بھارت کی پراکسی اور پاکستان کا عزم !
افغانستان ایک عرسے سے بھارت کی نہ صرف پراکسی بنا ہوا ہے، بلکہ اس کی گود میں بیٹھ کر سازشیں بھی کر رہا ہے تو اس کے ساتھ کیسے چلا جاسکتا ہے، پاکستان اب ماضی کی طرح کے تعلقات کامتحمل نہیں ہوسکتا کہ افغانستان در اندازی بھی کرتا رہے ،بھارت کی پراکسی وار بھی لڑتا رہے اور پا کستان خا موشی سے بر داشت کر تا رہے ، اس لیے ہی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے دفاعِ وطن کا عزم دہراتے ہوئے واضح کردیاہے کہ ملکی سرحدی سالمیت کی کسی بھی قسم کی‘ براہِ راست یا بالواسطہ‘ خلاف ورزی کا بھرپور اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا اور اپنے شہریوں کی جان ومال کا تحفظ بہرصورت یقینی بنایا جائے گا۔
ساری دنیا جا نتی ہے کہ افغان حکو مت دوسری کی پراکسی وار کا حصہ بنی ہوئی ہے اور طالبان کی حمایت کررہی ہے ، اس کے بار ہا ثبوت دیے گئے ہیں ،اس کے باوجود بھارت کی گود میں بیٹھ کر سر عام جھوٹ بولا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ ہمارے ہاں سے کوئی در اندازی ہورہی ہے نہ ہی کسی کی سر پر ستی کی جارہی ہے ، اس کے جواب میں ہی آرمی چیف کا کہنا تھا کہ بھارتی سپانسرڈ فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج نہ صرف عوام مخالف پروپیگنڈا کر رہے ہیں ‘ بلکہ افغان حکو مت کی معاونت سے دہشت گرد پراکسی وار بھی لڑرہے ہیں ، اس دہشت گرد پراکسیوں کے خاتمے کیلئے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔
اگر دیکھا جائے توحالیہ عرصے میں پاکستان کے سکیورٹی خدشات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ان حالات کو مشرقی سرحدی صورتحال سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا ہے، اگرچہ بھارت کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ تو ہمیشہ سے جاری ہے، مگر معرکہ حق میں پاکستان کے ہاتھوں شکست فاش کے بعد بھارت نے اپنی توجہ ہائبرڈ وار پر مبذول کر دی ہے اور اب مشرقی سرحدوں پر کشیدگی برقرار رکھنے کیساتھ مغربی سرحدوں پر بھی محاذ گرم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کے باعث ہی مئی کی جنگ کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں 15 فیصد، جبکہ سویلین اور سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتوں میں 34 فیصد سے زائد اضافہ ضرور ہواہے ، لیکن اب پا کستا ن تحیہ کر چکا ہے کہ دہشت گردوں کا افغانستان کے اندر جا کر سد باب کر نے سے گریز نہیں کر ے گا۔
یہ ایک مسلمہ سچائی ہے کہ فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج جیسے گروہ آزادانہ طور پر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے‘ اگر انہیں علاقائی سطح پر ریاستی سرپرستی میسر نہ کی جائے، پاکستان بہت پہلے سے ہی دنیا کو اس حقیقت سے آگاہ کرتا آرہا ہے کہ بھارت افغانستان اور پاکستان کی مغربی سرحدوں میں اپنی پراکسیوں کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنے کی مذموم سازشوں میں مصروف رہاہے،اس کے ثبوت بھی دکھائے جاتے رہے ہیں ، افغان حکو مت کی یقین دھانیوں کے باوجود در اندازی نہ صرف جاری رہی ہے ، بلکہ اس میں دن بدن اضافہ بھی ہو تا گیا ، افغان حکو مت ان کے خلاف کار وائی کر نے کے بجائے ان کا ساتھ دیتی آرہی ہے اور اس کو مان بھی نہیں رہی ہے، بلکہ بھارت کی گود میں بیٹھ کر پا کستان کے خلاف بیان بازی کررہی ہے۔
دراصل بلوچستان میں سی پیک جیسے عظیم ترقیاتی منصوبے بھارت کو ہضم ہو رہے ہیں نہ ہی ملکی استحکام دیکھا جارہا ہے ، اس حوالے سے بھارتی حکام اپنا بغض کھلے عام اُگل چکے ہیں‘ اور اس پراکسی جنگ کابھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو منہ بولتا ثبوت ہے‘ جو کہ پاکستان کے مغربی سرحدی علاقوں میں ایک پورا نیٹ ورک چلا رہا تھا، اب افغانستان کی غیر مستحکم صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت اسے ایک لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کررہا ہے، اس حوالے سے پراکسی وار کے علاوہ سائبر وار‘ پروپیگنڈا اور ہائبرڈ وار کے دیگر حربے بھی استعمال کیے جا رہے ہیں،ہمارے سکیورٹی ادارے اس ساری صورتحال سے باخبر ہیں اور ملکی دفاع کیلئے ٹھوس اقدامات بھی کر رہے ہیں ‘ تاہم بھارت کی شر پسندی‘پراکسی اور ہائبرڈ وار کے تدارک کیلئے ہمہ جہت حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔
اس حوالے سے عالمی سطح پر بھارت کی شر انگیزی اور دہشت گردوں کی سرپرستی کے معاملے کو اٹھانے کے علاوہ داخلی سطح پر بھی متعدد اقدامات کرنا ہوں گے ، ہمیںسکیورٹی انتظامات بڑھانے کیساتھ اپنے پسماندہ علاقوں میں معاشی و سماجی ترقی کی راہیں بھی کشادہ کرنا ہوں گی،کیو نکہ اس کا بلوچستان اور قبائلی اضلاع کی پسماندگی سے گہرا تعلق ہے، تعلیم‘ شعور اور ہنر سے محروم افراد آسانی سے انتشار پسند دشمنوں کا آلہ کار بن جاتے ہیں، اس ذہنیت کا مقابلہ علم وہنر کی ترویج اور روزگار کے مواقع سے کیا جا سکتا ہے، اس کیساتھ مسئلے کی سیاسی جہت پر بھی توجہ دینی چاہیے ، ملک میں پا لیسیاںبنتی اور تبدیل ہو تی رہتی ہیں ، لیکن ان پالیسیوں کی تشکیل میں مقامی عوام اور عمائدین کو آن بورڈ نہیں لیا جاتا‘ اگر سارے ہی سٹیک ہولڈرز کی شرکت کو یقینی بنایا جائے تو مسائل کا نہ صرف پائیدار حل نکالنا، بلکہ دشمن کی ہر پراکسی کو ناکام بنانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