76

فضائی آلودگی اور سموگ کا خاتمہ !

فضائی آلودگی اور سموگ کا خاتمہ !

پاکستان میں فضائی آلودگی اور سموگ ماحولیاتی خطرہ بنتی جارہی ہے،ایک طر ف شہر تیزی سے پھیل رہے ہیں تو دوسری جانب ایسے کارخانوں اور بھٹوں میں اضافہ ہورہا ہے ، جو کہ فضائی آلودگی کا خیال ہی نہیں رکھتے ہیں ، پاکستان ایک بھرپور ثقافتی ورثے اور قدرتی حسن سے مالامال ملک ضرورہے، مگر اب اسے سخت ماحولیاتی چیلنج کا سامنا ہے ،لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہر اکثر نہ صرف سموگ کی لپیٹ میں رہتے ہیں، بلکہ فضائی آلودگی میں پہلے دوسرے نمبر پر رہتے ہیں،جوکہ گھٹتے فضائی معیار کے بحران کی سنگین یاد دہانی ہے، ورلڈ ایئر کوالٹی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کئی شہر مسلسل عالمی سطح پر آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو رہے ہیں،یہ تشویشناک حقیقت عیاں کرتی ہے کہ پاکستان کو بہ عجلت فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے وقتی کے بجائے دیر پا سنجیدہ ا قدامات کرنا ہوں گے۔
اگر دیکھا جائے توحکومت کی جانب سے اینٹی سموگ مشینوں کا استعمال‘ اینٹوں کے بھٹوں کو جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کرنا‘ چاول کی فصل کی باقیات کو جلانے پر پابندی اور گاڑیوں کی فٹنس چیکنگ جیسے اقدامات توبظاہر کیے جا رہے ہیں، مگراس کے عملی نتائج خاطر خواہ سامنے نہیں آرہے ہیں ، بلکہ پچھلے سات روز کے دوران ہوا میں آلودگی کے شماریات مسلسل اضافہ ظاہر کر رہے ہیں،اس کے باوجود اعلی حکام مان ہی نہیں رہے ہیں کہ ایسا کچھ ہورہا ہے، ہمیں مانناہی ہوگا کہ سموگ کے مسئلے کی جڑیں ایک یا دو نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک ایسا پیچیدہ سلسلہ ہے کہ جس میں گاڑیوں کا دھواں‘ شہری منصوبہ بندی کی خامیاں‘ زرعی عادات‘ صنعتی فضلہ ٹھکانے لگانے کا ناقص نظام‘جنگلات کی کمی اور عوامی رویے‘ سب ہی شامل ہیںاور اس کے تدارک کیلئے ایک دو ماہ نہیں ، سارا سال کام کر نا ہو گا۔
یہ ہوا کی آلودگی اور سموگ کے عوامل جامع حکمت عملی کا ہی تقاضا کرتے ہیں ،جبکہ ہماری حکمت عملی فضائی آلودگی اور سموگ کے معاملے میں زیادہ تر علامتی یا وقتی نوعیت کی ہی رہی ہے ،سال کے آخری مہینے جب سموگ کا مسئلہ شدت اختیار کرتا ہے تواس جانب حکومت متوجہ ہوتی ہے، مگر اس کیلئے سارا سال جو کچھ کیا جا سکتا ہے وہ سب کچھ نہیں کیا جاتا ہے ،مثال کے طور پر دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں جو ہوا کو زہر آلود کرنے کی سب سے بڑی ذمہ دار ہیں‘ اس کی جانچ پڑتال کا کوئی مستقل انتظام نہیں ہوتا

