یقین اور وہم کے درمیان زندگی
تحریر ؛ ظفر عالم چیمہ
جب انسان نے پہلی بار کھیتوں میں ایک پتلا بنایا، تو مقصد یہ تھا کہ پرندوں کو بیج کھانے سے روکا جا سکے۔ لیکن اس سادہ سے عمل نے انسان کو ایک گہری حقیقت سمجھا دی — کہ وہم، حقیقت سے کہیں زیادہ طاقتور اور خوفناک ہو سکتا ہے۔ پرندے دراصل کسی خطرے میں نہیں ہوتے، مگر اس پتلے کو دیکھ کر وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی انسان موجود ہے، اس لیے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں۔ یہی انسانی زندگی کی کہانی ہے — ہم میں سے اکثر لوگ انہی “پتلوں” سے خوفزدہ رہتے ہیں جو حقیقت میں موجود ہی نہیں ہوتے۔
زندگی میں کئی ایسے خوف ہیں جو صرف ہمارے ذہن کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ہم کسی ناکامی، بیماری، غربت یا تنقید کے ڈر میں مبتلا رہتے ہیں، حالانکہ ان میں سے اکثر چیزیں کبھی پیش ہی نہیں آتیں۔ لیکن ہمارا وہم، ہماری سوچ، ان کو اتنا بڑا بنا دیتی ہے کہ ہم خود کو مفلوج سا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ جیسے پرندے ایک کھوکھلے پتلے سے ڈر کر اپنی خوراک چھوڑ دیتے ہیں، ویسے ہی ہم اپنے خواب اور مواقع چھوڑ دیتے ہیں، صرف اس لیے کہ ہمیں کسی نامعلوم خطرے کا وہم ہوتا ہے۔
وہم کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ آہستہ آہستہ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔ اگر انسان بار بار کسی بات کا خوف پال لے، تو وہ ذہن میں ایک ایسی تصویر بنا لیتا ہے جس پر یقین کرنے لگتا ہے۔ یہی یقین اس کی سوچ، فیصلے اور اعمال پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یوں ایک غیر حقیقی چیز، ایک خیالی خطرہ، زندگی کی حقیقت بن جاتا ہے۔
انسان نے ہمیشہ اپنے اردگرد کے خوف کو کم کرنے کے لیے آلات، دیواریں اور نظریات بنائے، مگر اندر کے خوف کا کوئی حل نہیں نکالا۔ وہم دراصل اندرونی کمزوری کا نام ہے۔ یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یقین کمزور ہو جائے، اعتماد ڈگمگا جائے، اور انسان حقیقت سے منہ موڑ لے۔ جو لوگ زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتے ہیں، وہ وہم کے جال سے باہر نکل آتے ہیں۔ لیکن جو حقیقت سے آنکھ چراتے ہیں، وہ اپنے ہی خیالات کے قیدی بن جاتے ہیں۔
وہم ایک ایسا دشمن ہے جو نہ نظر آتا ہے نہ پکڑا جا سکتا ہے، مگر اس کا اثر انسان کی زندگی کے ہر پہلو پر ہوتا ہے۔ یہ انسان کے فیصلے بگاڑ دیتا ہے، تعلقات کمزور کر دیتا ہے، اور کامیابی کے راستے بند کر دیتا ہے۔ اکثر اوقات ہم کسی موقع سے صرف اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کہ ہمیں لگتا ہے ہم ناکام ہو جائیں گے۔ لیکن جب ہم بعد میں حقیقت دیکھتے ہیں تو پچھتاوا ہوتا ہے کہ یہ تو اتنا مشکل ہی نہیں تھا جتنا ہم نے سمجھا تھا۔
زندگی میں خوف سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے — حقیقت کا سامنا کرنا۔ چیزوں کو جیسے ہیں ویسے دیکھنے کی عادت ڈالنا۔ جب انسان اپنے وہم کے سامنے “یہ صرف میرے ذہن کا کھیل ہے” کہہ دیتا ہے، تو آدھا خوف خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ ۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