مذاکرات کاایک نکاتی ایجنڈا !
ترکیہ کے شہر استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان مذاکرات کا ایک کے بعد ایک دور ہورہا ہے،اس مذاکرات میں پاکستان اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہے کہ افغان طالبان خوارج کی سرپرستی ختم کریں اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے استعمال سے روکا جائے‘ پاکستان اور دوست مالک سنجیدگی سے منفی اور بیرونی اثرات کے باوجود بات چیت آگے بڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں‘لیکن افغان طالبان کی جانب سے لچک نہ دکھانے پر صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جارہی ہے،تاہم پاکستان نے اپنا ایک نکاتی ایجنڈا واضح کردیاہے کہ مذاکرات کا میاب یا ناکام ہوتے ہیں، افغان حکو مت کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے ہی پڑیں گے۔ 
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ پا کستان میں ہو نے والی دہشت گردی کہاں سے ہورہی ہے اور اس کی کون پشت پناہی کررہا ہے ،اس بارے سب کچھ ثبوت کے ساتھ واضح کردیا گیا ہے ، لیکن افغان حکو مت اپنی ذمہ داری ماننے کیلئے تیار نہیں ہورہی ہے،اس دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ طالبان پہلے اپنی ذمہ داری کو تسلیم کریں اور یہ مان کر چلیں کہ ان کے ملک سے ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی ہو رہی ہے
اور اس کے مصدقہ ثبوت بھی موجود ہیں،یہ ماننے کے بعد ہی انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے کسی نتیجہ خیز اقدام کی امید کی جا سکتی ہے۔ اس معاملے میں طالبان رجیم کا حقائق کو تسلیم نہ کرنا خطے کی سلامتی کیلئے غیر معمولی خطرہ ہے۔بھارت اور افغان حکو مت مل کرفغان طالبان کی سرپرستی کررہے ہیں ، جوکہ پاکستان سمیت خطے کے سبھی ممالک کیلئے خطرہ ہیں ، اس خطے کے سبھی ممالک کو ایسے معاملے میں خبردار ہونا چاہیے ،پاکستان کیلئے بطورِ خاص خطرہ ہے کہ طالبان رجیم واضح طور پر بھارتی ایجنڈے کی پیروی کرتا اور بھارتی مفادات کیلئے کام کرتا نظر آتا ہے ،اس کے نتائج ظاہر ہے
طویل مدتی کشیدگی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے ہیں،اس کے ساتھ افغانستان میں دہشتگردی کے اڈے خطے کے معاشی منصوبوں کیلئے بھی خطرے کا باعث ہیں،اس لیے ہی پاکستان اور چین کی جانب سے بارہا افغانستان کو سی پیک کا حصہ بننے کی پیشکش کی گئی ،لیکناس کیلئے اٖگان حکو مت تیار نہیں ہوئی، جبکہ افغانستان کیلئے مشرق وسطیٰ کے ساتھ راہداری کے منصوبوں میں شامل ہونے کے بھی مواقع موجود تھے ، لیکن اس سے طالبان رجیم کو کوئی سروکار نہیں‘ وہ معاشی امکانات سے فائدہ اٹھانے اور افغانستان کے عوام کی حالت بہتربنانے کے بجائے دہشت گردی‘ سمگلنگ اور منشیات کی معیشت کو ترک کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے۔
اگر دیکھاجائے توافغان طالبان نے پچھلی دو دہائیوں کی تباہی اور دربدری کی تاریخ سے کچھ سیکھا نہ ہی اپنی غلطیوں کا ازالہ کر نے کیلئے تیار ہے، وہ گاہے بگاہے دنیا کے ساتھ چلنے اور خود کو فعال ریاست بنانے کی سنجیدہ کوشش ضرور کرتے ہیں، لیکن ایسا کچھ عملی طور پر کرنہیں پارہے ہیں، طالبان رجیم پاکستان جیسے ملک کیلئے بھی خلوص کا مظاہرہ کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں کہ جس نے افغانوں کی کم ازکم چار نسلوں کو پالا ہے اور آج بھی افغانستان کیلئے لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے،
اس کے باوجود پا کستان دشمن کے ایجنڈے کو فروغ دیا جارہا ہے ، بھارت کی پراکسی وار کو لڑا جارہا ہے ،افگان حکو مت کے نمائندے بیٹھے استنبول مزاکرات ٹیبل پر ہیں ، لیکن اُن کی ڈوریاں کابل سے بھارتی لابی ہلارہی ہے اور مزاکرات کا میاب نہیں ہو نے دیے رہی ہے۔اس صورتحال میں پاکستان کیلئے ضروری ہو جاتا ہے کہ طالبان رجیم کے ساتھ معاملات میں ہرگز لچک کا مظاہرہ نہ کیا جائے، بات چیت کا ایک نکاتی ایجنڈا افغان سرزمین سے فتنہ خوارج کا خاتمہ ہی ہے یہ افغانستان کے ساتھ معمول کے تعلقات کی بحالی کی شرطِ اول ہے،اگر اس پرطالبان رجیم راضی نہیں ہوتے ہیں تو پھر خواجہ آصف فار مولا ہی چلے گا
کہ مذاکرات نہیں تو کھلی جنگ ہو گی ،افغان طالبان کو بڑی غلط فہمی ہے کہ گوروں کو مار بھگایا تو پا کستانیوں کو بھی مار بھگائیں گے ،لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ ان کی پشت پناہی نہ صرف پا کستانی ہی کرتے رہے ہیں ،بلکہ ان کے ساتھ مل کر لڑتے رہے ہیں ، اس لیے کا میاب رہے ، لیکن اس بار ایسا سبق ملے گا کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔اس وقت مذاکرات کا میاب ہوتے ہیں یا ناکام پوری پاکستانی قوم اپنی سکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ اظہارِ یکجہتی اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ قوم دہشت گردی کو ایک مشترکہ دشمن کے طور پر دیکھ رہی ہے،قبائلی عوام، جنہیں ماضی میں بارہا دہشت گردوں کی یلغار نے نقصان پہنچایا، اس بیانیے کے خلاف خود بھی صف آراء ہیں،
افغان طالبان کو سمجھنا ہوگا کہ بھارت کی قربت وقتی فائدہ تو دے سکتی ہے، مگر اس کا انجام افغانستان کے لیے ایک اور طویل تباہی کی صورت میں نکلے گا،پا کستان کا اب ایک ہی نکاتی ایجنڈا ہے کہ افغان حکومت پا کستان مخالف گرہوں کے خلاف کاروائی کرئے، اگر کابل نے پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف واضح اور عملی اقدامات نہ کیے تو خطے میں نئی کشیدگی کی راہیں کھل جائیں گی، جو کہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد کھلتی دکھائی دیے رہی ہیں،اس کے بعد فیصلے مذاکرات سے نہیں ،طاقت کے زور پر ہی ہو ں گے۔
 
				 
						 
				 
				 
				 
				