نہ ہی اس میں ایسی سختی عمل میں لائی جاتی ہے، جو کہ فی الواقع ہمارے مسائل کے پیش نظر وقت کا تقاضا ہے؛ چنانچہ خطرناک اور بے تحاشا دھواں ہمارے ماحول میں اکٹھا ہوتا رہتا ہے اور طرح طرح کے مسائل کا سبب بنتا ہے ، اس کا فوری حل حکو مت نے پانی کے چھڑ کائو سے نکالا ہے ،پانی کے چھڑکائوکا انتظام خواہ کیسا ہی جدید صورت میں کیا جائے،اس سے سموگ کے مسئلے کو جڑ سے ختم نہیں کر سکتا ہے ،اس سے کسی حد تک وقتی افاقہ تو ہو سکتا ہے، لیکن یہ شافی علاج نہیں ہے۔
ہر دور حکو مت میں سموگ کے تدارک کے نمائشی اور وقتی ہی اقدامات کیے جاتے رہے ہیں اور اس بار بھی ویسے ہی کیے جارہے ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ سموگ اور ہوا میں آلودگی کے دیگر مسائل پر قابو پانے کیلئے ایسے اقدامات کئے جائیں کہ جن سے طویل مدتی افاقہ ہو تا نظر آئے، اس سلسلے میں چین کے تجربے سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں 2013ء سے 2018ء کے دوران بیجنگ سمیت 74 بڑے شہروں میںآلودگی کے ذرات پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 کی سالانہ اوسط مقدار میں بالترتیب 33.3 فیصداور 27.8 فیصدکمی لائی گئی تھی، اس کیلئے چین نے کوئلے سے گیس اور بجلی پر انحصار بڑھایا اور انڈسٹری کے قواعد سخت کئے گئے،ہمیں بھی ان اچھے اور قابل عمل دیر پا اقدامات کی جانب بڑھنا چاہئے اور اپنے ہمسائیہ ملک چین کی پیروی کرتے ہوئے سموگ جیسے دیرینہ مسئلہ پر قابو پانا چاہئے،

ہم کب تک وقت گزاری کی پا لیسی پر ہی عمل پیراں رہیں گے؟اس وقت آلودگی کی جس شدت اور اذیت کا سامنا ہے‘ اس صورتحال میں ہنگامی حل یا وقتی اقدامات مسئلے کا پائیدار اور کارگر حل ثابت نہیں ہو سکتے ہیں، اینٹی سموگ گنوں سے شہر کے مختصر حصے سے سموگ کو وقتی طور پر توہٹایا جا سکتاہے، مگراس کی پیداواری عمل کو جب تک مکمل طورپر روکا نہیں جائے گا ،اس سموگ کی اذیت لاحق ہی رہے گی‘ لہٰذا ایسے اقدامات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جو کہ فضائی آلودگی کی پیداوار کو روک سکیں،ہمیں سموگ کی روک تھام کیلئے ا یسی جامع‘ ہمہ گیر اور مستقل پالیسی کی ضرورت ہے‘

جو کہ اس مسئلے کو نہ صرف وقتی طور پر سامنے رکھے ، بلکہ سارا سال ہی تدارک یقینی بنانے کے اقدامات کرے، حکومت سموگ کے تدارک کیلئے سموگ گنز کا استعمال کر کے باور کرارہی ہے کہ سموگ کا تدارک کیا جارہا ہے ، جبکہ سارے ہی ماہرین ماحولیات کے مطابق عارضی حل ہے ،اس کامستقل حل درختوں کی آبیاری، دھواں چھوڑتی گاڑیوں کی روک تھام اور زہریلا دھواں چھوڑنے والے کارخانوں کا تدارک ہے،یہ فضائی آلودگی اور سموگ کا خاتمہ کسی ایک موسم میں یا کسی ایک ادارے کی ذمہ داری نہیں ہے‘ یہ مسئلہ ایک مسلسل اور مشترکہ کوشش کا تقاضا کرتا ہے، ایک جامع‘ ہمہ گیر اور سال بھر جاری رہنے والی پالیسی ہی سموگ جیسے بحران سے نجات دلا سکتی ہے اور ملک کے ہر شہر کو ایک بار پھر نکھار سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں