وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۝۴۳ۧ (الشوریٰ:43)
اور یہ حقیقت ہے کہ جو کوئی صبر سے کام لے، اور درگزر کر جائے تو یہ بڑی ہمت کی بات ہے۔
وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّہٖ وَلَا تَحْــنَثْ۝۰ۭ اِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا۝۰ۭ نِعْمَ الْعَبْدُ۝۰ۭ اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ۝۴۴( ص:44)
اور (ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ) اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا لو، اور اس سے مار دو ، اور اپنی قسم مت توڑو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انہیں بڑا صبر کرنے والا پایا، وہ بہترین بندے تھے، واقعۃً وہ اللہ سے خوب لو لگائے ہوئے تھے۔
قُلْ يٰعِبَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ۝۰ۭ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا فِيْ ہٰذِہِ الدُّنْيَا حَسَـنَۃٌ۝۰ۭ وَاَرْضُ اللہِ وَاسِعَۃٌ۝۰ۭ اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ۝۱۰ (الزمر:10)
کہہ دو کہ : اے میرے ایمان والے بندو ! اپنے پروردگار کا خوف دل میں رکھو۔ بھلائی انہی کی ہے جنہوں نے اس دنیا میں بھلائی کی ہے، اور اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں، ان کا ثواب انہیں بےحساب دیا جائے گا۔
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ۝۰ۭ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰى نَصْرُ اللہِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِيْبٌ۝۲۱۴ (البقرۃ:214)
(مسلمانو) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں (یونہی) داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تمہیں اس جیسے حالات پیش نہیں آئے جیسے ان لوگوں کو پیش آئے تھے جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں، اور انہیں ہلا ڈالا گیا، یہاں تک کہ رسول اور ان پر ایمان والے ساتھ بول اٹھے کہ “ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟” یا درکھو ! اللہ کی مدد نزدیک ہے۔
قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِہِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللہِ وَاصْبِرُوْا۝۰ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلہِ۝۰ۣۙ يُوْرِثُہَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۝۰ۭ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ۝۱۲۸(الاعراف:128)
موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اللہ سے مدد مانگو اور صبر سے کام لو۔ یقین رکھو کہ زمین اللہ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ اور آخری انجام پرہیزگاروں ہی کے حق میں ہوتا ہے۔
وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰٓي اَتٰىہُمْ نَصْرُنَا۝۰ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللہِ۝۰ۚ وَلَقَدْ جَاۗءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ۝۳۴ (الانعام:34)
اور حقیقت یہ ہے کہ تم سے پہلے بہت سے رسولوں کو جھٹلایا گیا ہے۔ پھر جس طرح انہیں جھٹلایا گیا اور تکلیفیں دی گئیں، اس سب پر انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ ہماری مدد ان کو پہنچ گئی۔ اور کوئی نہیں ہے جو اللہ کی باتوں کو بدل سکے اور (پچھلے) رسولوں کے کچھ واقعات آپ تک پہنچ ہی چکے ہیں۔
اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَـنَۃٌ تَـسُؤْھُمْ۝۰ۡوَاِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَۃٌ يَّفْرَحُوْا بِھَا۝۰ۭ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ۝۱۲۰ۧ(آل عمران:120)
اگر تمہیں کوئی بھلائی مل جائے تو ان کو برا لگتا ہے، اور اگر تمہیں کوئی گزند پہنچے تو یہ اس سے خوش ہوتے ہیں، اگر تم صبر اور تقوی سے کام لو تو ان کی چالیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ سب اللہ کے ( علم اور قدرت کے) احاطے میں ہے۔
وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللہِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْہِمْ وَلَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ۝۱۲۷ اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ۝۱۲۸ۧ (النحل:127-128)
اور ( اے پیغمبر) تم صبر سے کام لو، اور تمہارا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ اور ان (کافروں) پر صدمہ نہ کرو، اور جو مکاریاں یہ لوگ کر رہے ہیں ان کی وجہ سے تنگ دل نہ ہو۔یقین رکھو کہ اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جو تقوی اختیار کرتے ہیں اور جو احسان پر عمل پیرا ہیں۔
وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِہٖ بِدَمٍ كَذِبٍ۝۰ۭ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا۝۰ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ۝۰ۭ وَاللہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ۝۱۸ (یوسف:18)
اور وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا کرلے آئے۔ ان کے والد نے کہا : (حقیقت یہ نہیں ہے) بلکہ تمہارے دلوں نے اپنی طرف سے ایک بات بنا لی ہے۔ اب تو میرے لیے صبر ہی بہتر ہے۔ اور جو باتیں تم بنا رہے ہو، ان پر اللہ ہی کی مدد درکار ہے۔
وَمَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰيٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاۗءَتْنَا۝۰ۭ رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِـمِيْنَ۝۱۲۶ۧ (الاعراف:126)
اورتُو اس کے سوا ہماری کس بات سے ناراض ہے کہ جب ہمارے مالک کی نشانیاں ہمارے پاس آگئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے ؟ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر صبر کے پیمانے انڈیل دے، اور ہمیں اس حالت میں موت دے کہ ہم تیرے تابع دار ہوں۔
صبر سے متعلق چند احادیث نبویہ ﷺ:
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ، حَتَّى إِذَا نَفِدَ مَا عِنْدَهُ قَالَ:” مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ يَصْبِرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً هُوَ خَيْرٌ وَأَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ”. [سنن نسائي: 2589]
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، تو آپ نے انہیں دیا، ان لوگوں نے پھر سوال کیا، تو آپ نے انہیں پھر دیا یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا ختم ہو گیا، تو آپ نے فرمایا: ”میرے پاس جو ہو گا اسے میں ذخیرہ بنا کر نہیں رکھوں گا، اور جو پاک دامن بننا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے پاک دامن بنا دے گا، اور جو صبر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق دے گا، اور صبر سے بہتر اور بڑی چیز کسی کو نہیں دی گئی ہے“۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مُصِيبَةٍ تُصِيبُ الْمُسْلِمَ إِلاَّ كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا عَنْهُ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا» .[صحيح بخاری: 5640]
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مصیبت بھی کسی مسلمان کو پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہ کا کفارہ کر دیتا ہے، یہاں تک کہ (کسی مسلمان کے) ایک کانٹا بھی اگر جسم کے کسی حصہ میں چبھ جائے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ يَسَارٍ أَبَا الْحُبَابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُصِبْ مِنْهُ”. [صحيح البخاري: 5645]
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں محمد بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن یسار ابوالحباب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے بیماری کی تکالیف اور دیگر مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ ” , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.(سنن الترمذی:2399)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن مرد اور مومن عورت کی جان، اولاد، اور مال میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ مرنے کے بعد اللہ سے ملاقات کرتے ہیں تو ان پر کسی گناہ کا اثر اور بوجھ باقی نہیں ہوگا“ ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ الْمِصِّيصِيُّ، الْمَعْنَى قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْمَلِيحِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد، قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ السَّلَمِيُّ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:” إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللَّهِ مَنْزِلَةٌ، لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَمَلِهِ، ابْتَلَاهُ اللَّهُ فِي جَسَدِهِ، أَوْ فِي مَالِهِ، أَوْ فِي وَلَدِهِ”، قَالَ أَبُو دَاوُد: زَادَ ابْنُ نُفَيْلٍ، ثُمَّ صَبَّرَهُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ اتَّفَقَا حَتَّى يُبْلِغَهُ الْمَنْزِلَةَ الَّتِي سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى. [سنن ابی داؤد: 3090]
حضرت ابراہیم بن مہدی اپنے دادا سے (جنہیں شرف صحبت حاصل ہے) روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے سنا: ”جب بندے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا رتبہ طے ہو جاتا ہے

