کیا ہمیں اپنے حقوق چھین کر لینے ہمیں مجبور کیا جارہا ہے؟
نقاش نائطی
. +966562677707
2014 سے پہلے کانگریسی من موہن سرکار وقت کے, سب سے تیز ترقی بھارت کو، اپنے سنگھی بکاؤ بھونپو میڈیا پر، گجراتی سنگھی پونجی پتیوزن والی کالی دولت، نیز امریکی ڈالر پانی کی طرح اڑاتے ہوئے، دوسرے ممالک کی سڑکیں ریلوے اسٹیشن کے فوٹوز ھندستانی میڈیا کے اوپر گجرات کی سڑکوں کے طور پئش کرتے ہوئے، جھوٹے اور فرضی گجرات ماڈل کا ڈھنڈورا پیٹے، “سب کا ساتھ سب کا وکاس” نیز “اچھے دن آنے والے ہیں” جیسے دل لبھاؤنے نعروں کے بیچ، دیش کی عام جنتا کوگمراہ کئے، عالم کی سب سے بڑی جمہوریت کی سپتھا ہتھیانے والے ہم دو آؤر ہمارے دو، ہی کے اچھے دن لاتے ہوئے،
اپنے گیارہ سالہ رام راجیہ میں، اپنے ناعاقبت اندیش نوٹ بندی نفاذ جی ایس ٹی و نفاذ کورونا لاک ڈاؤن سے، 2014 سے پہلے والے، سب سے تیز ترقی پزیر بھارت میں، بڑھتی بے روزگاری اور بڑھتی مہنگائی سے بھارت واسیوں کو، اس بھارت میں، جینا دوبھر کرنے والے ‘سنگھی حکمران مکت’ حالیہ سیاست موڑ لیتے پس منظر میں، اندھ بگھتوں اور مودی بھگتوں کو چھوڑ کر،پورے ھند کےمسلمان، کرسچین، جین، دلت آدیواسی پچھڑی جاتی، اور سیکولر ذہن سناتن دھرمیوں سمیت ھندستانی تین چوتھائی سے زیادہ بھارت واسی، ہر ریاستی و مرکزی حکومتی انتخاب میں، ان نفرتی ٹٹو سنگھی حکمرانوں کو شکشت فاش دئیے، انہیں اپنے نفرتی گھر ناگپور بھیجنا جہاں چاہ رہے ہوں، وہاں چاہئیے
تو یہ تھا، کہ نام نہاد سیکیولر پارٹی کا صدا دم بھرنےوالی آل انڈیا کانگریس اور آر جے ڈی سمیت دیگر تمام سیکیولر پارٹیوں پر مشتمل مشترکہ، گٹھ جوڑ مہا گٹھ بندھن متحدہ محاذ بنائے، ہر ریاستی و مرکزی حکومتی انتخاب میں، ان نفرتی ٹٹو سنگھی حکمرانوں کو ریکارڈ ساز شکشت فاش دیتے، انہیں سبق سکھانا چاہئیے تھا اور اسکے لئے، اسی کے دہے میں ایڈوانی کی رام رتھ نفرتی یاترا کو، سب سے پہلے پوری قوت کے ساتھ روکنے والے بہار کے، اب کے ریاستی انتخاب میں، سنگھیوں کے لئے، انتخابی جیت آسان کرتی تمام ووٹ کٹوا پارٹیوں کو، سنگھی پارٹیوں کے خلاف قائم مہا گٹھ بندھن متحدہ محاذ میں شامل کئے، اب کی اس بہار انتخاب میں، یکطرفہ سنگھ مخالف ہوائیں چلوانی چاہئیے تھیں۔ لیکن ان نام نہادسیکیولر کانگرئس و آرجے ڈی پارٹیوں نے، اپنا دائمی مسلم ووٹ حاصل کئے جاتے،
ہم بھارتیہ مسلمانوں کو، اپنے دم پر سیاسی قوت کے طور ابھرنے نہ دینے کی ہی انکی مسلم مخالف پالیسی نے، انکے دعوت دئیے بلانے سے پرے، صدا ان لوگوں کی طرف سے ووٹ کٹوا، بی جے پی، بی ٹیم کہے جانے والی اے آئی ایم آئی پارٹی سربراہ بیرسٹر اسداالدین اویسی کی طرف سے، انہیں اپوزیشن اتحاد میں لینے کی درخواست کئے جانے کے باوجود، گذشتہ انتخاب پانچ ایم ایل اے جیتنے اور تین سیٹوں پر سب سے زیادہ ووٹ لئے دوسرے نمبر پر رہنے والی اے آئی ایم آئی کو، صرف چار سیٹیں دینے کا ہتک آمیز انداز کہتے ہوئے، انہیں اس مرتبہ بہار انتخاب میں، مختلف چھوٹی دلت پارٹیوں سے انتخابی گٹھ جوڑ کئے، 100 سیٹوں پر انہیں الگ سے آزادانہ انتخاب لڑنے مجبور کرتے ہوئے،کانگرئس آرجے ڈی نام نہاد سیکیولر اتحاد مہا گٹھ بندھن نے، اپنے پاؤں پر ایک حساب سے، خود سے کلہاڑی مار لی ہے
۔ اور بہار آسانی سے فتح حاصل کرنی کی انکی اپنی امیدوں پر پانی پھیر دیا پے۔ اب کی بہار انتخاب میں، سیکیولر بمقابلہ سنگھی پارٹیوں کے براہ راست مقابلے کے بجائے، ایک اور نام نہاد سیکیولر چانکیہ پرشانت کشور کی جن سماج پارٹی، بی جے پی کی بی ٹیم ہی کےطور 243 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کے اعلان بعد، نہ صرف پورے بہار میں تکونی ٹکراؤ انتخاب ہوگا، بالکہ 100 سیٹوں پر چار کونی مقابلہ ہونے کے مواقع پیدا کئےگئے ہیں۔اب تو انتخابی بخار تیز ہوتے پس منظر میں، آرجےڈی سپریمو تیجیسونی یادو کے بھائی تیج پرتاب یادو اپنے جن شکتی جنتا دل پارٹی کے نام سے 21 اسمبلی سیٹوں پر انتخاب لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے، کیا تیجیسونی یادو کے لئے واقعتا” مشکلات پیدا کئے اپنی سیاسی حیثیت منوانے کی کوشش کررہے ہیں یا بی جے پی کے چانکیہ مشہور امیت شاہ کے، ای ڈی انکم ٹیکس ڈر سے بلیک میل ہوتے،تیجیسونی یادو کے لئے، سردرد بنے ہوئے ہیں، اسکا فیصلہ تو آنےوالے دنوں میں ہی ہوگا
اگر بہار میں سنگھ خلاف قائم متحدہ محاذ مہاگٹھ بندھن میں، سابقہ بہار انتخاب نتائج ہی کے پیش نظر 8 سے 10 سیما نچل کی سیٹیں اے آئی ایم آئی کو دیتے ہوئے، بہت مضبوط سنگھ مخالف اتحاد قائم کئے، آسانی سے یکطرفہ انتخابی نتائج کے ساتھ نفرتی ٹٹو سنگھی حکمرانوں کو شکشت فاش دی جاسکتی تھی۔ “اب کیا ہوؤت جب چڑیا چگ گئی گھیت”
اب تک مختلف ٹی وی چینل اور سائبر میڈیا نیوز، چینلز کی طرف سے بہار انتخاب، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ جو اندازے سائبر میڈیا پر پیش کئےجارہے ہیں، 20 سالہ پلٹو چاچا کی نفرتی سنگھی حکومت کے خلاف،اینٹی اینکم بینسی فیکٹر کے چلتے، سنگھی پارٹیوں کو شکشت فاش دیتے انتخابی پس منظر میں، جس آسانی کے ساتھ آڑجے ڈی سپریو تیجسونی یادو کے، آسانی کے ساتھ چیف منسٹر بننے کے آثار لگ رہے تھے۔ اب، اے آئی ایم آئی کے 100 سیٹوں پر انتخاب لڑتے پس منظر میں، صدا جیتتےآثار والی پارٹیوں کو ووٹ دینے والے ووٹرس،بہار انتخاب بی جے پی، نتیش کی کھلی ہار دیکھتے، کھسک کر آر جے ڈی کی طرف آئے، آر جے ڈی کے خالص یادو ووٹ کا ایک طبقہ، آرجے ڈی سپریو تیجسونی یادو سے نکل کر، واپس نتیش بی جے پی کی طرف کھسکتے تناظر میں، کل کا ڈوبتا نتیش بی جے پی، این ڈی اے ایلائینس، آرجے ڈی ایلانس کو کڑی ٹکر دیتے، بہار میں معلق نتائج آتے،
اے آئی ایم آئی اسدالدین اویسی کے لئے، مستقبل کی بننے والی معلق حکومت میں، بھاؤ تاؤ کئے، اپنے سیمانچل ووٹروں کے لئے، ترقیاتی منصوبوں پر عمل آوری آسان بنا رہا ہے ۔ اس صورت حال میں، بہار کے مسلمان، جہاں جہاں بھی اے آئی ایم آئی امیدوار کے جیتنے کے چانسزز نظر آتے ہیں ان سیٹوں پر،آے آئی ایم آئی امیدوار کے حق میں پورے اتفاق سے یکجٹ ہوکر ووٹ ڈالے، انہیں جتانے کی کوشش کریں اور ایسی سیٹوں پر مسلم ووٹ بکھراؤ کی صورت، بی جے پی کی جیت ہوتی نظر آتی ہو تو، وہاں کے مسلم ووٹرس اپنے نظریاتی اختلاف پس پشت رکھے، کسی بھی پارٹی سے منسلک مسلم یا غیر مسلم سیکیولرامیدوار کے حق میں ووٹ ڈالے، سنگھی نفرتی ٹٹوؤں کو، اقتدار سے باہر رکھتے پائے جا سکتے ہیں
سب سے اہم جس طرح سے اب کی بار بہار انتخاب میں ایک طرف خود پر ووٹ کٹوا بی جے پی، بی پارٹی ہونے کا داغ دھونے ہی کے لئے اور سنگھی بی جے پی نتیش حکومت کو شکشت فاش دینے ہی کی نیت سے، اسدالدین اویسی کی طرف سے، آر جے ڈی کانگریس متحدہ محاذ کا حصہ بننے کی انکی درخواست باوجود، جس ھتک آمیز انداز آے آئی ایم اے کو متحدہ اپوزیشن اتحاد سے باہر رکھنے کا آرجے ڈی کانگریس کا فیصلہ لیا گیا ہے، اس سے اسدالدیں اویسی کو بہار انتخاب میں۔ اپنے مسلم ووٹ طاقت دکھانے یا ثابت کرنے کا بہترین موقع نصیب ہوا ہے۔ اس مادی نفرتی دنیا میں، جب نؤ ماہ اپنے کوکھ میں اپنے خون سے پرورش پانے والے، اپنے لاڈلے بچے کو، بعدپیدائش جب تک وہ روکر،بلبلا کر اپنے پیاسے ہونے کا اشارہ نہیں دیتا،اسکی اپنی ماں بھی اسےاپنی چھاتی سے لگا اپنا دودھ نہیں پلاتی ہے،
سابقہ تین دیے قبل سے ہم مسلمانوں کی ساڑھے پانچ سو سالہ پورے ملکیتی اور قبضہ والی بابری مسجد کو، اپنے جھوٹ افترا پروازی سے نفرتی ماحول پیدا کئے، ہزاروں سالہ گنگا جمنی سیکیولر تہذیب کے خلاف جاتے ہوئے، جس کی لاٹھی اسکی بھینس مثال مصداق، ساڑھے پانچ سو سالہ بابری مسجد کو، ہجومی تشدد کا نشانہ بنائے ڈھائے جاتے،اور دیش کے دستور و قانون کو بالائے طاق رکھے، عدلیہ عالیہ کو سنگھی ذہنیت نفرتی طور یرغمال بنائے،اپنے پورے قانونی ملکیتی کاغذ پتر ریکارڈ موجود رہتے،
بابری مسجد زمین کو، رام مندر بنانے جس طریق دیا گیا ہے اس سے ہزاروں سالہ آسمانی ویدک سناتن دھرمی سرزمین پر، اپنے اسلامی اثاث شروعاتی دنوں ہی سے، انتہائی امن چین و آشتی کے ساتھ، سابقہ دیڑھ ہزار سال سے رہتے آئے بھارتیہ آبادی کے پانچویں حصہ ہم تیس کروڑ مسلمانوں کو، سابقہ 11سالہ سنگھی رام راجیہ اس ملک پر حکومت سازی حق سے محروم رکھے جاتے پس منظر میں، اپنے جائز حقوق مانگنے سے بھی، نہ ملتے تناظرمیں، اپنے حقوق زبردستی چھین کر لینے کا کیا وقت نہیں آیا ہے؟
جس بہار یوپی میں 14 فیصد آبادی تناسب والے یادو برادری کو، کئی کئی سال تک دونوں ریاستی حکومتوں پر حکمرانی کے چانسز دستیاب ہوتے ہوں اس ملک ہندستان میں ہم اٹھارہ سے بیس فیصد امن پسند مسلمانوں کو، ہزار حیلے بہانوں سے، انتہائی کم تعداد حکومتی اقتدار سے فیض ہونے کیوں نہیں دیا جارہا ہے؟ ابھی بہار انتخاب پہلے انتخابی حصہ کے امیدواروں کے پرچہ نامزدگی داخل کرنے والی تاریخ سے، ایک دن پہلے، آرجے ڈی کانگریس مہاگٹھ بندھن کی طرف سے، جاری کردہ امیدواری فہرست میں 20 فیصد آبادی کی شرح والے ہم مسلمانوں کو،صرف 4 فیصد سے بھی کم امیدوار کھڑا کرتا مہاگٹھ بندھن کا متفقہ فیصلہ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے، کہ خود کو نام نہاد سیکیولر پارٹی کہنے والی، آرجے ڈی اور کانگرئس پارٹیوں کو، ہم 20 فیصد بہاری مسلمانوں کا ووٹ تو چاہئیے
لیکن وہ ہم مسلمانوں کو، فقط انہیں خاموشی سےووٹ دیتے اپناحق تک طلب نہ کرنے والے غلام مسلمان بناکر ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ سب سےاہم،مہاگٹھ بندھن کیطرف سے تجیسونی یادو کا چہرہ چیف منسٹر کے طور پیش کرنے والی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن، سابقہ تیس پینتیس سالوں سے آرجے ڈی کور ووٹر بنے صدا آرجے ڈی کو یکطرفہ ووٹ دیتے آنے والے،18 فیصد بہاری مسلمانوں کو درکنار کئے، کبھی آرجے ڈی میں تو کبھی بی جے پی آتے جاتے ڈھلماتے بیگن نما دو سے ڈھائی فیصد آبادی والےلیڈر کو ڈپیوٹی چیف منسٹر کے طور پیش کرتا مہا گٹھ بندھن کا فیصلہ، ایک طرف بہاری مسلمانوں کو انکی اوقات دکھاتا
مہاگٹھبندھن کا ہتک آمیز فیصلہ ہے تو، دوسری طرف اللہ رب العزت کی طرف سے بہاری مسلمانوں کے لئے یہ امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ اپنے ووٹ طاقت کو درشاتے یکطرفہ اپنے ووٹ جیتنے لائق مسلم امیدوار ہی کے حق میں ڈالتے ہوئے، زیادہ سے زیادہ مسلم امیدواروں کو کامیاب کراتے ہوئے،اپنے ہی ٹیکس پیسوں سے چلنے والی صوبائی حکومت اقتدار میں، بڑا نمایاں حصہ لیتے ہوئے، حکومتی من و سلوی کے بڑے حصے سے بہار کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈیولپمنٹ کاموں سے مسلم قوم کو بخوبی فیض یا کرائیں
ایسے مسلم مخالف سیاسی پس منظر میں، سابقہ بی ایس پی سپریمو کانشی رام کا، چالیس سال قبل دیا گیا، سیاسی نعرہ “بھارت کی آبادی میں، جس کی جتنی تعداد، (سنکھیا) حکومت سازی میں انکی اتنی ہی حصہ داری” اس پر عمل پیرا بھارتیہ ریاستی و مرکزی انتخاب میں، تمام انتخابی حلقوں کو، تمام ذات برادریوں میں برابر تقسیم کئے، ریزرو سیٹ پر صرف اسی ذات برادری کے لئے، مختلف سیاسی پارٹیوں کے درمیان انتخاب کرائے جائیں تو یقین مانئے، سنگھی نفرتی چنٹوؤں کی ہزار کوششوں کے باوجود، ہزاروں سال سے، اس مہان دھرتی بھارت پر، امن و چین شآنتی کے ساتھ رہتے آئے، ھندو مسلمان عیسائی دلت آدی واسی پچھڑی جاتیوں کے درمیان، نفرت کی دیوار کھڑی ہی نہیں کی جاسکے گی۔ اور یقینا” اس وقت “سب کا ساتھ سب کا وکاس” اور “اچھے دن آنے والے ہیں” جیسے سنہرے خواب نہ صرف دیکھے جا سکتے ہیں
بالکہ ان خوشنما خوابوں کی تعبیر پوری ہوتے ، جلد بہت جلد ہم تمام ھندو مسلم سکھ عیسائی جین پارسی، سبھوں کے ساتھ و وکاس کے ہمراہ، ہزاروں سالہ سناتن دھرمی بھارت، مسلم مغل شہنشاء اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کے وقت والے، اپنے 27 فیصد جی ڈی پی کے ساتھ، سونے کی چڑیا بنے اور عالم میں، مشہور ہوئے جیسا، اب بھی ہم ھندو مسلم سکھ عیسائی جین و پارسی، ان ان کے آبادی تناسب کے حساب، انہیں تفویض اسمبلی و پارلیمانی انتخابی سیٹوں پر، مل جل کر، اپنے اپنے امیدوار منتخب کرتے کراتے ہوئے،
سنگھی مودی منافرت سے ماورا، حقیقی معنوں میں، سب کا ساتھ، سب کا وکاس پر، عمل پیرا، پورے ساڑھے چار سو سال بعد، پھر ایک مرتبہ مہان بھارت میں “اچھے دن لوٹ آتے” مہان بھارت کو، پھر ایک مرتبہ سونے کی چڑیا مشہور عالم انسانیت کا اصلی وشؤگرو بنتے ہم دیکھ اور انجوائے بھی کرسکتے ہیں۔ویسے بھی اب کی بہار انتخاب میں، سنگھی نفرتی ٹٹوؤں کے خلاف پائے جاتے انتخابی رجحان، سیکیولر ذہن سناتن دھرمی ھندوؤں کے ساتھ دلت پچھڑی جاتی آدیواسی مسلم ووٹروں کے، آے آئی ایم آئی کو ووٹ دیتے یا انکے ووٹ حاصل کرتے پس منظر میں، 243 اسمبلی حلقاتی بہار انتخاب میں، آبادی میں 20 فیصد تناسب والے مسلم اقلیت کے کم و بیش مختلف پارٹیوں سے 40 تا 45 مسلم امیدوار جیت کر آنے چاہئیے
۔ لیکن سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس پس منظر میں کم و بیش ، آے آئی ایم آئی کے 15 سے 20 جیتنے والے امیدواروں کے بشمول، کل 25 سے 30 ایم ایل اے جیت کر آتے نظر آتے ہیں۔ اب کی بار، اس سنگھی نفرتی ٹٹو مخالف پس منظر والے انتخاب میں بھی، اگرکل مسلم امیدوار 20 تا 25 سے بھی کم جیت کر آتے ہیں تو پھر، بھارت کے ہم مسلمانوں کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی بچا رہتا ہے کہ آبادی میں جس کی جتنی تعداد، اس حساب سے حکومت سازی میں،اسکی اتنی ہی حصہ داری والے کانشی رام کے، دلت برادری کو سیاسی حقوق دلاتے نعرے کو، ہم مسلمان پوری طرح اپنائے ہوئے، اپنے پر آمن احتجاج سے بھارتیہ ہم مسلمانوں کو بھارتیہ مرکزی پارلیمنٹ و ریاستی اسمبلی نظام سیاست میں حصہ داری دلواسکتے ہیں
۔ اس دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں ہوتا ہے۔ جب دو فیصد عالم کی آبادی یہود اپنی سازشانہ مکارانہ حکمت عملی سے، درپردہ عالم انسانیت پر حکمرانی کرسکتے ہیں تو، عالم کی سب بڑی جمہوریت بھارت کی آبادی کے پانچویں حصہ والے 30 کروڑ ہم مسلمان اقتدار ھند بازیابی سے محروم کیوں کر چھوڑے جاسکتے ہیں؟ ظاہر ہے بابری مسجد شہید کئے جانے کے بعد سے اور خصوصا” سب کا ساتھ سب کاوکاس اوراچھے دن لانے والی یہ نام نہادایشور کےاوتار، وشؤ گرو مہان مودی یوگی کی ڈبل انجن رام راجیہ نفرتی سرکار آنے کے بعد سے، ہزاروں سالہ آسمانی ویدک سناتن دھرم والے، گنگا جمنی بھارت کو، پوری طرح زعفرانی نفرتی رنگ میں رنگنے کی کوششوں کے چلتے، دیش کی عدلیہ تحقیقاتی ایجنسیان اور قانون نافذ کرتے
ادارہ پولیس محکمہ تک میں،زعفرانی ذہنیت لوگوں کی بھرتی بعد، اپنےوقت کے تڑی پار ملزم کے ہاتھوں میں، وزارت داخلہ رہتے پس منظر میں، ہم مسلمانوں کو، اتنی آسانی سے ہماری مانگ پوری کئے جاتے، دیش پر حکومتی شراکت داری میں آبادی تناسب حصہ داری نہیں دی جائیگی۔ اسکے لئے ہمیں قربانیاں دینی پڑیں گی تاکہ مستقبل کی ہماری آل اولاد کو بھارت میں، عزت وایمان اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کرنا آسان رہے۔ وماالتوفیق الا باللہ
آر جے ڈی اور کانگریس کی بہار کے مسلمانوں کو کھلی چیتاؤنی نہ مسلم ایم ایل اے امید واری زیادہ مانگیں اور نہ اپنی لیڈرشب کو مضبوط کرانے کی فکر کریں بس اپنے ووٹ دئیے بی جے پی کو شکست دینے کے لئے، انکے مہا گٹھ بندن کو ووٹ دیں مطلب صاف ہے، اویسی کے ساتھ بھی نہ جائیں بالکہ ان نام نہاد سیکیولر پارٹیوں کے دم چھلہ بن کے رہیں۔ ابن بھٹکلی
عربستان میں اسلام آئے پہلے دن سے اسلام بھارت میں ہے اور ہمیشہ رہے گا یہ میں پہلے بھی کہا تھا اب بھی کہتا ہوں۔ ارایس ایس سربراہ موہن بھاگوت
کیا بہار میں آےآئی ایم آئی کا ڈپٹی سی ایم بنے گا؟
کیا بہار میں آےآئی ایم آئی کا ڈپٹی سی ایم بنے گا؟
متحدہ محاذ میں آے آئی ایم آئی کو ساتھ میں لینے سے انکار کرنے والے آرجے ڈی سپریمو تیجیسونی یادو کو کھلا چیلنج دیتے اسدالدین اویسی بہاری جنتا سے خطاب کرتے ہوئے