جس تک وہ اپنے عمل کے ذریعہ نہیں پہنچ پاتا تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم یا اس کے مال یا اس کی اولاد کے ذریعہ اسے آزماتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ بندہ اس مقام کو جا پہنچتا ہے جو اسے اللہ کی طرف سے ملا تھا“۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ: ” الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ، فَالْأَمْثَلُ، فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ ” , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ , وَأُخْتِ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ: الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ.(سنن الترمذی: 2398)
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”انبیاء و رسل پر، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو اُن کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر بندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے، پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا“۔
قارئین کرام مذکورہ بالا نصوص کے پڑھنے سے کس قدر دل کو تسلی حاصل ہوتی ہے،آدمی جملہ تکالیف و پریشانیوں کو بھول جاتا ہے، اس لیے ایسی آیات و احادیث کا استحضار مشکلات میں ان شاء اللہ تسلی کا باعث ہوگا۔
توکل:
صبر کا تعلق تو پیش آمدہ حالات اور ان تکالیف سے ہے، جن میں آدمی گھرا ہوا ہے، بساوقات انسان مشکلات میں پھنس جانے کی وجہ سےگناہ کامرتکب ہو کر خود کشی کرتا ہے، اس لیے صبرایسی پریشانیوں اور مشکلات کا تریاق اور علاج ہے، بعض لوگ اپنےمستقبل سے متعلق مایوس ہو کر غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں، مایوسی اور مقصد کا عدم حصول بھی ڈپریشن پیدا کرتا ہے، اس لیے مؤمن کے پاس بہترین ہتھیار ”توکل علی اللہ “ہے،سب مسلمانوں کا ایمان و عقیدہ ہے کہ کامیابی و ناکامی، نفع و نقصان، عزت و ذلت اور فقرو بادشاہت سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہی مایوسی سے امید پیدا فرماتے ہیں اور نا مواقف حالات کو موافق حالات میں بدل دینےکی قوت رکھتے ہیں اور بدل بھی دیا کرتے ہیں، اس لیے ہر مسلمان کو بجائے مایوس ہونے کے حق تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کا ہتھیار اختیار کرنا چاہیے، توکل کامیابی کا زینہ ہے، توکل سےبیڑا پار ہوتا ہے، توکل کے بغیر زندگی ناکام اور نامکمل ہے، توکل کا مطلب اسباب ترک کرنا نہیں، بلکہ توکل کا مطلب مناسب تدابیر اور اسباب اختیار کر کے نتائج اللہ تعالیٰ پرچھوڑ دینا ہے۔
قرآن و سنت میں توکل کی بھرپور ترغیب دی گئی ہے، قرآن کریم میں توکل کو مومن کی علامت قرار دیا گیا ہے،

ہدف کا حصول بظاہر مشکل ہو تب بھی توکل اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، کفار کی ایذاء رسائی پر بھی توکل کی ترغیب دی گئی، توکل کرنے والے کو کامیاب قرار دیا گیا ہے، ایمان والوں کو توکل اختیار کرنے پر برانگیختہ کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
وَقَالَ مُوْسٰى يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللہِ فَعَلَيْہِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ۝۸۴ فَقَالُوْا عَلَي اللہِ تَوَكَّلْنَا۝۰ۚ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِــمِيْنَ۝۸۵ۙ(یونس:84,85)
اور موسیٰ نے کہا : اے میری قوم اگر تم واقعی اللہ پر ایمان لے آئے ہو تو پھر اسی پر بھروسہ رکھو، اگر تم فرمانبردار ہو۔اس پر انہوں نے کہا : اللہ ہی پر ہم نے بھروسہ کرلیا ہے، اے ہمارے پروردگار ہمیں ان ظالم لوگوں کے ہاتھوں آزمائش میں نہ ڈالیے۔
قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللہُ لَنَا۝۰ۚ ہُوَمَوْلٰىنَا۝۰ۚ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝۵۱ (التوبہ:51)
کہہ دو کہ : اللہ نے ہمارے مقدر میں جو تکلیف لکھ دی ہے ہمیں اس کے سوا کوئی اور تکلیف ہرگز نہیں پہنچ سکتی۔ وہ ہمارا رکھوالا ہے، اور اللہ ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے۔
وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ فَہُوَحَسْبُہٗ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ۝۰ۭ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا۝۳(الطلاق:3)
اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے،

تو اللہ اس (کا کام بنانے) کے لیے کافی ہے۔ یقین رکھو کہ اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ (البتہ) اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔
وَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَدَعْ اَذٰىہُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ وَكِيْلًا۝۴۸ (الاحزاب:48)
اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو اور ان کی طرف سے جو تکلیف پہنچے اس کی پرواہ نہ کرو، اور اللہ پر بھروسہ رکھو اور اللہ رکھوالا بننے کے لیے کافی ہے۔
وَتَوَكَّلْ عَلَي الْـحَيِّ الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِہٖ۝۰ۭ وَكَفٰى بِہٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِہٖ خَبِيْرَۨا۝۵۸ۚۙۛ (الفرقان:58)
اور تم اس ذات پر بھروسہ رکھو جو زندہ ہے، جسے کبھی موت نہیں آئے گی، اور اسی کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہو، اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے کے لیے کافی ہے۔
وَلِلہِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَيْہِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّہٗ فَاعْبُدْہُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْہِ۝۰ۭ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۱۲۳ۧ (ھود:123)
آسمانوں اور زمین میں جتنے پوشیدہ بھید ہیں، وہ سب اللہ کے علم میں ہیں، اور اسی کی طرف سارے معاملات لوٹائے جائیں گے۔ لہٰذا ( اے پیغمبر) اس کی عبادت کرو، اور اس پر بھروسہ رکھو۔ اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو، تمہارا پروردگار اس سےبے خبر نہیں ہے۔
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللہُ۝۰ۤۡۖ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝۰ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ۝۱۲۹ۧ (التوبہ:129)
پھر بھی اگر یہ لوگ منہ موڑیں تو (اے رسول ! ان سے) کہہ دو کہ : میرے لیے اللہ کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے، اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْہِمْ اٰيٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۝۲ۚۖ (الانفال:2)
مومن تو وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور ترقی دیتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔
وَقَالَ يٰبَنِيَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ۝۰ۭ وَمَآ اُغْنِيْ عَنْكُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ شَيْءٍ۝۰ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝۰ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ۝۰ۚ وَعَلَيْہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۝۶۷ (یوسف:67)
اور (ساتھ ہی یہ بھی) کہا کہ : میرے بیٹو ! تم سب ایک دروازے سے (شہر میں) داخل نہ ہونا، بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا ، میں اللہ کی مشیت سے تمہیں نہیں بچا سکتا، حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں چلتا۔ اسی پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے، اور جن جن کو بھروسہ کرنا ہو، انہیں چاہیے کہ اسی پر بھروسہ کریں۔
قَالَتْ لَہُمْ رُسُلُہُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلٰكِنَّ اللہَ يَمُنُّ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۝۰ۭ وَمَا كَانَ لَنَآ اَنْ نَّاْتِيَكُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝۱۱ وَمَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَي اللہِ وَقَدْ ہَدٰىنَا سُبُلَنَا۝۰ۭ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلٰي مَآ اٰذَيْتُمُوْنَا۝۰ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۝۱۲ۧ(ابراہیم:11،12)
ان سے ان کے پیغمبروں نے کہا : ہم واقعی تمہارے ہی جیسے انسان ہیں، لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے خصوصی احسان فرما دیتا ہے۔ اور یہ بات ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ ہم اللہ کے حکم کے بغیر تمہیں کوئی معجزہ لا دکھائیں، اور مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔اور آخر ہم کیوں اللہ پر بھروسہ نہ رکھیں،

جبکہ اس نے ہمیں ان راستوں کی ہدایت دے دی ہے جن پر ہمیں چلنا ہے ؟ اور تم نے ہمیں جو تکلیفیں پہنچائی ہیں، ان پر ہم یقینا صبر کریں گے، اور جن لوگوں کو بھروسہ رکھنا ہو، انہیں اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
جناب رسول اللہ ﷺ نے متوکلین کو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جانے والے سترہزار افراد میں شامل قرار دیا ہے،چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے:
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ حُصَيْنَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، فَقَالَ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ، هُمُ الَّذِينَ لَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَتَطَيَّرُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ”. [صحيح بخاری: 6472]
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے حصین بن عبداللہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں سعید بن جبیر کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میری امت کے ستر ہزار لوگ بے حساب جنت میں جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے نہ شگون لیتے ہیں اور اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔“
توکل کو رزق کا بھی ذریعہ قرار دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہے:
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ , أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ , عَنْ ابْنِ هُبَيْرَةَ , عَنْ أَبِي تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيِّ , قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:” لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ , لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ , تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا”. [سنن ابن ماجہ: 4164]
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایسے ہی توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے، تو وہ تم کو ایسے رزق دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے، وہ صبح میں خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں“۔
تفویض:
تفویض کا معنی ہے اپنے معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا، بہت سی چیزیں انسان کے کرنے کی ہوتی ہیں ،جن کا تعلق اسباب سے ہے اور ایک چیز اللہ تعالیٰ کے کرنے کی ہے، جس کا تعلق نتیجہ سے ہے، ایک کلمہ گوکو چاہیے کہ وہ اپنے معاملات اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے اور یہ تصور رکھےکہ اگر یہ چیزمیرے لیے مفید ہوگی تو حق تعالیٰ مجھے ضرور عطاء کریں گے اور اگر نہیں ہوگی تو وہ میرے خیرخواہ ہیں، مجھے اس سے محفوظ فرمائیں گے، قرآن کریم میں اس نصیحت کو سیدنا حضرت صالح علیہ السلام کے خطاب میں یوں ذکر کیا گیا ہے:
فَسَتَذْكُرُوْنَ مَآ اَقُوْلُ لَكُمْ۝۰ۭ وَاُفَوِّضُ اَمْرِيْٓ اِلَى اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ۝۴۴(الغافر:44)
غرض تم عنقریب میری یہ باتیں یاد کرو گے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں، اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ یقینا اللہ سارے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے
اللہ تعالیٰ جس حالت میں رکھے اسی حالت میں خوش رہنا اور اپنی چاہتوں کو اپنے محبوب رب کی چاہت میں فنا کر دینا ہی ولایت کا اعلیٰ درجہ اورفنائیت کا مقام ہے، کسی نےاس مقام کو یوں تعبیر کیا ہے:
زندہ کنی عطائے تو
دربکشی خدائے تو
دل شدہ مبتلائے تو
ہرچہ کنی رضائے تو
آپنے زندہ کیا یہ آپ کی عطاء ہے
اگر آپ مار ڈالیں تو آپ کی رضا ہے
دل آپ کی محبت میں گرفتار ہے
آپ جو بھی کریں آپ پر قربان ہوں
اسی مضمون کو قرآن کریم نے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات اور ملت کا خلاصہ قرار دیا ہے:
اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ۝۰ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۳۱۲ۭ(البقرۃ:131)
جب ان کے پروردگار نے ان سے کہا کہ : سر تسلیم خم کردو ! تو وہ (فورا) بولے : میں نے رب العالمین کے (ہر حکم کے) آگے سر جھکا دیا۔
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حق تعالیٰ سےعرض کیا کہ میں آپ پر ہر حالت میں راضی و خوش ہوں، اسی کا نام تفویض ہے، یہ تفویض باعث اطمینان ہے۔
ذکر خداوندی:
اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت و توجہات کے حصول کا ذریعہ ہے، بلکہ قلبی اطمینان بھی ذکر اللہ سے پیدا ہوتا ہے، ارشاد خداوندی ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُﭤ(الرعد:28)
یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور جن کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یا درکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
نماز کی ادائیگی ، تلاوت قرآن کریم، صبح و شام کی ادعیہ اور دل میں اللہ تعالیٰ کا دھیان، انسان کی زندگی کو پررونق اور بہار والا بنا دیتا ہے، اس سے مذکورہ بالا امور کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حسن خاتمہ نصیب فرمائیں۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں